’’ڈرائیور‘‘ کے ’’اتحادی‘‘

میں ایک حکمران ہوں مگر اس کار کی طرح ہوں جس کے چار پہیے ہیں، چار دروازے ہیں۔ دو سیٹیں آگے، دو پیچھے ہیں۔ اس کا انجن بھی ہے مگر خرابی یہ ہے کہ اسے ابھی تک خود انحصاری کی عادت نہیں پڑی، چنانچہ اسے چلانے کیلئے ہمیشہ ’’اتحادیوں‘‘ کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ بوقت ضرورت اسے دھکا دے کر اسٹارٹ کرتے ہیں تاہم یہ گاڑی کئی دفعہ اسٹارٹ ہو جاتی ہے اور کئی دفعہ اسٹارٹ نہیں ہوتی۔

اس کی مختلف وجوہ ہوتی ہیں جن میں سے ایک یہ کہ اتحادی گاڑی کو دھکا لگانے کے لئے بظاہر ایک بینر کے نیچے جمع ہیں لیکن اندر سے یہ سب ایک دوسرے سے ’’خار‘‘ کھاتے ہیں چنانچہ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کے لئے ان میں سے کچھ گاڑی کو آگے اور کچھ گاڑی کو پچھلی سمت میں دھکیلنا شروع کر دیتے ہیں، نتیجتاً گاڑی ایک قدم بھی آگے نہیں بڑھتی۔

بعض اوقات یہ بھی ہوتا ہے کہ عین اس وقت جب گاڑی کو دھکا لگانے کی شدید ضرورت ہوتی ہے اس اتحادی شعبے کا ایک فرد موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے مجھے مخاطب کرتا ہے اور کہتا ہے ’’مجھے اس وقت پان کی بہت طلب محسوس ہو رہی ہے‘‘۔ میں کہتا ہوں ’’تم گاڑی کو دھکا لگاؤ میں تمہارے لئے پان منگواتا ہوں‘‘۔

اس کا جواب یہ ہوتا ہے ’’تم نے کبھی پان کھایا ہو تو تمہیں اس کے آداب کا پتا ہو‘‘۔ بھائی صاحب پان اپنے سامنے لگوایا جاتا ہے اس پر کتھا، چونا، سپاری حسب ذائقہ ہوتی ہے۔ بس میں ابھی گیا، ابھی آیا۔ وہ چلا جاتا ہے اور میں باقی تین اتحادیوں سے گزارش کرتا ہوں کہ اس کے آنے تک آپ تو دھکا لگائیں مگر ان میں سے ایک کہتا ہے ’’مجھے آج صبح سے چھینکیں آ رہی ہیں۔

جس کا مطلب ہے مجھے کوئی یاد کر رہا ہے۔ بس میں اسے مل کر ابھی آتا ہوں‘‘ تیسرا کہتا ہے ’’مجھے ابھی ابھی گھر سے فون آیا ہے، میری والدہ کا شوہر سیڑھیوں سے گر گیا ہے اسے اسپتال لے کر جانا ہے‘‘۔

میں کہتا ہوں تم سیدھی طرح والد کیوں نہیں کہتے۔ مگر اس کا کہنا ہے کہ یہ اس کا گھریلو معاملہ ہے۔ تم میرے اور میری والدہ کے شوہر کے معاملہ میں دخل دینے والے کون ہو؟ اور پھر وہ بھی چلا جاتا ہے۔ اس پر میں چوتھے اتحادی کی طرف رحم طلب نگاہوں سے دیکھتا ہوں مگر اس کا جواب یہ ہوتا ہے میں اکیلا تو دھکا نہیں لگا سکتا۔

ہاں اگر تم میں اتنی طاقت ہے تو ڈرائیونگ سیٹ پر مجھے بٹھاؤ اور خود نیچے اتر کر گاڑی کو دھکا دو مگر اسے کون سمجھائے کہ اصل مسئلہ ہی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا ہے۔ بہرحال وہ بھی چلا جاتا ہے اور میں بے بسی سے یہ سارا منظر دیکھتا رہتا ہوں۔

میری گاڑی کے اسٹارٹ نہ ہونے میں جو یہ رکاوٹیں گاہے گاہے پڑتی رہتی ہیں ان میں سے ایک رکاوٹ یہ بھی ہے کہ اس کی ٹینکی میں کبھی پٹرول ہی نہیں ہوتا۔ جب میرے یہ اتحادی مجھ سے راضی ہوں تو وہ پٹرول کے بغیر بھی گاڑی کو دھکا دے کر اسے کافی دور تک لے جاتے ہیں۔

اللّٰہ کا شکر ہے کہ میں انہیں راضی رکھنے کا ہنر جانتا ہوں۔ مجھے ان کے ہر طرح کے مطالبات پورے کرنا ہوتے ہیں اور دوسرے بوقت ضرورت اَنا، غیرت، حمیت اور اس طرح کے دوسرے الفاظ سے نمٹنے کے لئے میرے پاس ایک ایسی ڈکشنری ہے جس میں یہ الفاظ موجود ہی نہیں ہیں۔

مجھے میرے کئی نام نہاد خیر خواہ یہ مشورہ دے چکے ہیں کہ اس دھکا اسٹارٹ گاڑی کا کوئی فائدہ نہیں، اسے ’’ڈمپ‘‘ کرو اور کوئی نئی گاڑی خرید لو، ان احمقوں کو کیا علم کہ مجھے اس گاڑی کی ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کے لئے کیا کیا پاپڑ بیلنا پڑے ہیں۔

اس کے علاوہ نئی گاڑی کے حوالے سے ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنے کا مسئلہ ایک بار پھر درپیش ہوگا؛ تاہم آنے والے دنوں میں مجھے اس گاڑی کی بہت زیادہ ضرورت پڑنی ہے کیونکہ مجھے بوجوہ تھانوں اور کچہریوں کے چکر لگانا پڑیں گے، اس کے لئے ضروری ہے کہ موجودہ اتحادیوں بلکہ ’’مشقتیوں‘‘ کو بھی ساتھ رکھا جائے اور آنے والے دنوں میں کچھ ایسا بندوبست کیا جائے کہ ان ”مشقتیوں“ کے بغیر بھی میرا کام چل سکے۔

دراصل یہ گاڑی میرے ’’پیر سائیں‘‘ نے مجھے دان کی ہے اور ساتھ یہ حکم دیا ہے کہ اس کی ڈرائیونگ سیٹ پر صرف تم نے بیٹھنا ہے کیونکہ میرے مریدوں میں تم سے زیادہ سعادت مند کوئی اور نہیں۔

اور ہاں ایک بات تو میں نے آپ کو بتائی ہی نہیں، ان دنوں کچھ اہم لوگ اس گاڑی میں بہت دلچسپی لے رہے ہیں اور ان کی سنی بھی جارہی ہے بلکہ ہو سکتا ہے پیر سائیں نے اس حوالے سے اپنے کسی مراقبے کا حوالہ دے کر انہیں راضی کیا ہو۔ دراصل میرا ’’پیر سائیں‘‘ ایک متبادل منصوبہ ضرور ذہن میں رکھتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے