اصولی سیاست میں اخلاقی اقدار

پاکستان میں اصولی سیاست کرنے کا خواب تو ہر پارٹی کا نعرہ ہوتا ہے اور ہو بھی کیوں نا۔ میں آج ایک طالب علم کی حیثیت سے اپنی سیاسی جماعتوں کے اصولی سیاست کے حوالے سے کچھ کہنا چاہتا ہوں کہ قیام پاکستان سے لے کر آج تک اس حوالے سے بہت کچھ لکھا بھی گیا اور کہا بھی گیا۔ پاکستان کی سیاسی جماعتوں میں اصولی سیاست اور اقدار کی جس طرح دھچکیاں اڑائی گئیں شاہد آج کی ہماری نوجوان نسل اس سے کیا سبق حاصل کرے گی۔مجھے تو ایسا لگتا ہےکہ شاید اصولی سیاست اور اقدار صرف نام کی حد تک ہیں۔

میرے کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ہماری سیاسی جماعتیں آمریت دور کو برُابھلا کہتی ہیں۔ مانا کہ آمریت دور میں بہت ظلم اور زیادتیاں ہوئیں۔ مجھے فیلڈ مارشل جناب ایوب خان کا دور یاد آرہا ہے کہ جس طرح اس دورمیں جس طرح مادرملت فاطمہ جناح کے ساتھ ہوا کس طرح ان کو برا بھلا کہا گیا کس طرح ان کے خلاف نازیبا الفاظ کہے گئے پھر کس طرح بیگم نصرت بھٹو کی ضیاء الحق کے دور حکومت میں تذلیل کی گئی۔اور محترمہ بینظیر بھٹو کو کس طرح اپنے والد سے جدا کیا گیاشاہد یہ وُہ ادوار تھے جب آمریت اپنے عروج پر تھی اب ذرا ہماری سیاسی اداور میں اصولوں کی بات کریں تو کس طرح بھٹو صاحب نے اپنے مخالفین کو اصولی سیاست کے سبق سیکھائے جس کی وجہ سے سول مارشل لاء ایڈمنسٹیٹر کہلائے ۔ اور اس طرح اصولی سیاست سے 1970 کے الیکشن میں شکست کے بعد شیخ مجیب الرحمن کو تسلیم نہ کیا – 5 جولائی 1977 کے مارشل لاء کے بعدکس طرح میاں صاحب ضیاء الحق سے اصولی سیاست کادرس لیتے رہے اور کس طرح پھر بعد میں اپنے دورے حکومت میں اخلاقی اقدار کی دھچکیاں بکھیریں اور محترمہ بینظیر کو کیا کچھ نہیں کہا شاہد وہ لکھنا مقصود نہیں ہے۔

90ء کی دہائی میں جس طرح پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نواز نے اصولی سیاست کی اور اخلاقیات کے جو درس دیے آج تک اُس کے اثرات باقی ہیں اور شاہد رہیں۔اب تھوڑا ساذکر عمران خان صاحب کی اصولی سیاست کا ہو جائے تو خان صاحب باقی جماعتوں سے ایک قدم آگے ہی نظر آئے۔ مجھے 2013 کے الیکشن میں جس طرح پاکستان کی عوام میں عمران خان کے حوالے سے جو جوش وخروش نظر آیا خاص طور پر ہماری نوجوان نسل اور وہ لوگ جو شاہد اپنے گھروں سے بھی باہر نہیں آتے تھے ان میں جان توڈالی ۔ لیکن خان صاحب بھی 2014 کے دھرنے میں اصولی سیاست اور اخلاقی اقدار میں ایک ہاتھ آگے نکل گئے۔ حالانکہ چاہے تو یہ تھا کہ خان صاحب ماضی کی سیاست کو ہمیشہ کیلئے دفن کر دیتے لیکن افسوس وہ بھی ایسا نہ کر سکے اگر مولانہ فضل الرحمن کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ ناانصافی ہو گی جس طرح مولانا نے اصولی سیاست اور اخلاقی اقدار کی سیاست کی وہ تو قوم کو اچھی طرح پتہ ہے کہ فوجی حکومت ہو یا جمہوری حکومت مولانا صاحب سب کے ساتھ اصولی سیاست کرتے نظر آئے مولانا صاحب کو ذرا اس لئے خیال رکھنا چاہیے تھا۔ کہ ان کی پارٹی ایک مذہبی سیاسی پارٹی ہے۔ شاید مولانا صاحب اصول کی بجائے وصو لی سیاست کرتے ہیں۔ کیا کچھ نہیں بولا مولانا صاحب نے ماضی میں نواز شریف کے خلاف ۔حتی ٰ کہ میاں صاحب کے خلاف الیکشن تک بھی لڑا۔آجکل مولانا صاحب میاں صاحب کے اتحادی ہیں اور شاہ سے بڑھ کر شاہ کے وفادار کا کردار نبھا رہے ہیں جس کی ایک جھلک ہمیں گزشتہ روز بنوں میں نظر آئی جہاں وزیراعظم کی موجودگی میں مولانا صاحب نے عمران خان صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ آپ سے تو خیبر پختوانخواہ کے چوہے نہیں مارے جاتے پنجاب کے شیروں سے مقابلہ کیسے کرو گے اور ساتھ ہی خیبر پختوانخواہ کی حکو مت گرانے کی بھی بات کی۔

واہ بھئی واہ اصولی سیاست کے بھی کیا کہنے اور پھر میاں نواز شریف صاحب کی باری آئی تو میاں صاحب نے اپوزیشن کو اڑے ہاتھ لیا اور کہا یہ منہ اور مسور کی دال۔اخلاقی اقدار کا جنازہ یہاں تک نہ رُکا اور کارواں سکھر پہنچ گیا وہاں تو میاں صاحب نے کچھ یوں کہہ ڈالا کہ دھرنے والوں اور دہشتگردوں کا ایجنڈا ایک ہے مجھے یہ سن کر کسی شاعر کا تنقیدی شعر یاد آ گیا جو کچھ یوں ہے۔۔
سبق پڑھ ، شرارت کا ، زلالت کا،
لیاجائے گا تم سے کام چوروں کی وکالت کا۔

اگر اس طرح اصولی سیاست اور اخلاقی اقدار کی سیاست ہوتی رہی تو پاکستان کا پھر اللہ ہی حافظ ہو گا اور ہماری آنے والی نسلیں ہمیں کبھی معاف نہیں کریں گئیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے