آڈیٹر جنرل آف پاکستان نے آڈٹ رپورٹ میں خیبرپختونخوا کے مالی امور میں سنگین بے قاعدگیوں کا انکشاف کرتے ہوئے کہاہے کہ 2017-18ء میں خیبرپختونخوا کے مالیاتی امور میں 25 ارب 85کروڑ 34لاکھ روپے سے زائد کی بے قاعدگیاں ہوئی ہیں، جن میں براہ راست 19کروڑ 28لاکھ روپے کا غبن اور بدعنوانی کو ریکارڈ کی گئی ہے ۔
خیبرپختونخوا اسمبلی میں اڈیٹر جنرل آف پاکستان کی جانب سے 2017-18ء کی اڈٹ رپورٹ جمع کی گئی ، جس میں بتایاکہ گیا ہے کہ مجموعی طور پر 24 محکموں اور اداروں کی مالیاتی امور کی جانچ پڑتال کی گئی ہے، جن میں محکمہ زراعت، انتظامیہ، مواصلات ، تعلیم ، توانائی، ماحولیات، خوراک ، صحت ، داخلہ ، صنعت، اب پاشی، مقامی حکومتیں، معدنیات، ترقی و منصوبہ بندی، صوبائی اسمبلی، آبادکاری ، سماجی بہبود، جنگلات، خزانہ، فنی تعلیم،سیاحت، ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن، اسٹیٹ اور ٹرانسپورٹ شامل ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مجموعی طور پر 19کروڑ 28لاکھ 58ہزار کی براہ راست بدعنوانی اور غبن ہوا ہے۔ اس سے قبل کہ اڈٹ رپورٹ میں آٹھ ارب، 25کروڑ 84لاکھ روپے کے وصولوں کے احکامات جاری کئے گئے تھے لیکن چار ارب نو کروڑ 24لاکھ روپے کی وصولیاں پھر بھی نہیں ہوئی۔
اڈٹ رپورٹ کے مطابق بیشتر محکموں نے تعمیراتی کاموں کے دوران چار ارب 60کروڑ روپے سے زائد کی ادائیگیاں کی گئی ہیں۔ سرکاری گاڑیوں کو بری طرح استعمال کرتے ہوئے قومی خزانے کو 13کروڑ روپے سے زائد کا نقصان پہنچایا گیاہے۔
اسی طرح متعدد سرکاری ملازمین تنخوا ہ میں ہاوس رینٹ کی وصولی کررہے تھے لیکن انہوں نے سرکاری گھر بھی قبضے میں رکھے ہوئے ہیں جس سے سرکاری خزانے کو چار کروڑ 24لاکھ روپے کا نقصان پہنچایا گیا۔
16ایسے کیسز ریکارڈ کئے گئے ہیں جس میں ٹھیکیداروں کو 24کروڑ روپے کی اضافی ادائیگیاں ہوئی ہیں۔ اڈیٹر جنرل آف پاکستان نے اپنی رپورٹ میں محکمہ توانائی میں پانچ ارب روپے کی بے قاعدگیوں کی نشاندہی کی ہے۔ 2017-18ءکی اڈٹ رپورٹ کے مطابق ڈیڑھ ارب روپے سے زائد کی ایسی وصولیوں کی نشاندہی کی گئی تھی جن کی رسیدوں پر پہلی ہی وصولی کی جاچکی ہے۔
رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی کی گئی ہے کہ مختلف محکموں نے چار ارب 9کروڑ روپے کے ایسے اخراجات کئے ہیں جن کا سرے سے کوئی ریکارڈ ہی موجود نہیں۔ اڈیٹر جنرل نے رپورٹ مرتب کرتے ہوئے وقت محکمہ خزانہ کو ہدایات جاری کی ہیں کہ صوبے کے مالیاتی امور میں بہتری کےلئے ڈیجیٹل ٹیکنالوجی کا استعمال کیا جائے کیونکہ بیشتر محکمے ریکارڈ کو کمپیوٹر کی بجائے رجسٹرڈ میں درج کررہے ہیں۔