انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے سعودی عرب کی قابل قدر کوششیں

تکفیر ، تشدد اور انتہا پسندی ایسے ناسور ہیں جو اس وقت امت مسملہ کو دیمک کی طرح چاٹ رہے ہیں ۔اس وقت مسلمان جس کسمپرسی کا شکار ہیں اور گاجر مولی کی طرح کٹ رہے ہیں۔اس کے پیچھے کوئی اور نہیں ہم خود ہیں۔

اپنوں کےہاتھوں جو زخم لگ رہے ہیں ان کا کیا مداوا ہو گا اور کون کرے گا۔قرآن و سنت کی صیحح تعلیمات ہی ہمیں راہ راست پر لا سکتی ہیں۔آگاہی وہ سب سے بڑا ہتھیار ہے جس کے ذریعے ہم اپنی آنے والی نسل کو بچا سکتے ہیں اور موجودہ نسل کو خطرے سے بچا سکتے ہیں۔سعودی حکومت شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور ولی عہد محمد بن سلمان بن عبدالعزیز کی سربراہی ہیں امت کو اس ناسور سے نجات دلانے میں بھر پور قائدانہ کردار ادا کر رہی ہے۔اس سلسلہ میں سعودی وزارت مذھبی امور کا کردار انتہائ قابل قدر ہے۔اس وقت شیخ عبدالطیف آل الشیخ سعودی عرب کے وزیر مذھبی امور ہیں۔جن کی سربراہی میں پوری دنیا میں قرآن ق سنت کی ترویج کےلیے بڑے پیمانے پر کام ہو رہا ہے۔مدینہ منورہ میں شاہ فہد قرآن پرنٹنگ کمپلکس قران کریم کی اشاعت کا سب سے بڑا ادارہ ہے۔جہاں سے پوری دنیا میں قرآن کریم کے نسخے بلا معاوضہ پہنچائے جا رہے ہیں۔اسی طرح دعوت و تبلیغ کا شعبہ بھی انتہائی فعال ہے۔

سعودی وزیر مذھبی امور شیخ عبدالطیف بن عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل شیخ گذستہ سال جون میں اس منصب پر فائز ہوئے۔آپ سعودی عرب کی نہایت قابل احترام فیملی آل الشیخ سے تعلق رکھتے ہیں۔آپ نے ابتدائی تعلیم اور ماسٹر ڈگری ریاض سے حاصل کی۔اور پی ایچ ڈی کی ڈگری جامعہ امام محمد بن سعود ریاض سے تقابلی قانون میں حاصل کی۔

ان کی قیادت میں وزارت مذھبی امور دین اسلام کی اشاعت و فروغ کے لیے کام کر رہی ہے۔شیخ عبدالطیف آل الشیخ کے نائب شیخ ڈا کٹر عبداللہ الصامل جو وکیل وزارت شئون الاسلامیہ ہیں۔رمضان میں صدر یونیورسٹی آف منیجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی ابراہیم حسن مراد اور مولنا علی محمد ابو تراب کے ہمراہ مکہ مکرمہ میں رابطہ عالم اسلامی کی کانفرنس میں تفصیلی ملاقات ہوئی اور انتہائ خوشی ہوئی کہ ڈاکٹرعبداللہ امت کا درد رکھتے ہیں اور دور اندیش اور اعلی’ پائے کے دانشور اور مفکر بھی ہیں۔ڈاکٹر عبداللہ صامل اس سے قبل جب جامعہ الامام میں تھے تب وہ پاکستان کا دورہ کر چکے ہیں۔

پاکستان میں مکتب دعوہ وزارت مذھبی امور کا شعبہ ہے جو عزت مآب سفیر نواف بن سعید الما لکی جو کہ دوستوں کے بقول سعودی عرب میں پاکستان کے سفیر ہیں ، کی سرپرستی میں کام کر رہا ہے جبکہ اس کے مدیر متعب الجدیعی ابو محمد ہیں۔شیخ ابو محمد بھی اب آدھے سے زیادہ پاکستانی بن چکے ہیں۔آپ اس سے قبل نائب مدیر کے منصب پر فائز رہے۔درمیان کا کچھ عرصہ ریاض میں فرائض سر انجام دیے لیکن وہاں پر بھی پاکستان کے ساتھ وابستگی اور تعلق برقرار رہا۔ آپ گذستہ سال مدیر مکتب بن کر پاکستان تشریف لائے جو کہ اہلیان پاکستان کے لیے ایک اچھی خبر تھی۔

شیخ ابو محمد پاکستان کے ماحول سے اچھی طرح واقف ہیں۔انگریزی اور اردو بھی سمجھ لیتے ہیں۔پاکستان کے تمام دینی زعماء اور اداروں سے نہ صرف واقف ہیں بلکہ ان سے اچھے مراسم رکھتے ہیں۔پاکستان اور سعودی عرب کو قریب لانے اور قران و سنت کی ترویج و اشاعت کے لیے سرگرم عمل ہیں۔ان کی کوششوں اور کاوشوں سے حال ہی میں ” انتہا پسندی کے خاتمے اور قرآن وسنت کی تعلیمات ” کے موضوع پر اسلام آباد اور لا ہور میں وزارت مذھبی امور سعودی عرب کے تعاون سے انتہائی قابل قدر اور علمی و تحقیقاتی ورکشاپس منعقد ہوئیں ۔جن میں سینکڑوں علمائے کرام شریک اور مستفید ہوئے ۔ان پروگراموں میں تکفیر اور تشدد کے خاتمے اور صیحح اسلامی تعلیمات کق اجا گر کیا گیا۔ملک کے نامور اسکا لرز نے اپنے مقالے پیش کیے۔ڈاکٹر محمد انور کا یہ جملہ نچوڑ رہا کہ اگر ایک فرد کو شک کا فاہدہ دیا جائے اور اس کو کفر کے فتوی سے بچایا جائے بے شک اس سے ایک ہزار کو فاہدہ ہو اس سے بہتر ہے کہ ایک بندہ جو اپنے آپ کو مسلمان کہے اس کو کافر قرار دیا جائے۔

اسلامی یونیورسٹی شعبہ قانون کے سربراہ ڈاکٹر عزیز الرحمن نے بھی اس موضوع پر قابل قدر مقالہ پیش کیا۔جبکہ ممبر اسلامی نظریاتی کونسل رانا شفیق پسروری، قاری صہیب میرمحمدی، مولنا عتیق الرحمن شاہ، مدینہ منورہ مسجد نبوی میں طویل عرصہ مدرس رہنے والے ڈاکٹردارالسلام پرنٹنگ کمپلکس کے سربراہ مولنا عبدالمالک مجاھد، وفاق المدارس سلفیہ کے ناظم اعلی ڈاکٹر یسین ظفر نے بھی اس موضوع پر علمی گفتگو پیش کی۔

اس موقع پر سعودی وزارت مذھبی امور کے ذمہ دار شیخ سراج بن سعید الزھرانی جو کہ اس پروگرام کے مہمان خصوصی بھی تھے۔انہوں نے شاہ سلمان بن عبدالعزیز اور سعودی وزیر مذھبی امور شیخ عبدالطیف آل الشیخ کا پیغام پہنچایا اور نیک تمناؤں کا اظہار کیا۔انھوں نے بہت جامعہ اور پر مغز خطاب کیا۔انھوں نے کہا کہ
سعودی عرب کا امت مسلمہ میں کردار آج کا اہم موضوع ہے۔اور اس پر فاضل مقررین نے اپنے مقالوں میں روشنی ڈالی ۔

یہ پروگرام جو وزیر مذھبی امور شیخ عبدالطیف بن عبدالعزیز بن عبدالرحمن آل الشیخ کی سرپرستی میں ہو رہا ہے۔
یہ انتہائی اہم موضوع ہے ۔جس کے کچھ پرت کھولے گئے۔لیکن یہ موضوع انتہائ طوالت کا متقاضی ہے۔سعودی عرب پوری دنیا کے مسلمانوں کا مرکز ہے۔اور سعودی عرب بھی اپنے اس قائدانہ کردار سے بخوبی واقف ہے۔انھوں نے کہا کہ شریعت اسلامی میں مسلمانوں کے ایک دوسرے پر کچھ حقوق ہیں۔

کسی کے بارے میں برا ہونے کے لیے اتنا کافی ہے کہ وہ دوسرے مسلمان کو حقیر جانے۔مسلمانوں کی آپس میں مثال عمارت کی اینٹوں کی طرح ہے۔نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ہاتھ کی انگلیوں کو جوڑا اور کہا کہ اس طرح۔

اگر عمارت کی ایک اینٹ بھی اپنی جگہ سے ہل جاتی ہے یا ہٹ جاتی ہے تو پوری عمارت متاثر ہوتی ہے۔سعودی حکومت نے منہج نبوی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنایا۔اور اس کے مطابق عمل کررہی ہے۔ہر دور کے منصف لوگ سعودی حکومت کے کردار کے معترف رہے۔ہم اس کا اجر اللہ سے چاہتے ہیں۔اور اللہ سے اجر کے لیے ہی کام کر رہے ہیں ۔

سعودی عرب کی حکومت رشیدہ نے حجاج کے لیے جو سہولیات فراہم کی ہیں اس کی کوئی دوسری مثال نہیں ملتی۔علاج معالجہ، ٹرانسپورٹ، حرمین شریفین میں بے پناہ سہولیات اور واعظین کا انتظام ، یہ وہ سہولیات ہیں جن کو ہر جانیوالا دیکھتا ہے۔ اور فاہدہ بھی اٹھاتا ہے۔ہمارے لیے باعث اعزاز ہے۔

سعودی حکومت امت کے مسائل میں بھی اپنا کردار ادا کر رہی ہےمسجد اقصی اور فلسطین کے بارے میں ہمارا واضح موقف ہے۔اور جہاں مسلمان اقلیت میں ہیں۔ان کے لیے بھی کام کر رہے ہیں۔
دہشت گردی اور تکفیریت کے خلاف اور ان کی کمر توڑنے میں کردار ادا کیااسی طرح صحیح عقیدے کی نشرو اشاعت کی ترویج بھی کی۔سعودی عرب نے اپنی خیر اور مادی و اقتصادی قوت کو پوری امت کے ممالک تک پہنچایا۔اور یہ مادی طاقت صرف سعودی کی نہیں ۔پوری امت کی ہے ۔

شاہ سلمان نے اس رمضان کے آخر میں پوری امت کی قیادت کو مکہ مکرمہ میں جمع کیا۔اور اجتماعی سوچ کو فروغ دیا۔امت کی قیادت کا شرف سعودی عرب لیے قابل فخر ہے۔

ہمارے مربی اور بزرگ مولنا عبدالعزیز حنیف کے صاحب زادے مولنا ابو بکر نے ترجمانی کے فرائض انجام دیے ۔
اس موقع پر امیر مرکزی جمعیت اہل حدیث پاکستان سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے سعودی مہمانوں کا شکریہ ادا کیا۔اور کہا کہ سعودی حکومت نے ہمیشہ پاکستان کا بھر پور سا تھ دیا۔

کچھ لوگ کہتے ہیں کہ حرمین کا تقدس اور حفاظت تو مقدم ہے۔لیکن ہم کہتے ہیں کہ اہل حرمین کی حفاظت بھی فرض ہے۔آل سعود نے حرمین شریفین کی تاریخی توسیعی اور خدمت کی ہے۔اور کر رہے ہیں کوئی دوسرا اس کا اہل نہیں اور نہ ہی کر سکتا ہے۔سینیٹر پروفیسر ساجد میر نے پاک سعودی دوستی اور تاریخی تعلق پر روشنی ڈالی۔اور سعودی عرب کی حکومت رشیدہ کی خدمات کا تذکرہ بھی کیا۔

اس طرح کے اجتماعات ہوتےرہنے چاہیے تاکہ اسلام کا حقیقی چہرہ دنیا کے سامنے آ سکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے