آزادی صحافت کے دن غلامی کا عزم

اسلام آباد میں پی ایف ی جے و نیشنل پریس کلب و دیگر تنظیموں کی طرف سے آزاد ی صحافت کا عالمی دن منانے کے لیے ریلی نکالی گئی اس ریلی میں وہی گھسے پٹے جملے اور نعرے سننے کو ملے ، لے کر رہیں گے آزادی ، چھین کر لے گے آزادی ، وہی چہرے جو گزشتہ دس سالوں سے ہم صحافتی سیاست مین دیکھ رہے ہیں انہی سفاک چہروں کی طرف سے وہی گھسی پٹی پرانی تقریریں اور نعرے لگائے گئے ، جب اس طرح کے لوگ تقریر کر رہے ہوتے ہیں یقین کریں ان کے چہرے دیکھ کر حیرت ہوتی ہے ان کے چہرے ان کی زبان کا ساتھ نہیں دے رہے ہوتے ، ان کو یہ سمجھ ہی نہیں ہے کہ صحافت کیا ہے اور آزادی صحافت کیا ہے ؟

مجموعی طور پر آج آزادی صحافت کے عالمی دن کے موقع پر آج کے تین بڑے اردو اخبارات پڑھ لیں ، جنگ ، ایکسپریس اور دنیا ( اس ادارے میں بحیثیت رپورٹر میں خود کام کرتا ہوں ) ، تینوں اخبارات کو پڑھ کر لگتا ہے کہ یہ صحافت نہیں کر رہے ، سیاسی بیانات ، سیاسی تجزیے ، کوئی حکومت کا ترجمان تو کوئی اپوزیشن کا ترجمان ، کوئی ایک جماعت کا اخبار تو کوئی سیدھا سادھا اخبار، نہ کوئی خبر شائع کرنی ہے اور نہ کوئی پھڈا لینا ہے ، صحافت کا اصل کردار اس موقع پر پاکستان میں کیا ہونا چاہیے ؟ کیا ہم ایسی صحافت کر رہے ہیں کہ ہمارے اخبارات سے عوام کو آگاہی ہو رہی ہے ان کے مسائل حل ہو رہے ہیں ہمارے معاشرے میں کوئی بہتری آ رہی ہے ، کرپشن ختم کرنے کی جنگ میں کیا کردار ہے ، ہم پانی ، تعلیم، صحت ، جرائم ، قانون و انصاف پر عمل درآمد اور اس طرح کے بے پناہ مسائل اجاگر کر رہے ہیں یا ہم صرف صحافت کو کاروبار بنا کر پیسہ بنا رہے ہیں اور یہ پیسہ میڈیا مالکان بھی بنا رہے ہیں اور اب تو اس فہرست میں اینکر بھی آ گئے ہیں ،
ہم جس اخبار میں کام کرتے ہیں اس اخبار میں میرٹ پر ایک خبر شائع نہیں کروا سکتے یہ اصل اوقات ہے ہماری ، دفتر سے باہر صحافی کی بہت عزت ہوتی ہے لوگ سمجھتے ہیں یہ مسیحا ہیں یہ ہمارے مسائل ، برائی کی نشاندہی اور کرپشن کی غضب کہانیاں شائع کرنے والے ایماندار لوگ ہیں لیکن انہیں کوئی پتہ نہیں دفتر کے اندر ہماری اوقات کیا ہے ہماری کیا عزت ہے ہم بڑی سے بڑی خبر لے کر جاتے ہیں راتوں رات ڈیلز ہو جاتی ہیں صبح اخبارات میں ہمیں اپنی خبر تو نہیں ملتی لیکن اس ادارے کا اشتہار ضرور نظر آتا ہے جس کے خلاف خبر دی جاتی ہے .

ہمارے بہت زیادہ سورس جو ہمارے ذرائع ہوتے ہیں خبر حاصل کرنے کے وہ ہم سے روٹھ گئے ہیں بلکہ کچھ تو ایسے ایماندار ذرائع بھی تھے جو اپنی ایمانداری کی وجہ سے اپنی نوکری دائو پر لگا کر ہمیں خبریں اور دستاویزات دیتے تھے جب انہوں نے ہماری حالت دیکھی اور خبر کبھی نہ دیکھی تو اس کے بعد اب ان سے خبر مانگیں تو جواب آتا ہے کیا کرنا ہے خبر لگانی ہے مال کمانا چاہتے ہو یا اپنے اخبار کو اور امیر بنانا چاہتے ہو ، انہیں بھی ڈر لگتا ہے کہ ہم ضمیر فروش صحافی جو ایک خبر نہیں لگا سکتے کل کہیں خبر دینے والے کا نام بھی نہ بتا دیں کیوں کہ ہم ان کی نظر میں ضمیر فروش ، بلیک میلر ، نچلے درجے کے پیسے لینے والے صحافی ہیں ، اور وہ غلط بھی نہیں کہتے خبر وہ دیتے ہیں اگلے دن وہ دیکھتے ہیں خبر نہیں لگی اشتہار لگا ہے وہ تو یہی سمجھتے ہیں کہ ہم نے اشہتار لے کر خبر دبا دی اور اپنا کمیشن لے کر سائیڈ پر ہو گئے .

ایک وقت تھا کہ خبر لگاتے تھے اگلے دن انکوائری شروع ہو جاتی تھی کرپٹ لوگ معطل ہوتے تھے ، غیر قانونی ٹرانسفر و ترقیاں کالعدم ہو جاتی تھیں ، غلط پروجیکٹ بند کر دیئے جاتے تھے ، رشوت لینے اور دینے والے کے خلاف انوسٹی گیشن ہوتی تھی اور یہ کوئی بہت پرانا وقت نہیں تھا یہ بس دو چار سال پرانی بات ہے یہ سب کچھ ہوتا تھا لیکن اب ایسا کچھ سوچنا بھی محال ہے یہاں ایک وزیر اعظم اپنے خلاف انکوائری نہیں ہونے دے رہا تو دوسرا کوئی کیا کرے گا اور میڈیا وزیر اعظم کو بچانے میں لگا ہے تو کچھ میڈیا وزیر اعظم کو ڈبونے میں لگا ہے ، یہ کیسے صحافت ہو رہی ہے اور ہم سب اس کا حصہ بنے ہوئے ہیں کوئی ایک جماعت کا ترجمان ہے تو کوئی دوسری جماعت کا اور کوئی جو شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا ہوا ہے .

ان حالات میں ہم صحافت کا عالمی دن منا رہے ہیں. شرم آنی چاہے ہمارے صحافتی لیڈروں کو اس دن نعرے لگانے والوں کو اس دن تقریریں کرنے والوں کو، آج ہمیں غلامی صحافت کا دن منانا چاہیے ، بازو پر سیاہ پٹیاں ہونی چاہیے ٹی وی چینلز کے لوگو سیاہ ہونے چاہیے اور بتانا چاہیے دنیا کو کہ ہم کیا ہیں اور ہمارے ملک کی صحافت کیا ہے ، لیکن ہم اور ہمارے صحافی لیڈر ایک ویزے کے پیچھے کتوں کی طرح پڑے ہوتے ہیں بیرون ملک سکالرشپ اور ٹریننگ کے چکر میں ہم نے خود کو رسوا کر لیا ہے سفارتخانوں کے چکر لگا لگا کر ہم نے خود کو ہر ملک میں بیچا ہے ، ہم کیسی صحافت کر رہے ہیں ہمیں یہ تو نہیں پڑھایا گیا تھا ہمیں سکھانے والوں نے یہ تو نہیں سکھایا تھا ، بڑے بڑے دعوے کرتے تھے ہم اور آج ہم کیا ہیں ،

آج ہی کے اخبارات دیکھ لیں آج کے جنگ اخبار میں انصار عباسی صاحب لکھتے ہیں کہ اپوزیشن کے عدم اتفاق کی وجہ سے وزیر اعظم کو سانس لینے کا موقع مل گیا ، ایک ایسا وزیر اعظم جس کے خاندان پر اربوں روپے کی بدعنوانی اور کرپشن کے سکینڈل کا سامنا ہے اس کو سانس کیوں لینے دیا جائے ؟ جنگ گروپ نے بنیادی طور پر یہ بتانے کی کوشش کی کہ ان کے اخبار کی وجہ سے آج وزیر اعظم کو سانس لینے کا موقع مل گیا سابق نگران وزیر اعلی اور جیو گروپ کے اینکر نجم سیٹھی کے رات کے پروگرام سے لی گئی کچھ اقتباس آج کے اخبار میں کم از کم دو ہزار الفاظ سے زائد شائع کی گئیں جس میں یہ بتانے کی کوشش کی گئی کہ اگر پاکستان غداری کے مقدمے کا سامنا کرنے والے شکیل افریدی کو چھوڑ دیتا ہے تو ایف سولہ طیارے مل جائیں گے ایک شخص جو امریکی لابی کا پاکستان میں سب سے مضبوط کردار ہے اس کو الیکشن کے دوران وزیر اعلی پنجاب بنا دیا گیا تھا اس شخص کو پاکستان کرکٹ بورڈ کا سربراہ بنایا گیا تھا جس نے اس دوران بھی پاکستان کی بہتری کرنے کی بجائے پاکستان کی کرکٹ کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اب یہی شخص ہمیں یہ بتا رہا ہے کہ شکیل آفریدی کو چھوڑ دو ،

یہ اصل صحافت ہے جو ہم کر رہے ہیں ہم اپنے پائوں پر کلہاڑی مار رہے ہیں ہم اپنے پیشے سے غداری کر رہے ہیں ہم خود کو بیچ رہے ہیں ہم آج آزادی صحافت نہیں غلامی صحافت کا دن منا رہے ہیں ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے