اِبن بطوطہ اور شیخ مُرشدی

پچھلے کالم میں آپ کی خدمت میں ابن بطوطہ کی مصر کے شہر اسکندریہ میں شیخ مرشدی ولی اللہ کے واقعات پیش کئے تھے۔ یہ بھی عرض کیا تھا کہ ابن بطوطہ کئی ممالک سے گھومتے پھرتے ہندوستان پہنچ گئے تھے اور دہلی میں محمد تغلق کے دور میں بادشاہ نے ان کو قاضی کا عہدہ بھی دیدیا تھا۔ چند غیر عقلمندانہ اقدامات کی وجہ سے (مثلاً دارالحکومت دہلی سے دور منتقل کرنا، عوام کو بزور قوّت دہلی چھوڑنے پر مجبور کرنا وغیرہ) لوگ محمد تغلق کو پاگل بادشاہ کہتے تھے۔ سلطان محمد تغلق کو اسکے بیٹے جونا خان (ابوالمجاہد محمد شاہ) نے عیاری سے لکڑی کے محل کو (جہاں بادشاہ محمد تغلق کوایک مہم کے بعد آرام کرنا تھا) اس طرح تعمیر کرایا تھا کہ جب ہاتھی بالکل قریب سے گزرا تو وہ گرگیا اور بادشاہ اور اس کا عزیز بیٹا محمود ہلاک ہوگئے تھے۔

دلشاد سے ملاقات سے پہلے دہلی اور سلطان کے چند حالات حاضر خدمت ہیں۔ ابن بطوطہؒ بیان کرتے ہیں کہ:

’’جب سلطان تغلق مرگیا تو اس کا بیٹا بلاتنازعہ اور بغیر مخالفت کے تخت پر متمکن ہوا، اس کا اصلی نام جونا خان تھا۔ بادشاہ ہونے کے بعد اس نے اپنا نام ابوالمجاہد محمد شاہ رکھا بادشاہان سابق کا جو میں نے حال لکھا ہے اس کا اکثر حصہ شیخ کمال الدین غزنوی قاضی القضاۃ سے سنا ہے لیکن اس بادشاہ کی بابت جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ میرا چشم دید ہے۔

یہ بادشاہ خونریزی اور سخاوت میں مشہور ہے کوئی دن خالی نہیں جاتا کہ کوئی فقیر امیر نہیں بن جاتااور کوئی زندہ آدمی قتل نہیں کیا جاتا اس کی سخاوت اور شجاعت اور سختی اور خونریزی کی حکایات عوام الناس کی زبان زد ہیں۔

اس کے باوجود میں نے کوئی شخص اس سے زیادہ متواضع اور منصف نہیں دیکھا۔ شریعت کا پابند ہے اور نماز کی بابت بڑی تاکید کرتا ہے جو نہیں پڑھتا ہے اس کو سزا دیتا ہے اور من جملہ ان بادشاہوں کے ہے جن کی نیک بختی اور مبارک نفسی حد سے بڑھی ہوئی ہوتی ہے۔ میں اس کا احوال بیان کرنے میں بعض ایسی باتیں بیان کروں گا جو عجائبات معلوم ہوتی ہیں لیکن کچھ میںبیان کروں گا وہ سب کا سب درست ہے یہ بھی معلوم رہے کہ جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ اکثر لوگوں کی سمجھ میں نہیں آتا اور وہ اس کو مبالغہ آرائی تصور کرتے ہیں لیکن جو کچھ میں نے لکھا ہے وہ یا تو میری چشم دید ہے یا میں نے اس کی صحت کی طرف سے اطمینان کرلیا ہے ۔ ‘‘

ابن بطوطہ نے تفصیل سے بادشاہ کے جلوس کا دربار میں داخل ہونے، عید کی نماز کے جلوس کی، عید کے دربار کی تفصیل ، بادشاہ کے جلوس کی تفصیل جب وہ سفر سے واپس آتا تھا، بادشاہ کے (خاصہ کا) دسترخوان اور عام دسترخوان کی تفصیلات بیان کی ہیں (ان کو پڑھ کر احساس ہوتا ہے کہ یہی وہ عیاشی تھی جس نے مسلمانوں کے زوال کی بنیاد رکھی)۔

سلطان محمد شاہ کی سخاوت کے واقعات بھی بہت تفصیل سے ابن بطوطہ نے بیان کئے ہیں اس میں شہاب الدین، شیخ رُکن الدین مصری، واعِظ ترمذی ناصرالدین، عبدالعزیز فقیہ (مُحدث)، فقیہ شمس الدین اندگانی، شونکاری عضدالدین، قاضی مجدد الدین شیرازی، بُرہان الدین ایرانی، حاجی گائوں سلطان ابو سعید ایرانی، ابن خلیفہ بغدادی، امیر سیف الدین، وغیرہ کیساتھ نہایت فیاضانہ سلوک و انعامات، اکرام کے واقعات بیان کئے ہیں۔

اب میں آپکی خدمت میں سلطان محمد شاہ کی تواضع اور انصاف کے چند واقعات، ابن بطوطہؒ کی زبانی پیش کرتا ہوں۔

(1) ایک ہندو امیر نے بادشاہ پر دعویٰ کیا کہ بادشاہ نے اس کے بھائی کو بلا سبب مار ڈالا بادشاہ بغیر کسی ہتھیار کے پیدل قاضی کے محکمہ میں گیا اور وہاں جاکر سلام اور تعظیم کی اور قاضی کو پہلے حکم دے دیا تھا کہ جب میں آئوں تو قاضی تعظیم کے لئے کھڑا نہ ہو اور کسی طرح کی حرکت نہ کرے۔ بادشاہ محکمہ میں گیا اور قاضی کے سامنے کھڑا ہوا قاضی نے حکم دیا کہ بادشاہ مدعی کو راضی کرلے ورنہ قصاص کا حکم ہوگا۔ بادشاہ نے اس کو راضی کرلیا۔ اسی طرح ایک دفعہ کسی مسلمان نے اس پر کچھ مال کا دعویٰ کیا۔ جھگڑا قاضی کے سامنے پیش ہوا۔

قاضی نے حکم دیا کہ بادشاہ اس کا مال دے دے بادشاہ نے دے دیا۔ ایک دفعہ ایک امیر کے لڑکے نے دعویٰ کیا کہ بادشاہ نے بلا سبب مجھے مارا ہے۔

قاضی نے حکم دیا کہ یا تو لڑکے کو راضی کرو، ورنہ قصاص دو۔ میں نے دیکھا کہ اس نے دربار میں آکر لڑکے کو بلایا اور اس کو چھڑی دے کر کہا کہ اپنا عوض لے لے اور اس کو اپنے سر کی قسم دلائی کہ جیسا میں نے تجھ کو مارا تھا تو بھی مار۔ لڑکے نے ہاتھ میں چھڑی لے کر اکیس چھڑیاں بادشاہ کے لگائیں یہاں تک کہ ایک دفعہ اس کی کلاہ بھی سر سے گر پڑی۔

(2) یہ بادشاہ نماز کے معاملہ میں بہت تاکید کرتا تھا کہ جو شخص جماعت کے ساتھ نماز نہ پڑھے اس کو سزا دی جائے۔ ایک روز اس نے نو آدمی اس بات پر قتل کرڈالے ان میں سے ایک آدمی ایک مطرب تھا۔اس کام پر بہت سے آدمی لگائے ہوئے تھے کہ جماعت کے وقت جو شخص بازار میں مل جائے اس کو پکڑ لائو یہاں تک کہ وہ لوگ جو دیوان خانہ کے دروازے پر گھوڑے لئے رہتے تھے ان کو بھی پکڑنا شروع کیا۔ حکم تھا کہ ہر شخص فرائض نماز و شرائط اسلام سیکھے۔ لوگوں سے سوال کئے جاتے تھے اور اگر کوئی اچھی طرح سے جواب نہیں دے سکتا تھا تو اس کو سز ا ملتی تھی تمام لوگ بازاروں میں نماز کے مسائل یاد کرتے پھرتے تھے اور کاغذوں پر لکھواتے تھے۔

(3) احکام شرع کی پابندی کی بھی سخت تاکید کرتا تھا۔ اپنے بھائی مبارک خان کو حکم دیا ہوا تھا کہ وہ دیوان خانہ میں قاضی کے ساتھ بیٹھ کر انصاف کرائے۔ اس کو حکم تھا کہ ایک بلند برج میں بیٹھے اور قاضی کے واسطے اسی برج میں ایک مسندبادشاہ کی مسند کی طرح لگائی جاتی تھی مبارک خان قاضی کے دائیں ہاتھ بیٹھتا تھا اگرکسی شخص کادعویٰ کسی بڑے امیر پر ہوتا تھا تو مبارک خان کے سپاہی اس امیر کو بلا کر قاضی کے سامنے پیش کرتے تھے اور وہ قاضی سے اس کا انصاف دلاتا تھا۔

(4)741 ہجری میں بادشاہ نے حکم دیا کہ سوائے زکوٰۃ اور عشر کے اور سب محصول اور جرمانےمعاف کردیئے جائیں اور خود ہفتے میں دو دفعہ پیر اور جمعرات کے دن انصاف رسانی کی غرض سے دیوان خانہ کے سامنے ایک میدان میں بیٹھتا تھا اور اس روز اس کے سامنے فقط امیر حاجب و خاص حاجب اور سید المجاب اور شرف المجاب چار شخص ہوتے تھے اور سب کو عام اجازت تھی کہ جس کسی کو کسی کی شکایت کرنا ہو عرض کرے چار امیروں کو چار دروازوں پر مقرر کیا ہوا تھا کہ وہ مستغیثوں کی شکایتیں قلم بند کریں اور ان میں سے چوتھا ملک فیروز بادشاہ کا چچا زاد بھائی تھا۔

اگر پہلے دروازے والا اس کی شکایت لکھ بھیجتا تھا تو فبہا ورنہ وہ دوسرے دروازے والے کے پاس آتا تھا۔ اگر وہ بھی نہ لکھتا تو تیسرے اور چوتھے دروازے والے کے پاس اگر وہ بھی انکار کرتا تو صدر جہاں قاضی القضاۃ کے پاس اگر وہ بھی نہ لکھتا تو بادشاہ کے پاس آنے کی اس کو اجازت ہوتی تھی۔ اگر بادشاہ کو یقین ہوجاتا تھا کہ ان میں کسی کے پاس وہ گیا تھا اور انہوں نے اس کی شکایت نہیں لکھی تو ان کو ڈانٹ دیا کرتا تھا۔ یہ سب تحریریں بادشاہ عشاء کے بعد خود مطالعہ کیا کرتا تھا۔

(5) جب ہندوستان اور سندھ میں قحط پڑا یہاں تک کہ گیہوں چھ دینار فی من ہوگیا تو بادشاہ نے حکم دیا کہ دہلی کے کل باشندوں کو بلاتمیز چھوٹے بڑے یا غلام و آزاد کے بحساب ڈیڑھ رطل مغربی روزانہ فی کس چھ مہینے کا ذخیرہ سرکاری گودام سے دے دو۔ فقیہ اور قاضی محلّہ کی فہرست تیار کرتے تھے اور ان لوگوں کو حاضر کرتے تھے اور ہر ایک شخص کو چھ مہینے کی خوراک دی جاتی تھی۔

اب سلطان کے خونریزی کے چند واقعات بیان کئے ہیں۔ ابن بطوطہ کہتے ہیں:

یہاں تک بادشاہ کی تواضع اور انصاف اور نرم دلی اور سخاوت کا جو سب غیرمعمولی اور فوق العادت تھیں میںنے بیان کیا۔ لیکن اس کے ساتھ ہی وہ خونریزی پر نہایت دلیر تھا ایسا کبھی شاذ و نادر ہوتا تھا کہ اس کے دروازے پر کوئی شخص قتل نہ کیا جاتا ہو اکثر نعشیں دروازے پر پڑی رہتی تھیں۔ ایک روز کا ذکر ہے کہ میں محل میں جاتا تھا۔ میرا گھوڑا کچھ سفید چیز دیکھ کر چمکا۔ میں نے پوچھا یہ کیا ہے۔ میرے ہمراہی نے کہا یہ ایک شخص کا سینہ ہے جس کے عین ٹکڑے کئے گئے ہیں۔

یہ بادشاہ چھوٹے بڑے جرم پر برابر سزا دیتا تھا نہ اہل علم کا لحاظ کرتا تھا اور نہ شریفوں کا اور نہ صالحین کا۔ دیوان خانہ میں ہرروز سینکڑوں آدمی جولان پہنے ہوئے حاضر کئے جاتے تھے۔ بعض قتل کئے جاتے تھے اور بعض کو عذاب دیا جاتا تھا اور بعض کو مار پیٹ کی جاتی تھی اور اس کا دستور تھا کہ سوا جمعہ کے ہرروز کل قیدیوں کو دیوان خانہ میں بلاتا تھا۔ جمعہ کے روز وہ غسل اور حجامت کرتے تھے اور آرام کرتے تھے۔ خدا پناہ میں رکھے۔

(1) اس کا ایک بھائی مسعود خان تھا۔ اس کی ماں سلطان علاء الدین کی بیٹی تھی۔ یہ شخص اتنا خوبصورت تھا کہ میں نے اس کا ثانی نہیں دیکھا۔ اس پر تہمت لگائی گئی کہ وہ بغاوت کرنا چاہتا ہے جب اس سے دریافت کیا تو تعزیر کے ڈر سے اس نے اقرار کرلیا کیونکہ اس کو معلوم تھا کہ ایسے جرائم میں انکار کرنے والوں کو طرح طرح کا عذاب دیا جاتا ہے اس کی نسبت ایک دفعہ مرنا آسان ہوتا ہے۔ بادشاہ نے حکم دیا کہ بازار کے چوک میں لے جاکر اس کی گردن ماردو چنانچہ قتل ہونے کے بعد تین دن تک نعش وہاں ہی پڑی رہی اس کی والدہ دو برس پہلے اسی جگہ سنگسار کی گئی تھی کیونکہ اس نےبدکاری کا اقرار کیا تھا اور قاضی کمال الدین نے اس کو سنگسار کیا تھا۔

(2) اس کے علاوہ بادشاہ نے شیخ شہاب الدین خراسانی کو جو بہت بڑے عالم تھے اور چودہ چودہ دن برابر روزہ رکھتے تھے ان کو بے رحمی سے قتل کرادیا کہ انہوں نے کہ اس کی ناجائز بات ماننے سے انکار کردیا تھا۔ ان کے علاوہ فقیہ عفیف الدین کاشانی کو معمولی سے عذر پر قتل کرادیا اور بدن کے دو ٹکڑے کروادیئے۔ اسی طرح اس نے دو سندھی عالموں کو قتل کرادیا۔ ان کے علاوہ اس نے شیخ ہود کو، شیخ شمس الدین تاج العارفین، شیخ حیدری، دہلی کے خطیب الحطبا کو قتل کرادیا۔ اس کے علاوہ دہلی کے رہائشیوںپر سخت مظالم کئے کہ ان کو نئے دارلحکومت دولت آباد لے جانا چاہتا تھا۔ ان کے انکار پر لاتعداد لوگوں کو قتل کرادیا۔ ان مظالم کی وجہ سے بادشاہ نے اپنی ہردلعزیزدی اور عزّت کھو دی۔

یہ واقعات ابن بطوطہ نے بیان کئے تھے میں نے اس لئے آپ کی خدمت میں پیش کئے کہ آپ کو اس وقت کے حکمران و عوام کے حالات سے آگاہی ہوجائے۔ آئندہ کالم میں آپ کو ابن بطوطہؒ کی شیخ مُرشدی کے بھائی دلشاد سے ملاقات کے واقعہ کی تفصیل بیان کرونگا، انشاء اللہ ۔ (جاری ہے)

(نوٹ) آجکل لاہور میں نیا قائم کردہ گردوں اور جگر کے امراض کے علاج کے اسپتال (PKLIRC) کے بارے میں بہت تنقیدی بیانات آرہے ہیں۔ یہ مناسب نہیں ہے۔ میں نے عرض کیا تھا ہمارے مریض جب ہندوستان جاتے ہیں تو وہاں 60 لاکھ روپیہ صرف علاج کا اور باقی مصارف علیحدہ، چین میں 70 لاکھ لگتے ہیں اگر ہم ایک اعلیٰ ماہر کو 10 لاکھ ماہانہ دیدیں تو یہ خیرات ہے وہ مہینہ میں کم از کم 15 سے 20 تک آپریشن کرسکتا ہے اور آپ کو 10 کروڑ روپیہ کما کر دے سکتا ہے یا اتنی بچت کرسکتا ہے۔ خدا کے لئے ایک اچھے انسٹی ٹیوٹ کو تباہ نہ کریں۔ ورنہ ماہرین واپس چلے جائینگے ۔ ڈاکٹر سعید اختر ایک خدا ترس، خوف خدا کے حامل اعلیٰ ڈاکٹر ہیں۔ خدا کے لئے ان کو کام کرنے دیں۔ یہ ادارہ بہت کچھ زرمبادلہ کما سکے گا۔ یہ ہماری شان ہوگا۔ ہماری عزّت کا ذریعہ ہوگا۔ہمارے مریضوں کا مسیحا ہوگا۔ شکریہ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے