اسلام اور علاقائی روایات

اسلام کی روایتی تعبیر کے حوالے سے مسلمان دو انتہاوں پرہیں۔ ایک طرف اسلام کو اس شکل میں معیاری مانا جاتا ہے جو احکام کے ساتھ ساتھ عربی روایات کا بھی مظہر ہو۔ دوسری طرف علاقائی روایات کو اسلام میں داخل کرکے ایمان کا حصہ بنایا گیا ہے۔

اسلام جب عرب دنیا سے نکلا اور مختلف اقوام نے قبول کیا ، تب سے اس کی تعبیرات بھی ہمیں اتنی ہی مختلف ملی جتنی ان اقوام کے درمیان سیاسی، سماجی، ثقافتی، فنون لطیفہ اور حتی کہ صنعت و حرفت کے میدانوں میں اختلاف تھا۔ اس کی بنیادی وجہ یہ تھی کہ لوگوں نے اسلام کو اپنے علاقے کے رسم و رواج اور روایات کے سانچے اور پیمانے پر پرکھ کر قبول کیااور حتی الوسع کوشش کی کہ جتنا ہو سکے اسلام کو اپنی روایات سے ہم آہنگ بنائیں ۔ لیکن ساتھ ساتھ کچھ ایسی چیزوں کو بھی اسلام مان کر قبول کر لیا گیا جو عرب روایات کا حصہ تھیں ۔ مبلغین اسلام نے جس انداز سے اسلام کی تبلیغ کی تو اسلام کے ساتھ ساتھ ان کی اٹھک بیٹھک کے طور طریقے، خوراک اور پوشاک بھی دوسرےاقوام تک پہنچے۔اور اکثر اوقات لوگوں نے اسلامی احکامات کے علاوہ مبلغین کے ظاہری طور طریقے بھی اپنا لئے اور تقوی اور زہد کا معیار اسلامی احکامات پر عمل کے ساتھ ساتھ ان روایات کو بھی ٹہرایا گیا جو دین کے ساتھ آئی تھیں۔ ان روایات سے عرب کے وہ روایات مرادنہیں جن کو اسلام نے قانونی تحفظ دیا تھا، کیوں کہ جن روایات کو اسلام نے قانونی تحفظ دیا ہے وہ باقاعدہ دین کا حصہ بن چکا ہے۔

برصغیر پاک و ہند میں لوگوں نے اسلام کو اپنی روایات کے مطابق قبول کیا اور جہاں ضرورت پڑی تو وہاں اسلامی احکام کو اپنے علاقائی روایات کے مانند بنایا، مثلا یہاں پر شرفاء خاص قسم کے کپڑے زیب تن کیا کرتے تھے تو اس خاص لباس کو اسلامی لباس قرار دیا گیا اور آج تک اسی کو سنت کے مطابق مان کر اس پر اصرار کیا جاتا ہے حالانکہ اس کا اسلام سے دور کا تعلق بھی نہیں۔

بعض قبائل نے اجتماعی طور پر اسلام قبول کیا لیکن جہاں جہاں ان کی روایات کا اسلام سے کوئی خلاف واقع ہوا وہاں اسلام کو ہی قربانی کی بھینٹ چڑھایا گیا۔ مثال کے طور پر عام طور پر بہن کو میراث میں پور ا حصہ نہیں دیا جاتا لیکن اسلام لانے کے بعد بھی وہی روایت برقرار رہی۔ اسی طرح مشترکہ خاندانی نظام جو ہماری قبائلی ضرورت تھی کو جواز فراہم کرنے کے لئے اسلام کے رنگ میں رنگ دیا، عورت کے ساتھ روایتی برتاؤ کو اسلام سے ثابت کیا گیا۔ اسی طرح بہت سارے ایسی روایات ہمارے ہاں پائے جاتے ہیں جو اسلامی احکام کے مکمل خلاف ہونے کے باوجود لوگ ترک کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ اگر ان اعمال کو سماجی طور پر روایت مان کر عمل کیا جاتا تو شاید اتنی پیچیدگی پیدا نہ ہوتی اور نہ اسلام کسی اپنی روایات چھوڑنے پر مجبور کرتا ہے جب تک وہ شرعی اور اخلاقی حدود کے اندر ہو۔ لیکن ظلم یہ ہے کہ اس پورے عمل کا اسلام کے ساتھ آمیزش کرکے ایک پورا تعبیر بنایا گیا ہے۔

[pullquote]
اس طرح کی تعبیرات سے سماجی طور پر ہمیں بہت سارے مسائل کا سامنا کرنا پڑ ھ رہا ہے کیوں کہ جن لوگوں نے اپنی روایات کی کسوٹی پر اسلام قبول کیا اور اپنی تعبیر کو دوسرے لوگوں کے ایمان کے لئے معیار قرار دیا تو بہت سارے لوگ ان کی تعبیر کے مطابق لادین اور سنت کے دشمن ٹر یں اور یہ ہونا ہی تھا کیوں کہ فطری طور پر ہر قوم کی روایت، ثقافت اور رسم و رواج دوسری قوم سے مختلف ہوتا ہے۔

[/pullquote]

اس طرح ہم نے بعض عربی روایات کو تقوی اور زہد کا پیمانہ بنایا ۔ لہذا ہمارے معاشرے میں ایسے لوگ کبھی بھی متقی اور زاہد نہیں بن پاتے جو ان روایات کی پاسداری نہ کرسکیں۔ اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ علاقائی روایات چاہے عربی ہو یا عجمی، غیر معتبر یا غیر اہم ہے۔ روایات جب تب اخلاقی حدود کے اندر ہو اس کی اہمیت اپنی جگہ مسلم ہے۔ اصل مسلہ تب پیدا ہوتا ہے جب کوئی اپنی علاقائی روایت کو ایمان کا حصہ بنائےاور دوسرے لوگوں پر اس روایت کی بجاآوری لازم کرے اور اس پر عمل نہ کرنے والا سزا کا مستحق یا گناہ گار ٹرایں۔

ہمیں چاہئے کہ اسلام کی اصل اور خالص تعبیر لوگوں کے سامنے پیش کریں جو ہر قسم کی بیرونی اثرات سے پاک ہو ۔ تا کہ کسی خاص قوم کی روایت دوسری قوم پر مسلط کرنے کی نو بت نہ آئے۔ اور اسلام اپنی حقیقی تصور کے ساتھ لوگوں کے سامنے پیش ہوسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے