امریکہ میں گزرے شب وروز

بہت عام سا مقولہ ہے ’’سفر وسیلہِ ظفر‘‘۔ اگر سچ پوچھیں تو یہ مقولہ بالکل ہی درست ہے۔ کسی بھی ترقی یافتہ قوم کو دیکھنا ہو، یہ جاننا ہو کہ بھلا وہ ترقی کیسی کررہی ہے تو اُس قوم کو قریب سے دیکھنا بہت ضروری ہے اور کسی بھی قوم کو قریب سے دیکھنے کے لیے سفر ناگزیر ہوجاتا ہے۔ ایسی ہی کچھ ہماری بھی طبیعت ہے کہ جب تک جاگتی آنکھوں سے حالات و واقعات کو نہ دیکھ لیا، یقین نہیں آتا ہے۔ بس اسی لئے اس سال امریکہ کی طرف رُخ کیا۔

 

 

ہیوسٹن میں میرا قیام میرے ایک دیرینہ دوست فرید الاسلام کے گھر پر تھا، جس کی خواہش انہوں نے کراچی سے امریکہ روانگی سے قبل ہی کردی تھی۔ لہذا اُن کی محبت بھری فرمائش کے سامنے سرِ تسلیم خم کرتے ہوئے امریکہ کے دورے کا پہلا پڑاؤ ہیوسٹن میں ہی کرنا پڑا۔

 

USA pic3

ہیوسٹن امریکہ کی دوسری بڑی ریاست ٹیکساس کا سب سے بڑا اور ڈائیورس شہر ہے۔ یہاں کی آبادی 21 لاکھ ہے۔ اِس شہر میں پاکستانیوں کی بڑی تعداد رہائش پذیر ہے۔ تعلیم یافتہ اور ہُنرمند پاکستانی اچھی فرمز اور کمپنیوں میں ملازمت کررہے ہیں تو غیر تعلیم یافتہ زیادہ تر گیس اسٹیشنز پر برسرِ روزگار ہیں۔ پاکستانیوں کی ایک محدود تعداد یہاں مختلف قسم کے کاروبار سے بھی منسلک ہے۔

اگلے روز صبح سویرے دل پسند مٹھائی پر حلوہ پوری کا ناشتہ کرکے اپنی اگلی منزل کی طرف روانہ ہوئے۔ اپنے دوست فرید الاسلام کے ساتھ مزید گپ شپ کے لئے ہم نے جہاز کے 2 گھنٹے کے سفر کے برعکس گاڑی کے 18 گھنٹے کے طویل سفر کو ترجیح دی۔

 

 

امریکہ کے لئے ہمارا یہ سفر یوں تو 23 دسمبر کی رات سے ہی شروع ہوچکا تھا۔ کراچی ائیرپورٹ سے براستہ دوہا (قطر) اگلے دن شام تقریباً ساڑھے 3 بجے قطر ائیر ویز کی پرواز نے جیسے ہی ہیوسٹن کے جارج ڈبلیو بُش ائیرپورٹ پر لینڈ کیا تو خیر وعافیت سے منزلِ مقصود پر پہنچنے پر اللہ کے حضور شکر ادا کیا۔ کراچی سے USA pic2رات کے تیسرے پہر کی فلائیٹ اور دوہا میں 2 گھنٹے قیام کے بعد ہیوسٹن تک 16 گھنٹے 40 منٹ کے طویل سفر نے اگرچہ تھکاوٹ سے چور چور کردیا تھا، تاہم امریکہ دیکھنے کی خواہش نے سفر کی تھکاوٹ کو کوسوں دور چھوڑ دیا تھا۔

 

 

ہیوسٹن میں قیام کے دوران میرے میزبان دوست نے جہاں دلکش تفریحی مقامات کی سیر کرائی وہاں معلوماتی لحاظ سے بہت سی جگہیں دیکھنے کا موقع بھی فراہم کیا۔ جس میں سرفہرست ’مدرسہِ اسلامیہ‘ ہے۔ مدرسہِ اسلامیہ جنوبی ہیوسٹن کے مرکز میں واقع ہے۔ امریکہ میں اسلامی علم و ادب کی اِس شاہکار درسگاہ پر پہلی نظر پڑتے ہی قلبی سُکون و اطمینان حاصل ہوا۔ اِس وقت چونکہ عصر کا وقت ہوا چاہتا تھا، سو فرید الاسلام صاحب کی امامت میں نمازِ عصر ادا کرنے کے بعد مدرسے کے مہتمم شیخ حافظ محمد اقبال سے ملاقات کا شرف حاصل ہوا۔

16388717_10210312741752472_867382861_o

 

 

شیخ صاحب جو کہ 1992ء سے تاحال مدرسہِ اسلامیہ کے بدستور امام ہیں۔ اُن کا تعلق پاکستان کے صوبہ پنجاب سے ہے۔ اُنہوں نے مدرسے میں دینی و دنیاوی عُلوم میں مصروفِ عمل مختلف شعبہ جات کا تعارف کراتے ہوئے بتایا کہ اب تک مدرسے سے تقریباً 2 سو سے زائد طلباء دینی وعصری عُلوم سے مستفید ہوکر فارغ التحصیل ہوچکے ہیں، جبکہ 80 کے قریب طلباء حفظ و ناظرہ قرآن کی سعادت حاصل کر رہے ہیں۔ مدرسے میں جدید طرز پر مزین مونٹیسوری سے لیکر ناظرہ و حفظ کی کلاسز بھی نہایت ترتیب شُدہ تھیں اور ساتھ ہی مدرسے میں موجود مختلف موضوعات پر مبنی ہزاروں کتب پر مشتمل لائبریری کا قیام بھی قابلِ ذکر تھا۔

 

 

اِس دوران شیخ صاحب نے ہمیں اپنی کچھ مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تصانیف بھی تحفتاً پیش کیں۔ دورانِ گفتگو اُنہوں نے جامعہ بنوریہ سائیٹ کراچی کے مہتمم مفتی نعیم کے ساتھ اپنے گہرے تعلقات اور امریکہ میں اُن کی خوشگوار یادوں کا بھی ذکر کیا۔ انہوں نے یہ بھی بتایا کہ مفتی نعیم جامعہ بنوری ٹاؤن میں دورانِ تعلیم اُن سے 2 سال سینیئر تھے۔ گھنٹہ بھر سیر حاصل گفتگو کے بعد ہم نے اُن کی نفیس مہمان نوازی کا شکریہ ادا کیا اور رخصت کے لئے اجازت طلب کی۔ مدرسے سے 16388949_10210312743232509_792001069_oواپس آتے ہوئے میرے میزبان نے مجھے بتایا کہ ان کی اہلیہ جو کہ ایک نو مسلمہ خاتون ہیں، سمیت متعدد مقامی نو مسلمہ امریکی خواتین نے بھی قبولِ اسلام کے بعد اسی مدرسہِ اسلامیہ سے دین کی بنیادی تعلیم حاصل کی۔

 

یہاں مختلف لوگوں سے ملاقات کے دوران یہ بھی معلوم ہوا کہ جمیعت علمائے اسلام کے سابقہ اور تحریک انصاف کے موجودہ رہنما اعظم سواتی کا امریکہ میں درجنوں گیس اسٹیشنز کا کاروبار ہے۔ جہاں پر گاڑیوں کے ساتھ ساتھ انسانوں کے دوا دارو کا بھی انتظام ہے۔ پاکستان میں ارکانِ پارلیمنٹ کے لئے دوہری شہریت پر قانون سازی ہونے کے بعد موصوف کو امریکہ کی شہریت ختم کرنا پڑی۔ تاہم اُن کی فیملی امریکی شہریت کے ساتھ پورٹ آرتھر ٹیکس میں تاحال رہائش پذیر ہے۔ ہماری ایک ایسے پاکستانی سے بھی ملاقات ہوئی جو پہلی بار 1992ء میں پاکستان فٹبال ٹیم کے ساتھ امریکہ آیا اور پھر یہیں کا ہو کر رہ گیا۔

 

صبح نمازِ فجر کے بعد گھر سے نکلے تو بعد از دوپہر ریاست مِسّی سپی پہنچ چکے تھے۔ اِس ریاست میں امریکن ملٹری کا ٹریننگ سینٹر بھی ہے، جہاں امریکی فوجیوں کو دیگر تربیت کے علاوہ پشتون اور عربی زبان بھی سکھائی جاتی ہے۔ یہاں کچھ دیر آرام کے بعد سفر پھر سے جاری و ساری ہوا اور یوں ہم رُکتے رُکاتے کم و بیش 18 گھنٹوں کی مسافت کے بعد فلوریڈا کے شہر آرلینڈو پہنچے۔ آرلینڈو ریاست فلوریڈا کا تیسرا بڑا شہر ہے، جبکہ میامی پہلا اور ٹامپہ اس ریاست کا16358080_10210312742392488_1030416891_o دوسرا بڑا شہر ہے۔ معتدل درجہ حرارت کی وجہ سے فلوریڈا کو سن شائن اسٹیٹ بھی کہا جاتا ہے۔ رات گئے آرکینڈو پہنچے تو لمبی مسافت کے بعد آرام کے لئے لیٹ گئے۔ صبح بیدار ہوئے تو تازہ دم تھے۔

 

فرید صاحب واپس جارہے تھے تو تھوڑی اُداسی ضرور تھی جس کی ایک بڑی وجہ فرید صاحب کا بنیادی رشتہ برما سے ہونے کے ناطے وہ احساسِ محرومی تھا جس کا ذکر وہ پورے راستے کرتے رہے تھے۔ اُن کا کہنا تھا کہ حرمین کے بعد مجھے سب سے زیادہ محبت اگر کسی ملک سے ہے تو وہ میرا وطن پاکستان ہے۔ ہم بھی پاکستان سے اُتنی ہی محبت کرتے ہیں جتنا کوئی دوسرا دعویدار کرتا ہے۔ پاکستان کو گالی دینا تو درکنار کوئی حُرفِ غلط بھی پاکستان کے خلاف استعمال کرے تو ہمارے تن بدن میں آگ لگ جاتی ہے، ہمارا خون بھی بالکل اُسی طرح کھولتا ہے جس طرح کسی دوسرے دعویدار کا کھولتا ہے۔ میری بیٹی امریکہ میں پیدا ہونے کے باوجود امریکہ میں لہرانے والے کسی بھی پرچم کو دیکھ کر پاکستان زندہ باد کا نعرہ بلند کرتی ہے۔

 

 

امریکہ میں رہ کر ہم پاکستان کا یومِ آزادی دھوم دھام سے مناتے ہیں، مگر افسوس کہ ہمارا پاکستان میں استحصال کیا جاتا ہے۔ سرکار کی طرف سے مختلف حیلے بہانوں سے تنگ کیا جاتا ہے۔ شناختی کارڈ کے جائز حصول کے لئے ہمیں پُلِ صراط سے گزارا جاتا ہے۔ پولیس والے ہمیں حقیر مخلوق گردانتے ہوئے ہم پر جھوٹے 16325895_10210312741672470_43894440_oسچے الزامات لگا کر پکڑتے ہیں اور پیسے لے کر چھوڑتے ہیں۔ اِس محرومی کی پاداش میں برمی بچے چوریوں اور بُری عادتوں میں مبتلا ہو کر عادی مجرم بن جاتے ہیں جس کی تمام تر ذمہ داری سرکار پر عائد ہوتی ہے جو ہمیں اپنے محکماتی غنڈوں کے آگے بے یار و مددگار چھوڑ دیتی ہے۔

آج میں اُس ملک کا شہری ہوں جس کی غلامی کرتے ہوئے ہمارے حکمران جوان ہوتے ہیں اور پھر اسی غلامی کا طوق لئے اِس دنیا سے چلے جاتے ہیں مگر میں اِس دل کا کیا کروں جو آج یہاں بیٹھ کر بھی اس مادرِ وطن کے لئے دھڑکتا ہے، جس دل کے گوشے گوشے میں پاک مٹی کی محبت بسی ہوئی ہے۔ اِس دوران برما میں نہتے مسلمانوں پر ظلم و ستم کا ذکر چھڑا تو آنکھوں میں آنسو لاتے ہوئے کہنے لگے کہ برمی مسلمانوں کی نسل کشی پر مسلم ممالک کی خاموشی افسوس ناک ہے۔

امریکہ کا ذکر کرتے ہوئے بتایا کہ حکومت نے اب تک ہزاروں برمی مسلمانوں کو مختلف ریاستوں میں نہ صرف پناہ دی ہے بلکہ اُن کے بچوں کی تعلیم، صحت اور راشن پانی کے انتظام کے ساتھ ساتھ اُن کا ماہانہ وظیفہ بھی مقرر کیا ہے، جبکہ ہمارے حکمران محض کرپشن کے نئے نئے طریقوں کی کھوج میں اندرونی و بیرونی معاملات و مسائل پر خوابِ خرگوش کے عالم میں ہیں۔ محرومی میں لپٹے فرید کے یہ الفاظ انسانی احساس کے مرنے کی گواہی دے رہے تھے۔ امریکہ میں گزرے دنوں سے یہی لگا کہ یہاں احساس ابھی زندہ ہے تاہم ہمارے ہاں احساس روز بروز مرتا جارہا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے