دھرنے کا موسم آ گیا!

لیجیے صاحبو! دھرنے کا موسم آ گیا، مولانا فضل الرحمان کا دھرنا سامنے دھرا ہے اور سیاسی مبصرین نے الٹی گنتی گننا شروع کر دی ہے۔

ہم چونکہ ریاضی میں نہایت کمزور واقع ہوئے ہیں اس لیے سیدھی گنتی بھی بہت ٹھہر ٹھہر کر گِن رہے ہیں۔

تحریک انصاف کی حکومت کو آئے سال، سوا سال ہوا ہے اور ہمارے نزدیک ابھی پونے چار سال باقی ہیں۔

نومبر،دسمبر میں بساط لپٹنے کی پیش گوئیاں کرنے والے بے شک سیانے ہوں گے لیکن اس کھیل کے لیے آشیر باد دینے والے قطعاً سیانے نہیں۔

عمران خان صاحب کا مشہورِ عالم دھرنا کس کو یاد نہیں؟ دھرنا جن واقعات کے جلو میں گزرا اور کن سانحات کے درمیان اٹھایا گیا وہ بھی سب کو یاد ہے۔

حاصل کیا ہوا؟ مائنس ون؟ نواز شریف کی معطلی۔ انتخابات اپنے وقت ہی پر ہوئے۔ جو نتائج آئے وہ دھرنے کے بغیر بھی آنے ہی تھے۔

کچھ عرصہ پہلے چترال جانے کا اتفاق ہوا، مولانا بھی اسی فلائٹ سے ایک جلسہ کرنے جا رہے تھے۔ ننھے سے ایئرپورٹ پر خلقت کا اژدھام تھا۔

چترال ایئرپورٹ سے گرم چشمہ تک کئی کلومیٹر کا ایک بھیانک ویرانہ ہے جس میں بے آب و گیاہ پہاڑ ہیں اور ان پہاڑوں میں بے شمار کھوہیں اور قدرتی غار ہیں جن کے بارے میں شنید ہے کہ وہاں ’ہوائی مخلوق‘ آباد ہے۔

مگر اس روز مولانا کی سٹریٹ پاور کے آگے ’ہوائی مخلوق‘ بھی اپنے اپنے ٹھکانوں میں دبکی پڑی رہی۔

ملک کی بھیانک معاشی صورت حال، کمر توڑ مہنگائی نیز کشمیر پہ انڈیا کی بدلی ہوئی جارحانہ پالیسی نے نہ صرف عوام کو ہلا کر رکھ دیا ہے بلکہ تحریکِ انصاف کے حامیوں کو بھی بوکھلا دیا ہے اور وہ دگنی رفتار سے سوشل میڈیا پہ ’ڈنڈم ڈنڈا‘ اور ’تلوارم تلوارا‘ ہونے کے ساتھ ساتھ مولانا کے دھرنے کے بارے میں نئے نئے اشقلے چھوڑنے میں مشغول ہیں۔

یہ صورت حال کنارے پہ کھڑے ہو کے دیکھنے والوں کے لیے تو بڑی دلچسپ ہے لیکن جو کچھ ہونے جا رہا ہے اور جسے سیانے بھانپ چکے ہیں وہ نہ جمہوریت کے لیے اچھا ہے اور نہ ہی ملک کے لیے۔

وال سٹریٹ جرنل نے اپنی ایک رپورٹ میں بتایا ہے کہ موجودہ حکومت میں متوسط طبقہ تیزی سے ختم ہو رہا ہے۔ شرح سود جو کہ 13 فیصد ہے ایشیا میں سب سے زیادہ ہے۔

معاشی ترقی کی رفتار 2.4 فیصد رہ گئی ہے اور مہنگائی تین گنا بڑھ چکی ہے۔ حفیظ پاشا صاحب کے بقول دو سال کے اندر 20 لاکھ لوگ بے روزگار ہو جائیں گے اور اسی لاکھ لوگ غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

اس معاشی تنزلی کے دور میں جب اشیائے خوردونوش 15 فیصد مہنگی ہو چکی ہیں اور پٹرول کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے، گھر سے کسی رشتے دار کے ہاں جاتے ہوئے بھی سو بار سوچنا پڑتا ہے ایسے میں ہزاروں افراد کا دھرنا کون سپانسر کر رہا ہے؟ نہ پچھلا دھرنا مفت ہوا تھا نہ یہ دھرنا مفت ہو گا۔

پچھلے دھرنے کی قیمت آپ اور ہم آج ادا کر رہے ہیں اور اس دھرنے کی قیمت آگے چکائیں گے۔ سیاست میں احتجاج ہوتا ہے اور یہ وقت احتجاج کا ہے مگر کیا کیجیے اس بدگمان ذہن اور عاقبت نااندیش نظر کا کہ ان دونوں دھرنوں میں کئی باتیں مشترک نظر آنے لگی ہیں۔

کل کے عمران خان کی باڈی لینگویج دیکھیے اور آج کے مولانا کی باڈی لینگویج ملاحظہ کیجیے۔ ایک سا اطمینان، ایک سا اعتماد، ایک سا سکون۔ کسی بہت خاص، کسی بہت بڑے کے ساتھ ہونے کا احساس۔ بالکل ویسی شرارت بھری نظریں جیسی محلے کے ایک بزرگ کے ایما پہ دوسرے بزرگ کے گھر کی گھنٹی بجا کے بھاگنے والے بچے کی ہوتی ہیں۔

بجلی کے بل جلاتے ہوئے جو تبسم خاں صاحب کے چہرے پہ رقصاں تھا وہی تبسم ’بڈھے بڈھے ریٹائرڈ جرنیلوں‘ کو للکارتے ہوئے مولانا کے لبوں پہ مچل رہا تھا۔

ہم تو ٹھہرے دو ٹکے کے صحافی اور ہمارا کام ہی بڑے لوگوں کے منھ تاکنا اور سانڈوں کی لڑائی میں پس جانے والے مینڈکوں کو ہو شیار کرنا ہے۔ تو ایک بار پھر کہہ رہے ہیں کہ مولانا کو ہلکا نہیں لینا۔ سرد و گرم چشیدہ لوگ یوں ہی آپ کے اور میری طرح خالی خولی نظریات کے پیپے پیٹتے، گرفتار ہونے اور آنسو گیس جھیلنے کو باہر نہیں نکل آتے۔ نہ مولانا سیاست میں آج آئے ہیں اور نہ ہی ہم ان کے طرزِ سیاست سے ناواقف ہیں۔

یہ دھرنا حکومت کے لیے تو خطرناک ہو گا ہی عوام بھی مزید پسیں گے۔

جنگ نہ ہی کبھی عوام چھیڑتے ہیں اور نہ ہی انھیں جنگ سے کچھ حاصل ہوتا ہے۔ جنگیں طالع آزما چھیڑتے ہیں اور جنگ چھڑ چکی ہے۔ دونوں طرف صفیں آراستہ ہو چکی ہیں، رن پڑا چاہتا ہے۔ آپ کے لیے وہی صدیوں پرانی نصیحت ’بڑھیا ری بڑھیا اپنا باسن سمیٹ لے، پرانی دلی کا دروازہ گرتا ہے، گرتا ہے، اڑا اڑادھم۔‘

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے