آزادکشمیرالیکشن کمیشن آئین کی نظرمیں

میں نے آنکھوں میں تکلیف اور انگوٹھے کے رعشہ کی وجہ سے گرفت ڈھیلی پڑ جانے سے، اپنے لکھنے پر پابندی عائد کردی تھی ، لیکن جب آئین کی خلاف ورزیاں ، اداروں کی بے حرمتی اور بے کسوں کی بے بسی دیکھتا ہوں تو رہا نہیں جاتا کہ اس قوم نے اتنی عزت ، اس ریاست نے اتنا وقار اور اس کے خزانے کی اتنی فراخی کے باوجود ، اگر میں یا میری جیسی مراعات لینے والا کوئی اور نہ بولے ، اس پر اُنگلی نہ اٹھائے ، اور قوم کو ایجوکیٹ نہ کرے ، تو بڑی بد دیانتی ہو گی –

میرے جیسے منصب سے ریٹائر ہونے والوں کو نوکریاں تلاش کرنے اور سیاست دانوں کی خوشامد کرنے کے بجائے یہ قومی ذمہ داری نبھانی چاہیے اور بے نواؤں کی نوا بننا چاہیے- یہ کام عوام الناس کے حقوق کے تحفظ ، اداروں کی مدد ، ان کو مضبوط بنانے ، ان کو باہر کے مُہم جؤوں سے اور عوام کو ان کے اندر کے مہم جؤوں سے بچانے کے لئے کھایا پیا حلال کریں –

دو دن پہلے کشمیر کونسل کی بد اعمالی کی وجہ سے ہائی کورٹ کی ساکھ داؤ پر لگنے پر اپنے جذبات تحریر کیے ، جس کے کچھ حصے شائع ہونے سے رہ گئے – آج الیکشن کمیشن کے حوالے سے سپریم کے فیصلے نے ، یہ لکھنے پر مجبور کیا –

اس کا پس منظر یوں ہے کہ میرپورسے اسمبلی نشست پر منتخب نمائندے چوہدری محمد سعید ، جو حکومتی وزیر بھی تھے ، کو سپریم کورٹ نے کسی کیس میں نااہل قرار دیا جس پر ضمنی انتخاب کی کارروائی زیر کار ہے- وہ فیصلہ تو مجھے پڑھنے کا اتفاق نہیں ہوا البتہ آج کے اخباروں سے معلوم ہوا کہ اس نشست پر ضمنی انتخاب کو ہائی کورٹ میں اس بناء پر چیلنج کیا گیاتھا کہ چئیرمین نہ ہونے کی وجہ سے الیکشن کمیشن موجود ہی نہیں، اس لیے الیکشن نہیں کرائے جا سکتے – لیکن رٹ پٹیشن ابتدائی سماعت کے بعد سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس کے ایک مکتوب کی روشنی میں خارج کی گئی-

اس کی مختصر تفصیل یوں ہے کہ سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس نے فیصلہ کے بعد الیکشن کمیشن کو ممبر کی نااہلی نوٹی فائی کرنے کا لکھا تھا ، لیکن الیکشن کمیشن کی طرف سے بہ واپسی لکھا گیا کہ چئیرمین نہ ہونے کی وجہ سے کمیشن مکمل نہیں، اس لیے ممبر کی نا اہلی کا نوٹیفکیشن جاری نہیں کیا جا سکتا- سپریم کورٹ کے رجسٹری آفس کی طرف سے واپسی مکتوب میں لکھا گیا کہ”چئیرمین کے نہ ہونے سے کمیشن ختم نہیں ہو جاتا ، آئین کی دفعہ 25 کے تحت کاروائی کریں اور متعلقہ اتھارٹیز کمیشن کو مکمل کریں” –

حالانکہ عدالتیں سپریم کورٹ کے مکتوبات کی نہیں ، اس کے فیصلوں کی پابند ہوتی ہیں ، اس کا منہ بولتا ثبوت سپریم کورٹ کا فیصلہ ہے جس کے تحت اسی مکتوب کے باوجود کیس ریمانڈ کی گیا – ججوں یا عدالتوں کے صرف وہ فیصلے قابل اتباع ہیں جو لکھے اور جاری کیے گئے ہوں-

ہائی کورٹ کے حکم کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل پر ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ کرتے ہوئے ہدایت کی گئی کہ رٹ پر با ضابطہ سماعت کے بعد میرٹ پر فیصلہ کیا جائے کیونکہ اس میں آئینی نوعیت کے اہم نکات اٹھائے گئے ہیں – یہی ہونا چاہیے تھا- سپریم کورٹ نے درست طور ہائی کورٹ کا فیصلہ منسوخ کرکے میرٹ پر فیصلہ کرنے کی ہدایت کی-

چیف الیکشن کمشنر کے نہ ہونے سے عدالتی احکامات کمیشن کے حکم کے تابع نہیں ہوتے ، وہ آئینی طاقت پر خود بخود نافذ ہوجاتے ہیں ، کمیشن کے سیکریٹریٹ نے ان کو اطلاع عام کے طور نو ٹیفکیشن کے ذریعہ مشتہر کرنا ہوتا ہے جو کمیشن کے سیکریٹری کا کام ہے ، اس میں الیکشن کمیشن کے مکمل ہونے یا نہ ہونے کا کوئی لینا دینا نہیں –

کیس زیر تبصرہ میں الیکشن چونکہ ایک سیٹ کے خالی ہونے سے واجب ہوا ہے ، اس کے بارے میں آئین کی دفعہ 25 بالکل واضع اور غیر مبہم ہے ، جس کی رو سے ” اگر اسمبلی کی مدت ایک سو بیس دن پہلے ختم ہونے والی نہ ہو ، تو خالی ہونے والی نشست پر ساٹھ دن کے اندر الیکشن کرائے جائیں گے ”

ضمنی یا جنرل الیکشن کیسے کرائے جائیں گے ؟ اس کا طریقہ کار آئین کی دفعہ 50 کے تحت بل وضاحت درج ہے، جس کی ذیلی دفعہ 7 کے تحت ” الیکشن کمیشن صدر ، اسمبلی، کونسل اور لوکل باڈیز کے الیکشن کرائے گا -” اور الیکشن کمیشن کی تعریف دفعہ 50 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت کی گئی ہے –

آزاد کشمیر کے آئین کی تیرھویں ترمیم کے تحت ، ایک چیف الیکشن کمشنر کے کام کے لیے تین کمشنرز پر مبنی ایک ہائی پاور الیکشن کمیشن بنایا گیا ہے -الیکشن کمیشن کی تعریف دفعہ 50 کی ذیلی دفعہ 2 کے تحت یوں کی گئی ہے ، ”الیکشن کمشن، چیف الیکشن کمشنر ، جو چئیرمین کہلائے گا اور دو ممبران پر مشتمل ہوگا ” – چئیرمین کی تقرری وزیراعظم اور قائد حزب اختلاف کی مشورے کے بعد چئیرمین کونسل کی ایڈوائس پر صدر ریاست کرتے ہیں ، یہ بھی الیکشن کمشنر کہلاتے ہیں -“

دو ممبران کی تقرری وزیراعظم کی ایڈوائس پر صدر کرتے ہیں – یہ بھی ایک مبہم صورت حال ہے کہ جب کمشنر س کے الیکشن کرانے کے اختیارات مساوی ہیں تو تقرری کا طریقہ کار ایک جیسا کیوں نہیں ؟

اس دفعہ کے ذیلی ضمن 8 اور 17 کے تحت کمیشن کے” اختیارات اور ذمہ داریوں کا تعین آئین اور اسمبلی کے ذریعے بنائے گئے قانون کے تحت کیا جائے گا “ – اسمبلی نے اس آئینی دفعہ کے تحت اس وقت تک کوئی قانون نہیں بنایا اور اس نئی دفعہ کے تحت پرانے قوانین کو تحفظ بھی نہیں دیا گیا جو سب کے سب “ چیف الیکشن کمشنر “ کی ذات کے ارد گرد گھومتے ہیں –

آئین کی واضح دفعات اور عدالتی فیصلہ جات کی روشنی میں ، جب تک اس دفعہ کی منشاء کے مطابق اسمبلی قانون نہیں بناتی ، کمیشن اپنے سیکریٹریٹ کے انتظامی امور کے علاوہ ، کوئی اختیارات اور ذمہ داریاں ادا کرنے کا اختیار نہیں رکھتا- کمیشن کے انتظامی امور تو روٹین میں چلائے جا سکتے ہیں، لیکن کمیشن جس کام کے لئے بنایا گیا ہے ، “ آزادانہ اور منصفانہ الیکشن کروانا، “ وہ کمیشن کے پورے ممبران ، مع چئیرمین (چیف الیکشن کمشنر) کے ، دو ممبران کرانے کا اختیار نہیں رکھتے، کیونکہ دو ممبر کمیشن کی تعریف میں نہیں آتے اور آئین اس کی اجازت نہیں دیتا –

یک نفری چیف الیکشن کمشنر سے سہ نفری کمیشن بنانا احسن اقدام ہے ، اس سے زیادہ اہم اس کا فعال اور باوقار ہونا ہے ، جو دفعہ 50 کے آئینی تقاضے پورے کرنے سے ممکن ہو سکتا ہے – اس سے پہلے کئی ماہ تک کمیشن کے ممبران کی تنخواہ مراعات کا تعین نہیں ہو سکا، جب وہ غیر منصفانہ طور طے ہوا ، تو وہ بھی مقدمہ بازی کا شکار ہوگیا –

مجھے بتایا گیا ہے کہ سروس ٹریبونل کے ممبران کی شرائط ملازمت بھی عدالت کے زیر تجویز ہیں – سارے کام عدالتیں نہیں کر سکتیں نہ ان کو انتظامی اور قانونی سازی کی بدمعاملگیوں میں گھسیٹا جائے ۔ ان کو اسی حد تک رہنے دیا جائے جو قانونی حدود ان کے لئے مقرر ہیں –

الیکشن کمیشن سپریم کورٹ اور ہائی کورٹ کی طرح ایک معتبر آئینی ادارہ ہے ، جس نے ریاست کی حکومت بنانے کے لیے اسمبلی کے الیکشن کرانا ہوتے ہیں ، اسی لیے واحد چیف الیکشن کمشنر کے بجائے اس کو تین رکنی ادارہ بنایا گیا تاکہ الیکشن کے منعقد کرنے کے حوالے سے اس کے فیصلے مختلف آراء کی روشنی میں عمل میں آئیں، جس سے الیکشن کے سسٹم پر لوگوں کا اعتماد پختہ تر ہو-

تین ممبران کے ہونے کا مقصد بھی یہی ہے کہ اگر اختلاف رائے ہوجائے تو اکثریت رائے کے مطابق فیصلہ ہو – دو ممبران کے درمیان اختلاف سے تعطل پیدا ہو سکتا ہے اور ایک ممبر اثر پذیر بھی ہو سکتا ہے ، اسی لیے الیکشن کا انعقاد “ کمیشن “ کے سپرد کیا گیا ہے ، انفرادی یا دو ممبران کے نہیں ۔

ہائی کورٹ اور سپریم کورٹ میں چیف جسٹس کو مقدمات سننے کے لیے الگ الگ بنچ بنانے کا اختیار دیا گیا ہے اور چیف جسٹس کا عہدہ خالی ہونے سے یہ عدالتیں معطل نہیں ہو جاتیں کیونکہ ہر جج کے پاس مقدمات سننے کا اختیار موجود رہتا ہے ، چیف جسٹس اختیار نہیں دیتا بلکہ مقدمات سننے کی ترتیب مقرر کرتا ہے –

مزید یہ کہ چیف جسٹس کا عہدہ خالی ہونے کی صورت میں قائم مقام چیف جسٹس مقرر کرنے کا طریقہ کار بھی موجود ہوتا ہے جو چیف جسٹس کا عہدہ خالی ہوتے ہی قائم مقام چیف جسٹس کے ذریعہ وجود میں آجاتا ہے – دفعہ 50 کی ذیلی دفعہ 9 کے تحت چئیرمین الیکشن کمیشن کا عہدہ خالی ہونے کی صورت میں سینئر ممبر چھ ماہ تک قائم مقام چئیرمین کے فرائض انجام دے سکتا ہے جو مدت یہاں ختم ہونے کے بعد بھی آٹھ ماہ سے زیادہ گذر گئے ہیں ، لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہوتا-!!!

یہ معاملہ بھی چئیرمین کشمیر کونسل کی ایڈوائس نہ ہونے کی وجہ سے اٹکا ہوا ہے، جیسا کہ ہائی کورٹ میں بے ہنگم اور آئینی دفعات اور روح کے خلاف من مانی ایڈوائیسز جاری ہونے سے آزاد کشمیر عدلیہ وقتآ فوقتآ بحران کا شکار ہوتی رہی اور اب ہائی کورٹ کے حوالے سے یہ بحران عروج پر پہنچ گیا ہے- شنیدہے کہ چیف الیکشن کے تقرر میں بھی میں بھی مرکز اور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے با اختیار ، برادریوں کے چکر میں اور کچھ خودغرض ادارے کو ایسے ہی رہنے دینے کے مشورے دے رہے ہیں تاکہ آئین کی موجودہ پوزیشن کے پیش نظر نئے امیدوار پرانی خدمات کا صلہ لینے میدان میں آ جائیں ، جس وجہ سے معاملہ التواء کا شکار ہے- افسوس ناک یہی ہے کہ سب ذاتی اغراض سے دیکھ رہے ہیں ، ادارے اور ریاست جائیں بھاڑ میں-

آزاد کشمیر حکومت ، (بلکہ ساری آزاد کشمیر لیڈر شپ ) کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس طرف توجہ دے جو ان کی آئینی ذمہ داری ہے اور اس کا وجود آئین کی روشنی میں صرف اسی لئے مختص ہے ، باقی کچھ نہیں- کشمیر کی آزادی کے نام پر مگرمچھ کے آنسو بہانے ، دنیا بھر کے دورے اور وہاں جلسے جلوس کرا کر آپ کچھ نہیں کر سکتے ، صرف اپنے نام سچی جھوٹی کہانیاں منسوب کراکر اپنا وقار مجروح کرا سکتے ہیں – اس سے کشمیر آزاد نہیں ہوگا ، جو ہے وہ بھی تباہی کا شکار ہو جائے گا – اگر اپنی استعداد کار اور اہلیت نہ بڑھائی گئی تو مقبوضہ کشمیر میں آپ کے لیے تو کیا ، پاکستان کے لیے بھی کوئی وجہ کشش نہیں رہے گی – اس کا ادراک کریں –

کشمیر کا مسئلہ اگر اقوام متحدہ کے 192 ممالک اور پاکستان ، تین براہ راست اور کئی بالواسطہ جنگوں سے ابھی تک حل نہیں کرا سکا ، آزاد کشمیر کی حکومت نہ کچھ کر سکتی ہے اور نہ اس کے بس کی بات ہے – یہ اگر حکومت پاکستان سے چیف الیکشن کمشنر کی ایڈوائس نہیں لے سکی، آئین کے تحت الیکشن کمیشن کی کارکردگی ، اس کے اختیارات ، فرائض اور ذمہ داریوں سسے متعلق اپنی اسمبلی سے قانون نہیں کرواسکی حالانکہ حکومتی پارلیمنٹری پارٹی پوری کی پوری مقننہ سے انتظامیہ بن گئی ہے ، کشمیر کے لیے بین الاقوامی دنیا سے کیا بات منوا سکتی ہے؟

اپنے گھر اور اداروں کو سنواریں ، ان کی استعداد کار کو بڑھا کر کشمیر کی آزادی کے لیے کارروائی بھی کریں اور مزید اختیارات کا تقاضا بھی-

اہلیت اور استعداد کی یہ حالت ہے کہ اخباری رپورٹس کے مطابق میرپور کے ایک حلقہ انتخاب میں انتخاب کی خاطر 2700 پولیس اہلکار تعینات کیے جارہے ہیں، ایسی حالت میں جنرل انتخاب میں چالیس حلقہ ہائے انتخاب کے لئے 108,000 پولیس یا UN PEACE KEEPING FORCES چاہیے ہوگی – حیرت ہے –

صرف الیکشن کمیشن ہی نہیں ، سارے ریاستی ادارے، بالخصوص حکومتی ادارے اپنی استعداد کار کو بہتر کریں ، اپنی اپنی حدود ، ذمہ داریوں ، اختیارات کو سمجھیں ، ان حقائق کی طرف توجہ دیں اور اپنے ہونے کی جوازیت کا ثبوت دیں – ذمہ داریاں ، فرائض اور اختیارات کے صحیح اور بر وقت ادا نہ ہونے اور انصاف نہ کرنے سے لا قانونیت پھیل جائےگی ، جو سیکیورٹی رسک ، اور ریاست کی خدا نخواسطہ بیخ کنی کا باعث بنے گا ، اس کا سب ادراک کریں –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے