امریکاوالاقانون ہرملک اپنائےتو دنیا میں جنگل کا قانون ہوگا. وزیر داخلہ

اسلام آباد: وفاقی وزیر داخلہ چوہدری نثار علی خان نے کہا ہے افغان طالبان کے رہنما کو ڈرون حملے میں ہلاک کرنے کے بعد طالبان کو مذاکرات کے لئے کہنا درست اقدام نہیں۔اسلام آباد میں میڈیا سے گفتگو میں انہوں نے کہا کہ ڈرون حملے کے ذریعے طالبان سے امن مذاکرات کے دوسرے مرحلے کو سبوتاژ کیا گیا ہے۔’کہا جارہا ہے کہ ملا منصور امن مذاکرات میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے، لیکن مذاکرات کے حوالے سے ملا منصور کا کردار اہم تھا۔ ملا منصور مذاکرات میں رکاوٹ ہوتا تو مری مذاکرات کیسے ہوتے۔’چوہدری نثار نے کہا کہ امریکا کی جانب سے سرکاری طور پر تصدیق کے باوجود تصدیق نہیں کرسکتے کہ مرنے والا ملا منصور بھی تھا یا کوئی اور۔ان کے مطابق ڈی این اے کے بغیر ملامنصور کی ہلاکت کی تصدیق نہیں ہوسکتی جبکہ واقعے ہلاک ہونے والے ایک شخص کی شناخت کا عمل جاری ہے۔چوہدری نثار نے بتایا کہ ملا منصور کے ایک رشتے دار نے لاش کی حوالگی کے لئے درخواست کی ہے تاہم سائنسی اور قانونی تصدیق کے بغیر باضابطہ اعلان نہیں کرسکتے۔

[pullquote] ملا اختر منصور کون تھے؟[/pullquote]
• ملا اختر منصور کا تعلق افغانستان کے صوبے قندھار سے تھا، اُن کی عمر 50 سال تھی۔
• انہوں نے جولائی 2015 میں ملا عمر کی موت کے بعد افغان طالبان کی کمان سنبھالی۔
• افغان طالبان کے امیر نے خیبر پختونخوا کے شہر نوشہرہ کے جلوزئی مہاجر کیمپ میں دینی مدرسے تعلیم بھی حاصل کی تھی۔
• طالبان دور حکومت کے دوران ملا اختر منصور 2001-1996 تک افغانستان کے سول ایوی ایشن کے وزیر بھی رہے۔
• افغانستان پر اکتوبر 2001 میں امریکی حملے کے دوران دیگر طالبان رہنماؤں کی طرح ملا اختر منصور بھی نامعلوم مقام پر روپوش ہوئے۔
• سابق سویت یونین کے خلاف جنگ میں ملا اختر منصور نے بھی حصہ لیا تھا۔

[pullquote]بلوچستان میں ڈرون حملے کی مذمت[/pullquote]

انہوں نے اس موقع پر امریکی ڈرون حملے کو پاکستان کی خودمختاری کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے اس کی مذمت کی۔وفاقی وزیر نے کہا کہ امریکی اقدام اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کی مکمل خلاف ورزی کرتا ہے جبکہ امریکا کا اس حوالے سے پیش کیا گیا جواز غیر قانونی ہے۔انہوں نے کہا کہ پاکستان کا مؤقف وزیراعظم کی واپسی پر سامنے آئے گا جبکہ مشاورت کے بعد حکومت پاکستان کا نقطہ نظر قوم کے سامنے آئے گا۔

[pullquote]’ولی محمد کو شناختی کارڈ 2001 میں جاری کیا گیا'[/pullquote]

چوہدری نثار نے واضح کیا کہ ولی محمد نامی شخص کو پہلی مرتبہ شناختی کارڈ 2001 میں جاری کیا گیا تھا اور اسے 2002 میں کمپیوٹرائز کیا گیا۔ان کے مطابق 2005ء میں سابق صدر جنرل (ر) پرویز مشرف کے دور میں ولی محمد کا پاسپورٹ جاری ہوا تھا۔

انہوں نے بتایا کہ 2015 میں مذکورہ شخص کا پاسپورٹ رینیو کیا گیا تھا تاہم گزشتہ سال انٹیلی جنسل ذرائع نے انہیں بتایا کہ یہ افغانی فیملی ہے جس کے بعد ان کا شناختی کارڈ منسوخ کردیا گیا۔وفاقی وزیر داخلہ نے اعتراف کیا کہ نادرا میں کرپشن ہوتی ہے تاہم معاملات کو درست بنانے کے لیے اقدامات کیے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا کہ صرف تقریریں نہیں کیں، بدعنوان عناصر کے خلاف کارروائی بھی کی، نادرا سے 614 ملازمین کو کرپشن پر برطرف کیا گیا ہے۔

[pullquote]’ملا منصور مذاکرات میں رکاوٹ ہوتا تو مری مذاکرات کیسے ہوتے'[/pullquote]

چوہدری نثار نے کہا کہ امریکا کی اس منطق جس کے مطابق جہاں امریکی مفادات کو خطرہ ہوگا حملے کیے جائیں گے، سے اتفاق نہیں کیا جاسکتا۔انہوں نے کہا کہ اگر اس منطق سے اتفاق کرلیا جائے تو پاکستان کے دشمن بھی دیگر ممالک میں موجود ہیں تاہم ہم دیگر ممالک کی خودمختاری کا احترام کرتے ہیں۔انہوں نے کہا کہ اگر افغان طالبان کے سربراہ کو پاکستانی انٹیلی جنس اداروں کی حمایت حاصل ہوتی تو کیا وہ ایک گاڑی میں صرف ڈرائیور کے ساتھ سفر کررہے ہوتے؟

[pullquote]’افغان طالبان کو عسکری طاقت سے ختم نہیں کیا جاسکا'[/pullquote]

چوہدری نثار نے کہا کہ ڈیڑھ لاکھ اتحادی فوجی افغان طالبان کو فتح نہیں کرسکے، افغان طالبان کو عسکری طاقت سے ختم نہیں کیا جاسکا۔انہوں نے کہا کہ ملا منصور کو ہلاک کرکے پاکستان کے لئے مشکل پیدا کردی گئی ہے، طالبان کابل کو غیر متنازع علاقہ قرار دینے پر متفق ہوگئے تھے۔ ‘رہنما کو مار کر طالبان کو مذاکرات کےلئے کہنا درست اقدام نہیں، طالبان سے امن مذاکرات کے دوسرے مرحلے کو سبوتاژ کیاگیا’

[pullquote]’ڈرون حملے سے قبل ہمیں اطلاع نہیں دی گئی تھی'[/pullquote]

انہوں نے حملے کے بارے میں بتاتے ہوئے کہا کہ ڈرون پاکستانی علاقے میں داخل نہیں ہوا، کسی اور ملک میں رہتے ہوئے یہ حملہ کیا گیا۔ایک صحافی کے سوال کے جواب میں چوہدری نثار نے کہا کہ ڈرون حملے سے متعلق معلومات حملے سے قبل ہمیں نہیں دی گئیں بلکہ واقعے کے سات گھنٹے بعد ہمیں آگاہ کیا گیا۔واقعے کے دوران پاسپورٹ اور شناختی کو نقصان نہ پہنچنے سے متعلق سوال پر انہوں نے کہا کہ اطلاع ملنے کے بعد ان کا بھی یہی سوال تھا اور اس حوالے سے تحقیقات کی جارہی ہیں۔’پاسپورٹ گاڑی سےملا یا گمراہ کرنے کے لیے وہاں پھینکاگیا ، تحقیقات کررہے ہیں کہ گاڑی تباہ ہونے کے باوجود پاسپورٹ اور شناختی کارڈ کیسے بچ گئے.’

[pullquote]ملا منصور کی ہلاکت کا دعویٰ[/pullquote]

امریکی محکمہ دفاع نے ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب اعلان کیا تھا کہ پاک افغان سرحد پر ایک دور دراز علاقے میں فضائی حملے میں افغان طالبان کے رہنما ملا اختر منصور ہلاک ہو گئے ہیں۔پینٹاگون کے ترجمان پیٹر کوک نے بتایا تھا کہ امریکی محکمہ دفاع نے پاک افغان سرحد پر ہدف کے عین مطابق کی گئی ایک فضائی کارروائی میں ملا اختر منصور کو نشانہ بنایا۔
بعدازاں نفیس زکریا کے مطابق واقعے میں دو افراد ہلاک ہوئے، جن میں سے ایک کی شناخت محمد اعظم اور دوسر فرد کی شناخت ولی محمد کے نام سے ہوئی ہے۔ترجمان دفتر خارجہ نفیس زکریا نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ ملا اختر منصور پر کیے جانے والے ڈرون حملے سے قبل امریکا نے معلومات کا تبادلہ کیا تھا۔ولی محمد کی سفری دستاویزات کے حوالے سے دعویٰ کیا جارہا ہے کہ وہ مبینہ طور پر افغان طالبان رہنما ملا اختر منصور ہوسکتے ہیں۔ دوسری جانب ایسوسی ایٹڈ پریس کی ایک رپورٹ کے مطابق افغان طالبان کے ایک سینئر کمانڈر ملا عبدالرؤف نے بھی ملا اختر منصور کی ہلاکت کی تصدیق کردی ہے۔ذرائع کا دعویٰ تھا کہ ملا اختر منصور کے ماضی میں پاکستانیوں کے ساتھ کچھ تعلقات تھے مگر ان تعلقات میں ان کے افغان طالبان کے امیر بننے کے بعد کشیدگی آ گئی تھی۔پاکستان نے گزشتہ کچھ عرصے میں متعدد بار کوشش کی کہ وہ افغان مفاہمتی عمل میں شامل ہو جائیں لیکن ملا اختر منصور کی جانب سے اس کو قبول نہیں کیا گیا۔واضح رہے کہ گذشتہ سال جون میں طالبان کے رہنما ملا محمد عمر کی موت کے حوالے سے افواہوں نے گردش کررہی تھی تاہم افغان طالبان ان خبروں کی تصدیق سے گریز کررہے تھے۔مذکورہ انکشاف کے کچھ روز بعد طالبان نے ایک جاری بیان میں ملا عمر کی ہلاکت کی تصدیق کرتے ہوئے بتایا تھا کہ وہ دو سال قبل ہلاک ہوئے تھے اور ان کے بعد طالبان شوریٰ نے گروپ کی سربراہی ملا اختر منصور کے حوالے کرنے کا اعلان کیا۔اس اعلان کے بعد طالبان کے بیشتر گروپس اور نئی قیادت کے درمیان اختلافات پیدا ہوگئے اور گروپ مختلف دھڑوں میں تقسیم ہوگیا۔تاہم ملا اختر منصور اور دیگر طالبان رہنماؤں کی کوششوں سے گروپ کے اختلافات اختتام پذیر ہوئے اور اسی دوران افغانستان میں پیدا ہونے والے ایک اور عسکری گروپ داعش کے خلاف طالبان نے اپنی کارروائیوں کا آغاز کردیا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے