عمران خان کا آئندہ کردار

بار بار ارادہ کرتا ہوں کہ سیاسی صورت حال پر اظہار خیال موقوف کر کے اپنی اصل دلچسپی کے موضوعات کی طرف واپس جایا جائے، لیکن دو احساس اس ارادے کی تکمیل میں مانع ہو جاتے ہیں۔ ایک، یہ کہ قومی تقدیر کا سوال سیاسی عمل کے رخ کے ساتھ جڑا ہوا ہے، اور دوسرا یہ کہ ایک بہت قیمتی آدمی، معلوم نہیں کن کن وجوہ سے، قومی عمل کو مثبت رخ پر آگے بڑھانے کے بجائے اسے مزید پیچیدہ کرنے کا سبب بن گیا ہے اور شاید مزید بنے گا۔

ایک دو دن پہلے یو ٹرن کے بعد این ٹرن کی طرف اشارہ کیا گیا تھا، یہاں اسی کی کچھ تفصیل مقصود ہے۔ یہ تبصرہ مجھے بھی کافی قبل ازوقت معلوم ہوتا ہے، لیکن مابعد الوقوع تجزیے تو سبھی کر لیتے ہیں۔ چونکہ یہ بحث کی ایک بالکل مختلف جہت ہے، اس لیے اس میں مخالف سیاسی جماعتوں کے حوالے سے ان کے رویے اور انداز فکر کو قصدا زیر بحث نہیں لایا جا رہا جو حالیہ بحران میں زیادہ موضوع گفتگو رہا ہے۔

عمران خان قومی سیاست کو ایک نئے رخ پر استوار کرنے کا عزم لے کر آئے تھے جس کے مجوزہ ایجنڈے میں بدعنوانی سے نجات اور الیکٹبلز کے بجائے نظریاتی اور بااصول سیاسی کارکنوں پر انحصار کے علاوہ اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت سے پاک با اختیار جمہوری حکومت جیسے تصورات شامل تھے۔ یہ یقینا صرف سیاسی نعرے نہیں تھے، بلکہ عمران خان اور ان کی ابتدائی ٹیم کے حقیقی عزائم تھے۔ تاہم طویل انتظار کے بعد ان پر واضح ہوا کہ اس راستے سے اقتدار تک نہیں پہنچا جا سکتا۔ یوں بنیادی اصولوں پر یکے بعد دیگرے کمپرومائز کرتے ہوئے اقتدار تک پہنچنے کا فیصلہ کیا گیا، اور حسن ظن کا تقاضا یہی ہے کہ یہ مانا جائے کہ یہ سب کچھ انھوں نے ایک ناگزیر ذریعے کی حیثیت سے قبول کیا۔ چونکہ ان کی طبیعت اور مزاج ساخت کے لحاظ سے ایسی نہیں کہ نائب کپتان کی پوزیشن پر بھی کھیلیں، اس لیے ان کو اقتدار کے قریب آتے دیکھ کر ذہن میں ہمیشہ یہ سوال پیدا ہوتا تھا کہ وہ اپنے فطری مزاج اور علانیہ بیان کردہ اینٹی اسٹیبلشمنٹ پالیسی کے ساتھ، ارباب اقتدار کے ساتھ کیسے نباہ کریں گے؟

موجودہ اور متوقع طور پر آئندہ سیاسی صورت حال کے دو ممکن اور plausible تجزیے ہو سکتے ہیں۔ ایک یہ کہ عمران خان نے اپنے فطری مزاج کے تحت فیصلہ سازی میں کچھ ایسی حدود کو کراس کیا ہو جو ارباب اختیار کے لیے قابل قبول نہیں تھا۔ دوسرا یہ کہ چونکہ ارباب اختیار کسی کے ’’سگے’’ نہیں ہوتے اور اپنے لیے بہتر سے بہتر آپشن کا حق محفوظ رکھتے ہیں، اس لیے عمران خان سے بہتر آپشن دستیاب ہونے پر انھوں نے فیصلہ تبدیل کر لیا۔ ہو سکتا ہے، کچھ کچھ دونوں ہی تجزیے درست ہوں، اور ہو سکتا ہے کہ یہ سب کچھ عمران خان کو ان کی ’’اوقات’’ بتانے اور ’’حدود’’ کی نشان دہی کے لیے کیا جا رہا ہو۔ اگر وہ اس دباو کو قبول کرتے ہوئے ’’حدود’’ میں رہنے کی یقین دہانی کرا دیتے ہیں تو الگ بات ہے۔ لیکن اگر بات اس رخ کے بجائے مخالف رخ پر آگے بڑھتی ہے تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ، کسی بھی وجہ سے، عمران خان جب اس تجربے سے گزریں گے تو ان کا نفسیاتی ردعمل کیا ہوگا؟

اگر وہ اپنی سیاست کو جاری رکھنے کا فیصلہ کرتے ہیں اور حالات ان کے لیے اس کا موقع باقی رہنے دیتے ہیں تو میرا صرف اندازہ نہیں، غالب گمان ہے کہ وہ اپنے اصل بیانیے یعنی اینٹی اسٹیبلشمنٹ بیانیے کی طرف واپس لوٹیں گے۔ البتہ انھیں بنیادی طور پر یہ طے کرنا ہوگا کہ وہ یہ کام صرف اپوزیشن میں رہتے ہوئے کرنا چاہتے ہیں یا اقتدار میں کسی نہ کسی درجےکی حصہ داری بھی ان کا مقصد ہے۔ دوسری صورت میں ان کے لیے مخالف سیاسی جماعتوں کے ساتھ ایک نئے ’’میثاق جمہوریت’’ کا راستہ اختیار کرنا ناگزیر ہوگا، جبکہ پہلی صورت میں، وہ حسب سابق، پورے سیاسی نظام اور اس کے سارے اسٹیک ہولڈرز کے خلاف ایک ’’شمشیر براں’’ کا کردار ادا کرنے کا فیصلہ کر سکتے ہیں۔

جہاں اتنی دور کی یہ ساری کوڑیاں لائی گئی ہیں، وہاں اپنی ذاتی خواہش بیان کرنے میں بھی کیا مضائقہ ہے کہ عمران خان کو سیاست سے دست کش ہو کر کسی دوسرے میدان میں ملک وقوم کی خدمت کے آپشنز دیکھنے چاہییں۔ ان میں کئی کاموں کے لیے پوٹینشل بھی ہے اور ان کاموں کی ملک وقوم کو ضرورت بھی ہے۔ ایسے قیمتی آدمی کا ضائع ہوتے رہنا صرف ایک آدمی کا نہیں، پورے معاشرے کا نقصان ہے۔

ہذا ما عندی والعلم عند اللہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے