پشاور میں افغان مارکیٹ تنازعہ کی اصل کہانی کیا ہے

پشاورمیں فردوس کے قریب افغان مارکیٹ پر تنازعہ کو پاکستان اور افغانستان کے حکام نے اناکامسئلہ بنادیا جس کے باعث دونوں ممالک کے مابین تعلقات میں مزیددوریاں پیداہونے کا خدشہ پیدا ہوگیا ہے ا س سلسلے میں افغان حکومت نے جمعہ کے روز پشاورمیں اپنا قونصل خانہ احتجاجاًبندکردیا ہے .

[pullquote]فردوس مارکیٹ کا واقع کیوں پیش آیا؟[/pullquote]

پشاور میں افغان مارکیٹ کا قبضہ لینے سے متعلق گزشتہ دومہینوں سے افواہیں تھیں، تاہم بدھ کے روز پاکستان میں متعین افغان سفیر شکراللہ عاطف کی جانب سے پشاور میں میڈیا پرافغان مارکیٹ پر لہرائے جانےوالے افغان پرچم کو ہٹانے کی صورت میں افغان قونصل خانہ بندکرنے کا عندیہ دیا گیا تھا،کیونکہ ان کی پریس بریفنگ سے ایک دن قبل پشاورکی ضلعی انتظامیہ نے افغان مارکیٹ میں واقع دکانوں کو تالے لگادئیے تھے اور مارکیٹ کاقبضہ لینے کی کوشش کی تھی، جس پرافغان سفیرنے بہ نفس نفیس افغان جھنڈے کو دوبارہ مارکیٹ پرلہرایاتھا،افغان سفیرکے مطابق اس متنازعہ مارکیٹ کے قبضے کو صرف دکانوں کے تناظرمیں نہیں، بلکہ دوملکوں کے درمیان مسئلے کی حیثیت سے دیکھنا چاہئے ،لیکن ان کی اس تقریر کے جواب میں جمعرات اورجمعہ کی درمیانی شب انتظامیہ نے ایک مرتبہ پھر افغان مارکیٹ سے افغانستان کا پرچم اتاردیا، جس کی وجہ سے اس معاملے میں مزید شدت آئی اور ردعمل کے طور پر جمعہ کے روز پشاورصدرمیں افغان قونصل خانے کواحتجاجاًبندکردیاگیا ہے .

[pullquote]افغان حکومت کاموقف[/pullquote]

اس حوالے سے افغان حکومت کاموقف سامنے آیا ہے جس کے مطابق افغان مارکیٹ کی اراضی قیام پاکستان سے قبل افغان نیشنل بینک نے خریدی تھی، جس کے بعد سے یہ انکی ملکیت ہے اورکسی کو بھی اس پر قبضہ نہیں کرنے دیں گے.

[pullquote]فردوس بازار کے علاوہ متنازعہ مارکیٹ اور زرعی اراضی[/pullquote]

فردوس بازار میں اس متنازعہ افغان مارکیٹ کے علاوہ قصہ خوانی میں بھی افغان بینک کی ایک بہت بڑی مارکیٹ ہے ، اس کے علاوہ افغان حکومت کی پشاورکے مضافاتی علاقہ مشترزئی،برکس ،شیخان اور دیگرکئی علاقو ں میں بھی سینکڑوں کنال زرعی اراضی کی نشاندہی کی گئی ہے، مذکورہ جائیداد اجارہ پر مقامی لوگوں کو دی گئی ہے، جہاں سے محاصل اور آمدن افغان قونصل خانہ میں جمع کئے جاتے ہیں .

[pullquote]کہانی کا پس منظر[/pullquote]

پشاورصدرمیں قائم افغان قونصل خانہ کی اراضی بھی افغان حکومت کی ملکیت بتائی جارہی ہے، جوتقسیم ہند سے قبل افغان حکومت کو دی گئی تھی ،افغان مارکیٹ کے تاجروں کے چیئرمین خان سید مہمند کاکہناہے کہ افغان مارکیٹ کی اراضی سے متعلق جس شخصیت کی جانب سے ملکیت کا دعویٰ کیاگیاہے ان کی مقامی سطح پر کوئی جان پہچان نہیں ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ بعض لوگ اس قیمتی مارکیٹ پر قبضہ کرناچاہتے ہیں، جس کے خلاف افغان حکام کی جانب سے کارروائی کی جارہی ہے، دوسری طرف پشاورمیں مال خانے کے قدیمی ریکارڈ کے مطابق فردوس بازار کے قریب یہ اراضی 1943میں مقامی ہندو چمن داس کی ملکیت تھی، جوانہوں نے افغان نیشنل بینک کو فروخت کی تھی اوراس کی باقاعدگی سے دورجسٹریاں ہوئیں ہیں جن میں ایک 1944جبکہ دوسری رجسٹری تین سال کے وقفے کے ساتھ مارچ1947میں ہوئی ہے، لیکن افغان نیشنل بینک نے قیام پاکستان کے بعد مذکورہ جائیداد کی ملکیت سے متعلق رجسٹری کی پاکستانی اداروں میں اندراج نہیں کیا ہے جس کی وجہ سے مذکورہ اراضی حق ملکیت کے باوجود تنازعہ کا شکار ہوئی.

[pullquote]لیاقت نہرومعاہدہ[/pullquote]

دوسری جانب قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد پاکستانی اور ہندوستانی وزرائے اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان اور پنڈت جواہرلعل نہروکے مابین لیاقت نہرومعاہدہ طے پایا تھا، اس معاہدے کی رو سے ہندوستان اور کشمیرمیں اپنی جائیداد چھوڑ کر پاکستان آنےوالے خاندانوں کوپاکستان میں اسی تناسب سے زمین اور مکانات الاٹ کرنے کا طریقہ کار متعین کردیا گیا تھا، یہی فارمولا پاکستان سے ہندوستان اور کشمیر مراجعت کرنے والے خاندانوں کیلئے بھی مقرر تھا ، لیکن اس کے باوجود بھی افغان نیشنل بینک نے یہ دونوں رجسٹریاں حکومت پاکستان کے پاس جمع نہیں کرائیں ،جس کی وجہ سے لینڈریکارڈ میں یہ اراضی چمن داس ہی کی ملکیت میں چلی آرہی ہیں.

[pullquote]زوارحسین کشمیری[/pullquote]

لیاقت نہرومعاہدے کے تحت افغان مارکیٹ کی یہ زمین بھی ہندو ملکیتی ریکارڈ کی روشنی میں متروکہ وقف املا ک کے انتظام میں آئی ،جس کے بعد ایک قانونی طریقہ سے 50 کی دہائی میں زوارحسین نامی کشمیری کو یہ اراضی الاٹ کی گئی ،اس واقعے کے بعد کے سالوں یعنی70کی دہائی میں افغان نیشنل بینک کے حکام نے جائیداد کی ملکیت لینے کی کوشش کی لیکن اس معاملے کو حل کرنے میں مشکلات کی وجہ سے کیس عدالت میں چلاگیا،ضلعی انتظامیہ کے ریکارڈکے مطابق زوارحسین نے کیس کی سپریم کورٹ تک پیروی کی، تاہم کیس کے فریق ثانی یعنی افغان نیشنل بینک یاافغان حکومت نے اس تاریخی مقدمہ میں کسی قسم کی دلچسپی نہیں لی، جس کے باعث عدالت نے ان کے مخالف فریق کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے اراضی زوارحسین کو دینے کے احکامات جاری کئے ہیں تاہم اس پر کئی سال تک عمل درآمد نہ ہوسکاجس کے بعد گزشتہ دوتین مہینوں سے زوارحسین کی جانب سے جاری کئے گئے مختارنامہ پر شوکت جمال کشمیری نے مقامی انتظامیہ کے ساتھ اس اراضی پر قبضہ کرنے کی کوشش کی.

[pullquote]فیصلہ الجھن کاشکار [/pullquote]

پشاورکے ایک ضلعی افسرنے بتایاکہ اگرحکومت افغان حکومت کے قیام پاکستان کی رجسٹری کوتسلیم کرلے تو یہ اراضی افغان نیشنل بینک کی ملکیت میں چلی جائیگی اگراس رجسٹری کو منسوخ تصورکیاجاتاہے تو یہ زوارحسین کی ملکیت میں چلاجائیگا، کیونکہ اس متعلق حکومت نے کوئی بھی واضح ہدایات یااحکامات جاری نہیں کئے ہیں ،جس کے باعث یہ مسئلہ الجھن کاشکار ہے تاہم انہوں نے بتایاکہ زوارحسین کو لیاقت نہرومعاہدے کے تحت آرایل ٹوکے ذریعے افغان مارکیٹ کی اراضی دی گئی ہے، لیکن رجسٹری آرایل ٹوسے پٹوارکے ریکارڈمیں زیادہ مضبوط تصورکیاجاتاہے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے