احساس مروت کوکچل دیتے ہیں آلات

ہے دل کے لیے موت مشینوں کی حکومت
احساس مروت کو کچل دیتے ہیں آلات

یہ ایک فطری حقیقت ہے کہ انسان کی آخرت کی کامیابی کہیں نا کہیں جذبہ حب انسانی اور احساس مروت میں بھی ہے ۔جسطرح رب تعالیٰ کے بتائے ہوئے احکام پہ عمل آخرت کی کامیابی کا نتیجہ ہے ایسی ہی احساس مروت کا جذبہ رب تعالیٰ کی خوشنودی کابھی سبب ہے رب تعالیٰ کے بندوں سے عقیدت و محبت رکھنا اور ان کی خدمت رب تعالیٰ کی خوشنودی کے لیے کرنا رب تعالیٰ کی خوشنودی حاصل کرنا ہے کیونکہ رب تعالیٰ فرماتا ہے ’’جو میرے بندوں سے محبت کرتا ہے میں اس سے محبت کرتا ہوں ‘‘۔

جوں جوں رب کے دیے ہوئے ذہنوں کی بدولت انسان نے مختلف آلات بنائے انسانی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے تو احساس مروت کا جذبہ بھی کم ہوتا جا رہا ہے ۔کیونکہ ایک ضرورت مند انسان اپنی ضرورتیں ان آلات سے بھی پوری کر لیتا ہے اس لیے اسے کسی دوسرے انسان کی ضرورت نہیں، پرانے وقتوں میں ایک انسان دوسرے انسان کا ضرورت مند ہوتا تھا کیونکہ اس وقت ذرا ذرا سی بات پہ ایک دوسرے کی ضرورت ہوتی تھی اور زیادہ تر ایک انسان دوسرے انسان پر انحصار کرتا ہوتا تھا ۔اب کے جدید ترقی یافتہ دور میں وہ انسان کی ضروریات جدید آلات کے ذریعے پوری ہو جاتی ہے ۔ انسان دوسرے انسان پہ انحصار کرنے کے بجائے ان مشینوں پر انحصار کرنے لگا ہے ۔

احساس مروت اور جذبہ حب انسانی ایک ایسا نظریہ ہے جسکے تحت نظام حیات منظم اور استوار ہے۔قوم کی تقدیر کے انقلاب کی پہلی نوید بھی ہے ۔ اور باہمی ربط و تعلق کا ذریعہ بھی ۔ احساس مروت انسان کی فطرت کا ایک ایسا جزو ہے جسے انسان چاہے تو برو کار لا سکتا ہے اور اگر چاہے تو اس سے پہلو تہی بھی کر سکتا ہے ۔ اگر صدر اسلام کا مطالعہ کیا جائے تو اسلام کی تر ویج میں بنیادی اقدام جذبہ حب انسانی اور احساس مروت کا ہے ۔ یہ وہ کڑی ہے جو دو مختلف اقوام سے تعلق رکھنے والے افراد دو مختلف زبانے بولنے والے لوگ اور دو مختلف ممالک میں سکون پذیر افراد کو ایک ایسے سلسلے میں پرو دیتی ہے جسکو احساس مروت کہتے ہیں ۔

گردش حالات کے ساتھ ساتھ جبکہ سائنسی ایجادات نے انسانی حواس پر اپنا تسلطت جما رکھا ہے ۔ موبائل اور کمپیوٹر کی ایجادات نے انسان تو باقی رکھے لیکن انکے اندر سے جوہر انسانیت کو جلا کر خاکسر کر دیا۔ان دونوں آلات نے انسان کو اتنا مصروف کر دیا کہ ان کو کسی دوسرے کے لیے وقت نکالنا مشکل لگتا ہے جس نے محبت و الفت کے پرچم کو سرنگوں کر کے نفرت اور دوری کے قلم بلند کر دیے ۔ بھائی کو بھائی سے جدا کر دیا ۔ اور خونی ریشتوں کو خون کا پیاسہ بنا دیا ۔ مال کی ہوس اور تعیشات کی لالچ نے انسانی اقدار کو پامال کر دوری کی خلیج کو اور زیادہ و سعت دے دی ہے ۔ اور بالآخر ایک ہی چھت تلے رہنے والے ایک ہی گھرانے سے تعلق رکھنے والے بلکہ ایک ہی کلمہ پڑھنے والے مسلمان آپس میں نظریاتی دشمن ہیں ۔ ایک شخص کی موت پر دوسرے کی حیات منحصر ہے ۔
اور ایک کے زوال پر دوسرے کا عروج قائم ہے اور اگر اسکی کوئی وجہ ہے تو وہ ہی احساس مروت کا فقدان اور گردش زمانہ کا شکار ہو جانا ہے ۔ انسان دوستی کے جذبے کو کیوں بالائے طاق رکھے ہوئے بعد اور فراق کی روش اختیار کرنے کا نتیجہ ہے کہ انسان کے دل سے جوہر مروت احساس الفت جذبہ یگانگت اور وصف محبت کا جنازہ نکل پڑا ہے ۔ اس بڑھتی ہوئی خلیج کو محبت کی قوت سے مروت کی طاقت سے اور الفت کے زور پر اس طرح ختم کریں کہ ایک دفعہ پھر قرون اولیٰ کی مثال قائم ہو جائے اور تمام انسانیت ایک ہی کڑی میں پرو اجائے ۔
انسانی فطرت پر گہرے اثرات مرتب کرتے ہیں ۔
حالات کی سنگینی جسطرح جذبہ مروت کو پہنچانتی ہے اسی طرح حالت کی جدت بھی۔ضرورت اس امر کے ہے کہ قلبوں اور مان میں محبت اور الفت کی آب یاری کی جائے اور بڑھتے ہوئے فاصلوں کو کم تر کر اخوت اور بھائی چارے کی فضا قائم کی جائے ۔ایسی فضا قائم کی جائے کہ جیسے انسانی جسم کے کسی حصے کو درد پہنچتا ہے تو سارے جسم کو اس درد کی شدت محسوس ہوتی ہے ایسے ہی ایک انسان کا درد دوسرے انسان کا درد بن جائے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے