آرٹیکل باسٹھ اور تریسٹھ

’’ آئین کے آرٹیکل 62کی بعض جزوی شقیں کچھ یوں ہیں۔
کہ کوئی شخص پارلیمنٹ کا رکن بننے یا چنے جانے کا اہل نہیں ہوگا ۔ اگر:

(د) وہ اچھے کردار کا حامل نہ ہو اور عام طور پر احکام اسلام سے انحراف میں مشہور ہو۔

(ہ) وہ اسلامی تعلیمات کا خاطرخواہ علم نہ رکھتا ہواور اسلام کے مقرر کردہ فرائض کا پابند نیزکبیرہ گناہوں سے مجتنب نہ ہو۔

(و) وہ سمجھدار ،پارسا نہ ہو اور فاسق ہو اور ایماندار اور امین نہ ہو۔

(ز) کسی اخلاقی پستی میں ملوث ہونے یا جھوٹی گواہی دینے کے جرم میں سزا یافتہ نہ ہو۔

(ح) اس نے قیام پاکستان کے بعد ملک کی سالمیت کے خلاف کام کیا ہویا نظریہ پاکستان کی مخالفت کی ہو۔

اب اچھے کردار کا حامل ہونا اور نہ ہونا ایک مبہم بات ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اچھے کردار سے کیا مراد ہے اور اس کی حدود کیا ہیں؟ دوسری بات یہ کہ کون اچھے کردار کا حامل ہے اور کون نہیں ہے ؟ یہ فیصلہ تو صرف اللہ ہی کرسکتا ہے ۔ اس ملک میں تو بسا اوقات فرشتوں کے روپ میں شیطان دیکھنے کو ملتے ہیں اور بہت سارے نیک لوگوں کو شیطان مشہور کیا گیا ہے ۔ پھر کہا گیا ہے کہ وہ احکام اسلام سے انحراف کے لئے مشہور نہ ہو۔

اب ہم میں کون ہے جو اس کے لئے مشہور نہیں؟ مثلاً مذہبی جماعتوں کے وابستگان کے لئے ان کے رہنما احکام اسلام کے پابند ہیں لیکن ان کی مخالف جماعتوں کے وابستگان انہیں انسانوں کے قتل جیسے سنگین گناہوں کا مرتکب قرار دیتے ہیں ۔ جھوٹ بولنا احکام اسلام کی سنگین خلاف ورزی ہے لیکن یہاں تومذہبی جماعتوں کی سیاست بھی جھوٹ اور بہتان طرازی سے عبارت ہے ۔ اس آرٹیکل کی اگلی شق میں کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کا رکن بننے والے کے لئے ضروری ہے کہ وہ اسلامی تعلیمات کا خاطر خواہ علم رکھتا ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ ’’خاطر خواہ علم‘‘ سے کیا مراد ہے ۔ دینی مدارس میں پڑھنے والوں کے نزدیک خاطر خواہ کا مفہوم کچھ اور ہے اور عام پاکستانیوں کے لئے کچھ اور ہے ۔

اگر دینی مدارس کے پڑھنے والوں کی رائے لی جائے تو ان کے نزدیک اعلیٰ عدالتوں میں بیٹھے جج صاحبان اور الیکشن کمیشن کے ارکان بھی دین کا خاطر خواہ علم نہیں رکھتے ۔ جے یو آئی کے وابستگان جماعت اسلامی کے بانی سید ابوالاعلیٰ مودودی کو عالم دین نہیں مانتے اور بریلوی مسلک کے لوگوں کے نزدیک دیوبندی علماء کا علم خاطر خواہ نہیں ہے ۔ مذہبی طبقات کی اکثریت کے نزدیک قائداعظم محمد علی جناح بھی دین کا خاطر خواہ علم نہیں رکھتے تھے ۔ اب سوال یہ ہے کہ اس خاطر خواہ علم کا فیصلہ کون اور کیسے کرے گا؟ پھر آگے کہا گیا ہے کہ پارلیمنٹ کا رکن بننے کے لئے شرط ہے کہ وہ کبیرہ گناہوں سے اجتناب کرنے والا ہو ۔اب یہ ایک بار پھر اللہ اور انسان کے درمیان کا معاملہ ہے جس کا فیصلہ انسانوں کے سپرد کردیا گیا ہے ۔اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا اور ناقابل معافی گناہ شرک ہے ۔

لیکن یہاں پھر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اللہ کے سوا کسی کے مشرک ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ کون کرسکتا ہے؟ یہاں تو ایک دینی طبقے کے نزدیک دوسرا دینی طبقہ مشرک ہے اور دوسرے کے نزدیک پہلا۔ اسی طرح دین کے بعض احکامات ایسے ہیں کہ ان کا علم صرف اللہ کو ہی ہوسکتا ہے ۔ مثلاً روزہ رکھنا ۔ اگر ایک بندہ چھپ کرکھانا پینا جاری رکھے اور لوگ کو جھوٹا تاثر دے کہ اس نے روزہ رکھا ہے تو کسی کو کیا پتہ لگ سکتا ہے؟ اسی طرح اس میں ممبر پارلیمنٹ کے لئے یہ شرط رکھی گئی ہے کہ وہ سمجھدار ہو ۔ اب پھر وہی سوال ہے کہ سمجھدار سے کیا مراد ہے؟ پاکستان میں بہت سارے لوگوں کے نزدیک پاکستان کا سب سے بڑا سمجھدار آصف زرداری ہے جنہوں نے پہلے پارٹی اور پھر پورے پاکستان پر قبضہ کرلیا لیکن کچھ لوگوں کے نزدیک ان کا معاملہ بالکل الٹ ہے اور وہ یہ رائے رکھتے ہیں کہ انہوں نے اپنے، اپنی پارٹی کے امیج اور پاکستان کے امیج کو خاک میں ملادیا۔ اعلیٰ ہذہ القیاس۔ اگلی شرط پارسائی کی رکھی گئی ہے ۔

اب پھر یہ سوال ہے کہ کسی کے پارسا ہونے اور نہ ہونے کا فیصلہ کون اور کیسے کرے گا؟ یہاں تو پیپلز پارٹی والوں کے لئے زرداری صاحب، مسلم لیگ (ن) والوں کے لئے نواز شریف صاحب اور تحریک انصاف والوں کے لئے عمران خان صاحب سب سے بڑے پارسا ہیں ۔ اسی طرح ایماندار کا مطلب اگر صرف ایمان لانے والا ہو تو پھر تو ہر مسلمان ایماندار ہے لیکن اگر اس سے مراد عملی ایماندار ی ہو تو پھر سوال یہ ہے کہ اس ملک میں کون ایماندار ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے کہ ہم میں سے ہر کسی کے اندر ایک زرداری چھپا ہوا ہے ۔ فرق صرف موقع اور استطاعت کی وجہ سے واقع ہوتا ہے ۔ دکاندار کا ملاوٹ کرنے کا بس چلتا ہے تو وہ یہ کام کرتا ہے، گوالے کا دودھ میںپانی ملانے کا بس چلتا ہے تو وہ یہ کرتا ہے، صحافی کا تہمت لگانے اور بلیک میل کرنے کا بس چلتا ہے تو وہ یہ کرتا ہے ۔ ہماری مجموعی اخلاقیات یہ رہیں تو ہم میں سے جس کو بھی موقع ملے گا وہ زرداری کو پیچھے چھوڑے گا ۔ یہی معاملہ اخلاقی پستی میں ملوث نہ ہونے یاپھرامین جیسی شرائط کا ہے ۔

ہماراالمیہ یہ ہے کہ جب ہم رہتے اکیسویں صدی کے پاکستان میں ہیں لیکن جب قوانین بناتے ہیں تو راتوں رات پاکستان کو ریاست مدینہ بنانا چاہتے ہیں حالانکہ یہ نہیں سوچتے کہ ریاست مدینہ بننے کے لئے صحابہ کرامؓ جیسے شہری، ان جیسے جج اور ان جیسے حکمران درکار ہوتے ہیں ۔ ہم کہتے ہیں کہ رعایا سلیم صافی جیسے ہوں، جج ارشاد حسن خان یا جسٹس عبدالحمید ڈوگر جیسے ہوں اور حکمران آصف زرداری جیسے لیکن راتوں رات پاکستان مدینہ بن جائے ۔ سوال یہ ہے کہ ان شقوں کو آئین میں شامل کرنے والے جنرل محمد ضیاء الحق کیا خود ان شرائط پر پورا اترتے تھے ؟ اس آئین کو بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو کیا ان پیمانوں پر پورے تھے ؟ اور تو اور کیا قائداعظم کی ذات کو ان معیارات پر کسی نے جانچا تھا اور کیا وہ ان سے ہم آہنگ تھی ۔ اپنی تو عاجزانہ رائے یہ ہے کہ اگر الیکشن کمیشن نے اس انداز میں ان شقوں پر عمل کرنے کی کوشش کی تو اس کا نتیجہ ایک دوسرے کے نجی معاملات میں گھسنے اور ایک دوسرے پر کیچڑاچھالنے کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔ اس لئے سپریم کورٹ یا الیکشن کمیشن کو چاہئے کہ وہ ان شقو ں پر عمل درآمد کے خدوخال اور حدود واضح کردیں۔ ‘‘

درجہ بالا پیراگراف میرے اس کالم کے ہیں جو 2013ء میں اس روزنامہ جنگ کے ادارتی صفحہ پر ’’آرٹیکل 62 اور63‘‘ کے زیرعنوان اس وقت شائع ہوا تھا جب انتخابی امیدواروں کے کاغذات کی ریٹرننگ افسران کی عدالتوں میں چھان بین کا عمل جاری تھی ۔ کہیں ان سے چھ کلمے پڑھوائے جارہے تھے تو کہیں انہیں دعائے قنوت سنانے کی فرمائش ہورہی تھی۔ ایسے لوگ انتخابات کے لئے اہل قرار پارہے تھے جن پر کرپشن کے الزامات تھے اور محترم ایاز امیر کو ایک کالم میں اپنے ایک شوق کے اعتراف کی بنیاد پر انتخابات کے لئے نااہل قرار دلوایا جارہا تھا۔ انہی دنوں میں نے اس عنوان سے دو کالم لکھ کر سپریم کورٹ سے استدعا کی تھی کہ وہ ان شقوں کی وضاحت کرے لیکن ظاہر ہے ہم غریبوں کی التجائوں پر کسی نے کیا دھیان دینا ہوتا ہے۔ میاں نوازشریف کو اقتدار میں آئے چار سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا لیکن انہوں نے آئین کی ان شقوں پر نظرثانی کی ضرورت محسوس نہیں کی ۔ سید خورشید شاہ فرماتے ہیں کہ اٹھارویں آئینی ترمیم کی تیاری کے وقت ان کی جماعت نے پوری کوشش کی آئین کی ان شقوں میں ترمیم لائی جائے لیکن مسلم لیگ(ن) اور دینی جماعتوں نے مخالفت کی ۔ شاید تب میاں صاحب کا خیال تھا کہ صرف اس وقت کے حکمران یا پھر ان کے مخالفین ہی ان کی زد میں آئیں گے ۔

لیکن آج ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ شقیں ان کے لئے پھندا بن گئیں ۔ جب پانامہ کے معاملے کو عدالت میں لے جایا رہا تھا تو ’’جرگہ‘‘ میں بار بار استدعا کی کہ سیاستدان اپنے گندے کپڑے دھونے کے لئے عدالت نہ لے جائیں ۔ لیکن خود وزیراعظم صاحب کو بھی پارلیمنٹ سے معاملہ نکال کر عدالت میں لے جانے کا شوق تھا۔ دوسری طرف عمران خان صاحب عدالت سے استدعا کررہے تھے کہ وہ ان کے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ یعنی میاں نوازشریف کو باسٹھ تریسٹھ پر پرکھ لیں۔اب مسلم لیگ (ن) نے بھی عدالتوں سے یہی استدعا کی ہے کہ وہ عمران خان کو آئین کی ان شقوں پر پرکھ لیں ۔ یہ سلسلہ اب آگے بڑھے گا اور کسی مرحلے پر سراج الحق اور شیخ رشید تک بھی دراز ہوگا ۔

اب جب خود سیاستدان معاملے کو عدالتوں میں لے گئے ہیں تو عدالتیں اس آئین کی رو سے فیصلے کرنے کی پابند ہیں جو سیاستدانوں نے بنا کر ان کے ہاتھ میں تھمادیا ۔ میں کل بھی ان شقوں کو غلط سمجھ رہا تھا اور آج بھی سمجھ رہا ہوں لیکن جب آئین کا حصہ ہیں اور عدالتوں سے ان کی بنیاد پر فیصلہ کرنے کے لئے رجوع کیا گیا ہے تو عدا لتیں ان شقوں کے اطلاق پر مجبور ہیں۔ اور جب ان کا اطلاق ہوگا تو کوئی معجزہ ہی میاں نوازشریف ، عمران خان یا آصف زرداری صاحب کو بچاسکے گا۔یوں بغیر کسی محنت اور سازش کے مائنس تھری کے فارمولے پر عمل ہوجائے گا بلکہ اب اگر مائنس تھری فارمولے کے خالق چاہیں بھی تو ان تین رہنمائوں کو مائنس ہونے سے نہیں روک سکیں گے ۔

یہ بات طے ہے کہ اگلے انتخابات سے یہ تینوں باہر ہوں گے ۔ نوازشریف کے خلاف تو ایک عدالت میں کیس چل رہا ہے لیکن عمران خان صاحب کے خلاف ایک سپریم کورٹ میں ، ایک الیکشن کمیشن میں اور ایک ٹرائل کورٹ میں سابق چیف جسٹس کے بیٹے ارسلان افتخار کا زیرسماعت ہے ۔ انسداد دہشت گردی کا کیس اس کے علاوہ ہے جس میں وہ اشتہاری ہیں ۔ جبکہ میری معلومات کے مطابق نجی معاملات سے متعلق دو اور کیسز بھی ان کے خلاف تیار کئے جارہے ہیں ۔ یوں جس طرح نوازشریف کا بچنا ممکن نظر نہیں آتا ، اس سے بڑھ کر عمران خان صاحب کا بچنا بھی ناممکنات میں سے ہے جبکہ عنقریب زرداری صاحب کے کیسز بھی کھل جائیں گے ۔

ان تینوں کا بچنا اس لئے بھی ممکن نہیں کہ ان تینوں کے دوسرے درجے کی قیادت بھی درپردہ اپنا راستہ صاف کروانے کے لئے مائنس تھری فارمولے کے منصوبہ سازوں اور کیسز دائر کرنے والے مخالف فریقوں کی معاونت کررہی ہے بظاہر ان لیڈروں کے دست راست سمجھے جانے والے یہ دوسرے درجے کے لیڈر شب و روز دعائیں مانگ رہے ہیں کہ ان کی قیادت نااہل ہوجائے ۔تبھی تو جب عدالتوں میں معاملے کو لے جایا جارہا تھا تو بار بار یہ شعر سنا کر سیاسی قیادت کو متنبہ کرتا رہا کہ :

مگس کو باغ میں جانے نہ دیجیو
کہ ناحق خون پروانے کا ہوگا

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے