اللہ تیرا شکر ہے!

اللہ جانے کون لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہماری قوم ناشکری ہے ،حالانکہ جتنا شکر ہم لوگ کرتے ہیں، شاید ہی کسی اور قوم کے افراد کرتے ہوں۔ ہم بات بات پر الحمدللہ کہتے ہیں حتیٰ کہ جسے چھینکیں آئیں وہ بھی الحمد للہ کہتا ہے اور جو پاس بیٹھا ہو وہ یرحمک اللہ (اللہ تم پر رحم کرے) کے دعائیہ کلمات کہتا ہے۔ جب ناک میں دم کرنے والی چھینکیں بند ہوتی ہیں تو اس کے پاس بیٹھا ہوا شخص بھی اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہے جس کا منہ یرحمک اللہ کہہ کہہ کر سوکھ گیا ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں جب کسی کا بجلی کا بل ٹھیک آتا ہے تو وہ اطمینان کے گہرے سانس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہوئے الحمد للہ کہتا ہے۔

بچہ اسکول سے بخیریت واپس آ جائے، نمازی مسجد سے صحیح سالم گھر لوٹ آئے، بازار سے خالص دوا مل جائے، کچہری سے انصاف حاصل ہو جائے، تھانے میں داد رسی کیلئے جائے اور وہاں ’’چھترول‘‘ نہ ہو تو ان سب مواقع پر ہم سب الحمد للہ کہہ کر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ صرف یہی نہیں ہمارے ہاں تو الحمد للہ اس وقت بھی کہا جاتا ہے جب فوج آتی ہے اور اس وقت بھی جب وہ جاتی ہے۔ ہمارے ہاں تو ایسے سعادت مند فرزند بھی موجود ہیں جو پھولے ہوئے سانس کیساتھ اطلاع دیتے ہیں کہ پچھلے چوک میں والد صاحب کو جوتے پڑ رہے ہیں۔ الحمد للہ میں وہاں سے اپنی عزت بچا کربھاگ آنے میں کامیاب ہو گیا ہوں۔ ہم وہ شکر گزار محب وطن پاکستانی ہیں جو امریکی پاسپورٹ ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتے ہیں۔ ہم ہیروئن کے کامیاب پھیرے پر شکرانے کی نیاز بانٹنے والے لوگ ہیں چنانچہ اللہ جانے وہ کون لوگ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ ہم ایک ناشکری قوم ہیں۔

ہم تو ایسے صابر شاکر لوگ ہیں کہ گزشتہ 71برس میں جو حکمراںآیا، ہم نے اس کے سامنے سر تسلیم خم کر دیا، ہم اپنے حکمرانوں کو پسند کرنے کے لئے ان میں خوبیاں خود تلاش کرتے ہیں ہمیں ایک حکمراں اپنے قد کاٹھ اور اپنی خوبصورتی کی وجہ سے پسند تھا، اس نے دس سال حکومت کی اور ملک توڑ کر ہی واپس گیا۔ ایک دو حکمرانوں کی انگریزی ہمیں پسند آئی۔ ایک حکمراںکو پسند کرنے کی وجہ ہم نے بتائی کہ وہ اسلام کا نعرہ بہت زور شور سے بلند کرتا ہے۔ ایک اور حکمراں کے سیکولرازم کو بنیاد بنا کر ہم نے اس کی قبولیت کا جواز پیش کیا۔ ہماری تو روزمرہ کی گفتگو بھی کچھ اس نوعیت کی ہوتی ہے…..

’’کیا حال ہے‘‘
’’اللہ تعالیٰ کا شکر ہے‘‘
’’سنا ہے آپ کے ایک عزیز ٹریفک کے حادثے میں ہلاک ہو گئے ہیں‘‘
’’جی ہاں، انہیں شدید چوٹیں آئی تھیں۔ ڈاکٹر کوشش کے باوجود ان کی جان نہیں بچا سکے مگر الحمد للہ ان کی آنکھیں بچ گئیں۔ مہنگائی اور لاقانونیت نے ہمارے لوگوں کا ناک میں دم کیا ہوا ہے۔ ایک وقت تھا کہ ہماری قوم اس پر جذباتی ہو جایا کرتی تھی، اس کے علاوہ انڈیا کے ساتھ تجارت، آزادیٔ کشمیر اور ایٹمی پروگرام وغیرہ کے حوالے سے بھی ہماری قوم کے بیشتر افراد بے صبری کا مظاہرہ کر جاتے تھے مگر الحمد للہ اب انہیں ان معاملات میں بھی قرار آ گیا ہے۔ وہ بین الاقوامی نزاکتوں اور حکمرانوں کی مجبوریوں کو بخوبی سمجھنے لگے ہیں اور یوں ہر طرح کے دیگر معاملات کی طرح اب ان معاملات پر بھی لوگ صبر شکر کرنا سیکھ گئے ہیں۔ اب تو شاعروں کے کلام میں بھی محبوب سے گلے شکوے نظر نہیں آتے، وہ اپنا لہجہ بدل کر صرف اتنا کہتے ہیں …..

کچھ اس ادا سے آپ نے پوچھا میرا مزاج
کہنا پڑا کہ شکر ہے پروردگار کا باقیوں کو چھوڑیں، میرا اپنا معاملہ بھی یہی ہے۔

ایک ماہ قبل ایک دوست کی بیٹی کی شادی کے موقع پر ایک حاکم نے مجھ سے ہاتھ ملاتے ہوئے کہتا تھا ’’قاسمی صاحب! مزاج کیسے ہیں‘‘ اس وقت سے میں مسلسل ’’شکر ہے پروردگار کا‘‘ کہتا جا رہا ہوں۔ ایک ماہ سے میں نے اپنا وہ ہاتھ نہیں دھویا بس روزانہ اس پر پرفیوم چھڑک لیتا ہوں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے