بیرون ملک بھیجے گئے سرمائے کو واپس لانے کا کوئی طریقہ نہیں، شبیر زیدی

اسلام آباد: چیئرمین ایف بی آرشبیر زیدی نے کہاہے کہ پاکستان سے ماضی میں پیسہ باہرگیا اورلوگوں نے بیرون ملک محفوظ ٹھکانے بنائے جب کہ بیرون ملک بھیجے گئے سرمائے کو واپس پاکستان لانے کاکوئی طریقہ نہیں ہے۔

معاشی خوشحالی کیلیے علاقائی استحکام کے موضوع پر سیمینارکا انعقادکیاگیا، سمینار میں عالمی بینک کے کنٹری کنٹری ڈائریکٹرالانگو پاچا موتھو، انسانی حقوق کی سرگرم ایکٹویسٹ خالدہ غوث، سینئرصحافی فہد حسین ودیگر نے بھی شرکت کی۔

اس موقع پراظہار خیال کرتے ہوئے چیئرمین ایف بی آرشبر زیدی نے کہاکہ پاکستان سے ماضی میں پیسہ باہرگیا اور لوگوں نے بیرون ملک محفوظ ٹھکانے بنائے،گزشتہ 20 سال میں پاکستان سے سالانہ 6 ارب ڈالر بیرون ملک گئے، پاکستان میں اب لوگ منی لانڈرنگ، اسمگلنگ، حوالہ ہنڈی پر بات کر رہے ہیں، ماضی میں اس موضوع پر بات نہیں کی جاتی تھی۔ 1990کی دہائی سے ہی سرمایہ بیرون ملک جانا شروع ہوگیا تھا، لوگوں نے دوبئی اوربنگلہ دیش میں بھی سرمایہ کاری کی۔

ان کا کہنا تھا ہم پاکستان کے تمام بزنس ہاؤسز سے بات کر رہے ہیں، ہمیں اندرونی امن واستحکام کیلئے کام کرنا ہوگا۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا پاکستان میں بڑے شہروں کا پراپرٹی ٹیکس میں حصہ کم ہے، تہران سمیت دیگر ملکوں کے بڑے شہروں کا ٹیکسوں میں حصہ کہیں زیادہ ہے، یہ ملک اس طرح نہیں چلایا جا سکتا۔

انہوں نے کہا پاکستان سے سارا پیسہ قانونی طریقے سے باہرگیا، قانونی طریقے سے باہر جانے والا پیسہ واپس نہیںلایا جا سکتا، فارن کرنسی اکاونٹس کے ذریعے پیسہ باہر گیا، پاکستانیوں نے پیسہ قانونی طریقے سے بغیر ٹیکس ادا کئے بیرون ملک منتقل کیا، ماضی میں پیسہ بیرون ملک جانے سے روکنے کیلیے کوئی روک ٹوک نہیں تھی۔

انہوں نے کہا ہم نے تعلیم اور صحت کے شعبے کی نجکاری کر دی، لیکن پچھلے بیس سال سے حقیقی نجکاری نہیںکی گئی۔ چیئرمین ایف بی آر نے کہا بیرون ملک بھیجی گئی رقم واپس پاکستان لانیکا طریقہ موجود نہیں، پاکستانی اب بھی اپنا سرمایہ بیرون ملک بھیج رہے ہیں، اس میں کرپشن کا پیسہ 15 سے 20 فیصد ہے، پاکستانی معیشت کو ٹھیک کرنے کے لیے کاروباری افرادکا اعتماد بحال کرنا ہوگا، مالدار افرادنے اپنے گھر بیرون ملک بنائے ہوئے ہیں، ان کے بچے بیرون ملک تعلیم حاصل کرتے ہیں، زراعت سے کوئی ٹیکس نہیں آتا، ڈاکٹرز، انجینئرزٹیکس نہیں دیتے، ریٹیلرز اعشاریہ تین فیصد ٹیکس دیتے ہیں، مینوفیکچرنگ شعبے سے 70فیصد ٹیکس آتا ہے، سیلزٹیکس کی شرح 17فیصد سے نہیں بڑھا رہے، سیلزٹیکس کی شرح 18یا 19فیصد نہیں کر رہے۔ انہوں نے کہاکہ منی لانڈرنگ سے باہرگیا پیسہ واپس نہیں لا سکتے،کرپشن کا پیسہ واپس لائیںگے۔

اس موقع پر عالمی بینک کے کنٹری ڈائریکٹرالانگو پاچا میتھونے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ معیشت کی بہتری کیلئے مل کرکام کرنے کی ضرورت ہے، اگلے تیس سال میں پاکستان کا شمار بڑی معیشتوں میں ہوگا، پاکستان میں آبادی کا تناسب گروتھ ریٹ سے دوگنا ہے، پاکستان کی معیشت کو مختلف مسائل کا سامنا ہے، حکومت کی ترجیحات درست سمت میں ہیں، رواں مالی سال کی پہلی سہہ ماہی میں ٹیکس ریونیو میں پندرہ فیصد بہتری آئی، پاکستان کو صحت اور تعلیم کیلئے زیادہ فنڈزمختص کرنے کی ضرورت ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی نسبت بنگلادیش اور ویتنام میں ہیلتھ اورتعلیم کیلئے زیادہ بجٹ مختص کیا جاتا ہے، پاکستان میں زرعی شعبے میںجدت لانے کی ضرورت ہے، شوگر،کاٹن اور چاول کی فصلوں میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے پیداوار میں اضافہ کیا جا سکتا ہے،کراچی معاشی سرگرمیوں کا مرکزلیکن اسے انفراسٹرکچر سمیت بہت مسائل درپیش ہیں، چھوٹے اوردرمیانے درجے کے کاروبار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، پاکستان میں کاروبار کیلئے آسان طریقہ اورآسان ٹیکس سسٹم بہت ضروری ہے، حکومت ٹیکس سسٹم میںآسانیاں پیداکر رہی ہے، جنوبی ایشیا ممالک میں پاکستان کی برآمدات کم ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے