اشتعال انگیز تقریر: سینیٹر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد

سپریم کورٹ نے توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران سینیٹر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد کردی۔

خیال رہے کہ سپریم کورٹ نے نہال ہاشمی کی اشتعال انگیز تقریر پر ازخود نوٹس لیا تھا۔

جسٹس افضل اعجاز کی سربراہی میں پاناما عملدرآمد کیس کی سماعت کرنے والے سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کے معاملے پر ازخود نوٹس کیس کی سماعت کی۔

سپریم کورٹ نے اشتعال انگزیز تقریر کیس کی سماعت کرتے ہوئے سینیٹر نہال ہاشمی پر فرد جرم عائد کی تاہم انہوں نے صحت جرم سے انکار کیا۔

جس کے بعد عدالت نے جارچ شیٹ نہال ہاشمی کے حوالے کرتے ہوئے کیس کی سماعت 24 جولائی تک ملتوی کردی۔

ادھر کراچی پولیس نے پاناما کیس اور جے آئی ٹی ارکان کو دھمکیاں دینے کے مقدمے میں سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف چالان انسداد دہشت گردی کی منتظم عدالت میں جمع کرادیا۔

پولیس نے حتمی چالان میں دہشت گردی کی دفعات شامل کی ہیں جبکہ منتظم عدالت چالان قابل قبول ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ کرے گی۔

پولیس کی جانب سے اے ٹی سی میں چالان جمع کرانے کے بعد نہال ہاشمی کو ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے دوبارہ عدالت سے رجوع کرنا ہوگا۔

خیال رہے کہ دہشت گردی کی دفعات شامل ہونے سے پہلے چالان مجسٹریٹ عدالت میں جمع کرایا گیا تھا تاہم عدالت نے کیس کو انسداد دہشت گردی منتقل کرنے کی ہدایت کی تھی۔

یاد رہے کہ رواں برس 31 مئی کو سینیٹر نہال ہاشمی کی ایک ویڈیو سامنے آئی تھی، جس میں اپنی جذباتی تقریر کے دوران وہ دھمکی دیتے نظر آئے تھے کہ ‘پاکستان کے منتخب وزیراعظم سے حساب مانگنے والوں کے لیے زمین تنگ کردی جائے گی’۔

نہال ہاشمی نے جوش خطابت میں کسی کا نام لیے بغیر کہا تھا کہ حساب لینے والے کل ریٹائر ہوجائیں گے اور ہم ان کا یوم حساب بنادیں گے۔

سینیٹر نہال ہاشمی کی غیر ذمہ دارانہ اور دھمکی آمیز تقریر کے بعد وزیراعظم نواز شریف نے اس کا نوٹس لیتے ہوئے نہال ہاشمی کی بنیادی پارٹی رکنیت معطل کردی تھی، جبکہ وزیر مملکت برائے اطلاعات و نشریات مریم اونگزیب نے اس بات کی تصدیق کی تھی کہ نہال ہاشمی سے سینیٹ کی رکنیت سے بھی استعفیٰ طلب کیا تھا۔

تاہم بعدازاں نہال ہاشمی نے سینیٹ چیئرمین رضا ربانی سے اپنا استعفیٰ منظور نہ کرنے کی درخواست کرتے ہوئے کہا تھا کہ انھوں نے استعفیٰ دباؤ کے ماحول میں دیا تھا۔

چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کی جانب سے نہال ہاشمی کا استعفیٰ منظور نہ کیے جانے اور بحیثیت سینیٹر کام جاری رکھنے کی رولنگ دیئے جانے کے بعد مسلم لیگ (ن) کی انضباطی کمیٹی نے نہال ہاشمی کو طلب کرنے کا فیصلہ کیا تھا تاکہ ان سے عدلیہ کو ‘دھمکیاں دینے’ اور پارٹی قواعد کی مبینہ خلاف ورزی کی وضاحت طلب کی جاسکے۔

انضباطی کمیٹی نے اپنی رپورٹ میں متنازع تقریر پر نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکالنے کی سفارش کی تھی، جس پر وزیراعظم نے کمیٹی کی متفقہ سفارشات کو منظور کرتے ہوئے نہال ہاشمی کو پارٹی سے نکال دیا تھا۔

واضح رہے کہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس میاں ثاقب نثار نے بھی نہال ہاشمی کی دھمکی آمیز تقریر کا نوٹس لیتے ہوئے معاملہ پاناما کیس عملدرآمد بینچ کے پاس بھیجنے کی ہدایت کی تھی۔

چیف جسٹس کی ہدایات کے مطابق خصوصی بینچ نے یکم جون کو اس کیس کی پہلی سماعت کی اور نہال ہاشمی کے خلاف توہین عدالت کا مقدمہ چلانے کا فیصلہ کرتے ہوئے اٹارنی جنرل کو لیگی سینیٹر کی تقریر سے متعلق مواد اکٹھا کرنے کی ہدایت کی تھی۔

دوسری جانب گذشتہ ماہ 5 جون کو پاکستان مسلم لیگ (ن) کے سابق رہنما سینیٹر نہال ہاشمی کے خلاف ‘عدلیہ کو دھمکانے اور تضحیک آمیز الفاظ استعمال’ کرنے پر کراچی کے بہادر آباد تھانے میں سرکار کی مدعیت میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

بہادر آباد تھانے کے اہلکار محمد خوشنود کے توسط سے درج کرائی گئی ایف آئی آر میں نہال ہاشمی کو پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 189، 228 اور 505 کی خلاف ورزی کا مرتکب قرار دیا گیا جو سرکاری ملازمین کو دھمکانے، عدالتی کارروائی میں شامل سرکاری ملازم کے کام میں مداخلت اور عوام کی غلط رہنمائی کے ذمرے میں شامل ہیں۔

ایف آئی آر میں مزید کہا گیا تھا کہ ‘مسلم لیگ (ن) کے یوم تکبیر کے موقع پر نہال ہاشمی نے اپنی تقریر کےدوران عدلیہ کے خلاف دھمکی و تضحیک آمیز الفاظ استعمال کیےاور عدلیہ کے فرائضی منصبی کو نقصان پہنچانے کی دھمکی دی’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے