آزادکشمیر کے نوجوان ، کچھ مشاہدات

گذشتہ دنوں سوشل میڈیا پر آزاد کشمیر کی داخلی سیاست اور حکومتی فیصلوں پر گفتگوکے دوران کسی اختلافی تبصرے سے ناراض ہو کر کچھ نوجوان ’’دانشوروں‘‘ نے راقم الحروف کی وہ ’’خدمت‘‘ کی کہ رہتی نسلوں تک یاد رہے گا۔ کچھ نے تو مروت برتتے ہوئے اپنے غصے کا اظہار ان باکس میں کیا تاہم اکثر نے سر عام ’’عزت افزائی‘‘ کرتے ہوئے گالیوں، الزامات اور دھمکیوں تک کی برسات کر دی۔آزاد کشمیر کے نوجوانوں کے درمیان سوشل میڈیا پر جاری بحث وتحمیص میں حصہ لینا بسا اوقات ’’آبیل مجھے مار‘‘ کی دعوت دینے کے مترادف ہے۔

گزشتہ دو سال سے آزاد کشمیر میں نوجوانوں کی ترقی، فلاح و بہبود اور ان کی استعداد کاری کی مختلف سرگرمیوں میں براہ راست حصہ لینے کا موقع ملا ہے۔ نوجوانوں کی ترقی کے. لئے کام کرنے والے محکمہ امور نوجواناں میں وزیر با تدبیر سے لیکر محکمہ کے افسران اور اہلکاران تک کونوجوانوں کی ترقی میں کوئی دلچسپی ہے اورنہ ہی اپنی ذمہ داریوں کا ادراک۔ حد تو یہ ہے کہ ریاست میں کوئی باقاعدہ یوتھ پالیسی تک نہیں جس کے تحت نوجوانوں کی سیاسی، سماجی، اخلاقی یا پیشہ ورانہ تربیت کی جا سکے یا ان کو صحتندانہ سرگرمیوں میں شمولیت کے مواقع فراہم کیے جا سکیں۔ یوتھ پالیسی کے حوالے سے بات چیت کے دوران محکمہ کی اعلیٰ ترین افسر کا کہنا تھا کہ ہمارے پاس ’’دنیا کی سب سے بہترین‘‘ یوتھ پالیسی ہے۔ راقم نے درخواست کی کے اس کی ایک عدد کاپی فراہم کی جائے، فرمایا وہ تو دستیاب نہیں۔ پوچھا اہم نکات کیا ہیں؟ جواب ملا کہ علم نہیں کیوں کہ کبھی پڑھنے کا موقع ملا نہ ضرورت پڑی۔

یہ تو رہا ایک ریاستی ادارے کا حال۔ تعلیمی اداروں میں نوجوانوں کی اخلاقی تربیت نہ ہونے کے برابر ہے۔ بے ڈھنگی سیاسی سرگرمیوں میں شمولیت کی وجہ سے نوجوانوں کی شخصیت اور کردار سنورنے کے بجائے مزید بگڑ رہے ہیں۔ حکومت کے پاس نوجوانوں کی اخلاقی سیاسی اورپیشہ ورانہ تربیت کا کوئی باقاعدہ پروگرام ہے اور نہ مستقبل قریب میں اس کے آثار۔ نوجوانون کو قومی دھارے میں شامل کرنے اور ان کے لئے سیاسی عمل میں شمولیت کے مواقع ہیں اور نہ فیصلہ سازی کے عمل میں ان کے لیے کوئی گنجائش۔ اس صورت حال میں آزاد کشمیر کا نوجوان شدت پسند نظریات کے حامل لوگوں اور گروہوں کا آسان ترین شکار ہے۔ بحث و مباحثہ، تحقیقی سرگرمیاں نہ ہونے کی وجہ سے بحث و مباحثہ میں دلائل کے بجائے دھمکی کا عنصر نمایاں رہتا ہے جو اکثر اوقات الزام تراشی، ذاتیات اور گال گلوچ تک پہنچ جاتا ہے۔

متبادل بیانیہ کو معاشرتی اور ادارہ جاتی سطح پر پذیرائی حاصل نہ ہونے اور اختلافی بیانیے کی صریحاً حوصلہ شکنی کی وجہ سے نوجوانوں کی سوچ، نظریات اور خیالات میں وسعت پیدا ہونے کے بجائے شدت پسندی، عدم برداشت اور عدم رواداری کا عنصر بڑھ رہا ہے۔ سوشل میڈیاکے درست استعمال، اپنا مافی الضمیربیان کر نے اور ابلاغ کے مروجہ مہذب اور موثر طریقوں سے آگاہ نہ ہونے کی وجہ سے نوجوان بعض اوقات اپنے مخالفین کو گالیاں تک دیتے ہیں۔

ریاست اور اداروں کے درمیان باریک فرق کو نہ سمجھنے والے کچھ نوجوان اداروں کی بے جا حمائت کرتے ہیں اور ان اداروں کے خلاف بات کرنے والوں کو غدار تک گردانتے ہیں۔ اور کچھ ایسے ہیں جو اداروں اور افراد کی دشمنی میں ریاست تک کو بھی گالیاں دینے سے نہیں ٹوکتے۔ آزاد کشمیر کے نوجوانوں کے سوشل میڈیا پروفائلز کو دیکھ کریا ان کے ساتھ بات چیت کر کہ کچھ یہی اندازہ ہوا ہے۔

سیاسی قائدین اور جماعتوں نے نوجوانوں کو ہمیشہ اپنے مقصد کے لئے استعمال کیا ہے اور ہر دور میں ان کا استحصال کیا ہے۔ ان کی سیاسی، اخلاقی اور پیشہ ورانہ تربیت اور شخصیت سازی کی جانب کسی نے بھی توجہ نہیں دی۔ سیاسی عمل میں ان کا کردار نعرہ بازی اور جلسے جلسوں میں شرکت سے آگے نہیں بڑھ پایا۔فی الوقت آزاد کشمیر کے نوجوانوں کی صرف ذہانت نہیں ان کی قابلیت تک آوٹ سورس ہو چکی ہے بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا کہ گروی رکھی جا چکی ہے۔

اس کا آسان اور قابل عمل حل نوجوانوں، سیاسی قیادت اور اداروں کے درمیان غیر جماعتی بنیادوں پر ایک ایسا وسیع البنیاد مکالمہ ہے جس میں دونوں جانب سے کھل کر سوال و جواب ہوں تاکہ نوجوانوں کو اس سیاسی عمل کی سمجھ آئے۔ وہ اپنے لئے سیاسی عمل میں مواقع تلاش کر سکیں اور سیاسی قیادت اور اداروں کی جواب دہی کا بھی ایک عمل شروع ہونا چاہیے۔

سوشل میڈیا ایک ذریعہ ہو سکتا ہے تاہم جب تک مستقبل بنیادوں پر یہ مکالمہ شروع نہیں ہوتا بہتری کی توقع کم ہے۔ متنوع نظریات رکھنے والے اور مختلف پس منظر کے حامل نوجوانوں کے اکھٹا ہونے سے نئے خیالات بھی سامنے آئیں گے اورمافی الضمیر بیان کرنے کے مواقع میسر آنے سے نوجوانوں کا احساس محرومی بھی کم ہو گا۔ اس عمل سے قیادت کو بھی نوجوانوں کی فلاح و بہبود کے لئے منصوبہ بندی کے لئے خطوط متعین کرنے میں مدد اور راہنمائی ملے گی اور انہیں فیصلہ سازی میں بھی آسانی ہو گی ۔ عین ممکن ہے کہ اس مکالمے کے نتیجے میں سوشل میڈیا پر گال گلوچ اور الزام تراشیوں میں بھی کمی آ جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے