اچھا نظامِ مملکت

ملک کا نظام نہایت خراب حالت میں ہے، حکمرانوں کے تمام وعدے جھوٹے ثابت ہوئے ہیں۔ اچھے نظام مملکت کیلئے حضرت عمر فاروقؓ، حضرت عمر بن عبدالعزیزؒ، حضرت معاویہؓ، خلیفہ ہارون الرشید کے ادوار قابل تحسین اور قابل تقلید ہیں۔ ان کے علاوہ نظام الملک طوسی کا سیاست نامہ موجود ہے جبکہ ہمارے آپ کے نہایت مشہور فارسی کے بین الاقوامی شہرت یافتہ شیخ سعدیؒ نے بھی نہایت عملی اور مناسب ہدایات فرمائی ہیں جو بوستانِ سعدیؒ میں موجود ہیں۔

(1)میں نے سنا ہے کہ خسرو (پرویز) نے، جب آنکھیں دیکھنے سے رہ گئیں (غالباً مراد ہے نزع کی حالت) تو شیرو یہ سے کہا کہ تو جو بھی نیت کرے اس پر قائم رہ اور رعایا کی فلاح و بہبود پر توجہ رکھ؛

(2) خبردار! کہیں عدل و انصاف اور رائے (دوسروں کے مشورے) سے منہ نہ موڑنا تاکہ رعایا تیرے ہاتھوں سے پائوں نہ موڑ لے۔ (یعنی باغی نہ ہو جائے)

(3) رعایا ایک ظالم حکمراں سے دور بھاگتی ہے اور اس کا برا نام زمانے میں افسانہ بن جاتا یعنی پھیل جاتا ہے۔

(4) زیادہ عرصہ نہیں گزرتا کہ ایسا آدمی (حکمراں) جس نے برائی پر اپنی بنیاد رکھی ہو، اپنی بنیاد اکھیڑ ڈالتا ہو (ظالم حکمراں زیادہ عرصہ حکومت نہیں کر سکتا)

(5) ایک شمشیر زن مرد اتنی خرابی نہیں کرتا جتنی بچے اور عورت (کمزوروں) کے دل کی آہیں کرتی ہیں۔ (کمزوروں کی آہیں ظالم حکمراں کو لے ڈوبتی ہیں)

(6) تو نے اکثر دیکھا ہوگا کہ ایک بیوہ عورت نے جو چراغ جلایا اس نے ایک شہر ہی کو جلا ڈالا (مذکورہ بات ایک دوسرے استعارے میں)

(7) بھلا دنیا میں اس سے بڑھ کر بہرہ ور ؍خوش بخت کون ہو سکتا ہے جس نے حکمرانی میں انصاف کی زندگی بسر کی۔

(8) جب تیرا وقت اس دنیا سے کوچ کرنے کا آئے گا تو (تیرے انصاف کی بنا پر) لوگ تیری قبر پر ترس کھایا کریں گے (انہیں تیرے مرنے پر بہت افسوس ہوا کرے گا)

(9) جب برے اور اچھے لوگ دنیا سے گزر جاتے ہیں یعنی سب کو مر جانا ہے، تو یہی بہتر ہے کہ تیرے مرنے کے بعد لوگ تیرا نام اچھائی سے لیا کریں۔

(10) تو کسی خدا ترس (خدا کا خوف رکھنے والے) کو رعایا پر مقرر کر (جو رعایا کے معاملات انصاف سے طے کیا کرے) اس لئے کہ ایک پرہیز گار ؍متقی آدمی ملک کا معمار ہوتا ہے۔ (ملک کی اچھی تعمیر کرتا ہے اپنے عدل و انصاف سے)

(11) وہ جو تیرا فائدہ عوام کو دکھ پہنچانے میں تلاش کرتا ہے، وہ تیرا برا چاہنے والا اور عوام کا خون پی جانے والا ہے۔

(12) مملکت و سلطنت کسی ایسے انسان کے ہاتھ میں ہونا بجا نہیں، اس لئے کہ ایسے حکمرانوں کے ہاتھوں لوگ خدا کے حضور گڑگڑانے لگتے ہیں (ان کی تباہی کی دعا کرتے ہیں)

(13) ایک اچھی تربیت پانے والا نیکوکار برائی سے دور رہتا ہے۔ تُو جب تو کسی کی بری تربیت کرے گا تو تُو اپنی جان کا دشمن ہوگا۔

(14) موذی کی مکافات اس کی دلجوئی سے نہ کر، اس لئے کہ (ایسے موذی کی) جڑ تو باغ سے نکال دینی چاہئے۔ (اسے خلق آزاری کا بالکل موقع نہیں دینا چاہئے، اسے آغاز ہی میں ختم کر دینا چاہئے)

(15) تو کسی ظلم کے رسیا حاکم پر صبر نہ کر (اسے ظلم کی مہلت نہ دے) اس کے تو موٹاپے کی کھال ادھیڑ دینی چاہئے (اس کے غرور و تکبر اور ظلم کا شروع ہی میں خاتمہ کر دینا ضروری ہے)

(16) (اس لئے کہ )بھیڑئیے کا سر شروع ہی میں کاٹ دینا ضروری ہے ناکہ اس وقت جب وہ لوگوں کی بھیڑیں پھاڑ کھائے۔

(17) ایک اسیر تاجر نے کیا خوب بات کہی جب چوروں نے تیر سے اس کی گردن پکڑ لی (اس شعر میں طنز ہے)

(18) جب لٹیرے دلیری و مردانگی کرتے ہیں تو (ان کے مقابلے میں) لشکر کے دلیر اور عورتوں کے گروہ کیا ہیں (دلیری میں ان کی کوئی حیثیت نہیں)

(19) جس بادشاہ نے تاجروں کو زخمی کیا، اس نے شہر اور فوج پر خیر کا دروازہ بند کر دیا۔

(20) دانا لوگ جب رسمِ بد (یا ظلم و جور کے طور طریقوں) کا شہرہ سنیں گے تو وہ پھر اس ملک میں کیوں جائیں گے؟ (نہیں جائیں گے)

(21) تجھے نیک نامی حاصل کرنی اور نیکی قبول کرنی چاہئے تو تاجروں اور قاصدوں، ؍نامہ بروں کا بڑا دھیان رکھ (ان سے اچھا سلوک کر)

(22) بزرگ لوگ مسافر کا دل و جان سے دھیان رکھتے ہیں تاکہ وہ دنیا میں ان کی نیک نامی کا شہرہ کریں۔

(23) وہ مملکت بہت جلد تباہ ہو جاتی ہے جس سے کوئی مسافر دل آزردہ ہو کر آئے۔

(24) مسافر ؍پردیسی کا آشنا اور سیاح کا دوست بنے، اس لئے کہ سیاح نیک نامی کو دوسروں تک پہنچانے والا ہوتا ہے۔

(25) تُو مہمان سے اچھا سلوک کر اور مسافر کو عزیز رکھ، تاہم ان کے آسیب سے بھی بچ کر رہ۔

(26) کسی اجنبی سے بچ کے رہنا اچھی بات ہے، اس لئے کہ وہ دوست کے لباس میں دشمن ہو سکتا ہے۔

(27) ایسا پردیسی ؍مسافر جس کا سر فتنے پر ہو (فتنے کا ارادہ کرنے والا ہو) اسے تُو تکلیف نہ پہنچا بلکہ اسے اپنے ملک سے نکال دے۔

(28) اگر تُو اس پر ناراض نہیں ہوتا تو عین مناسب ہے، اس لئے کہ خود اس کی بدفطرتی دشمن کے طور پر اس کے پیچھے لگی ہوئی ہے۔

(29) اور اگر اس کا مولد (جائے ولادت) فارس ہو تو پھر اسے صنعا یا سقلاب اور روم (دوسرے ملکوں میں) نہ بھیج۔

(30) وہاں (فارس میں) بھی اسے چاشت تک امن میں نہ رہنے دے تاکہ وہ کسی اور پر مصیبت کھڑی نہ کرے۔ (31) کیونکہ کہا جاتا ہے کہ وہ سر زمین برگشتہ ہو جائے جہاں سے لوگ اس طرح باہر آتے ہیں (مراد یہ کہ جس دیار میں اس قسم کے فتنہ پرور ہوں اس کا ختم ہو جانا ہی بہتر ہے) (32) اپنے ندیموں کی قدر میں اضافہ کر، اس لئے کہ اپنے پروردہ سے عذر ممکن نہیں ہوتا۔

(33) جب کوئی خدمت گزار پرانا ؍بوڑھا ہو جائے تو اس کے سالانہ حق کو فراموش نہ کر (یہی مراد ہو سکتی ہے کہ اسے باقاعدہ تنخواہ یا پنشن دیتا رہ)

(34) اگر بے حد بڑھاپے نے اس کی خدمت کا ہاتھ باندھ دیا ہے (وہ خدمت کرنے کے لائق نہیں رہا) تو تیرے کرم (عطا و بخش) کا ہاتھ تو اسی طرح برقرار ہے۔

(35) میں نے سنا ہے کہ جب خسرو نے شاپور (اس کے دور کا مصور، ایک پہلوان کا نام بھی تھا) کی رسم ؍روش پر قلم پھیر دیا (اسے دھتکار دیا) تو اس نے سانس کھینچ لیا، (اس کی بری حالت ہو گئی)

(36) جب بے نوائی یا مفلسی کے باعث اس کا حال تباہ ہو گیا تو اس (شاپور) نے بادشاہ کو یہ صورتحال لکھی۔

(37) کہ جب میں نے اپنی جوانی تیری خدمت میں گزار دی تو اب بڑھاپے میں مجھے اپنے یہاں سے دور نہ کر (نہ دھتکار)۔

(38) اگر تو منصب عطا کرے تو کسی منعم شناس کا عطا کر کیونکہ مفلس کو سلطان سے کوئی خوف نہیں ہوتا۔

(39) جب کسی مفلس نے اپنی گردن کندھے پر رکھ دی (بوڑھا ہو گیا) تو اس سے سوائے خروش ؍شور کے اور کچھ نہیں ہو سکتا (وہ اس عمر میں صرف واویلا ہی کر سکتا ہے)۔

(40) جب کسی مُشرف نے امانت سے دو ہاتھ رکھے (خیانت کی) تو اس پر ایک نگران مقرر کر دینا چاہئے۔

(41) اور اگر اس (نگران) نے بھی اپنے دل سے موافقت کر لی (خیانت پر مائل ہوا) تو پھر مُشرف اور اس کے نگران (دونوں) سے عمل ختم کر دے (ملازمت سے دونوں کو نکال دے)۔

(42) امانت ادا کرنے (واپس کرنے) والا خدا ترس ہونا چاہئے، جو امین (جس کے پاس امانت رکھی ہو) تجھ سے ڈرتا ہے تو اسے امین نہ رکھ۔ (ڈر کی وجہ یہی ہو سکتی ہے کہ وہ بد دیانت ہوگا)۔

(43) امین کے لئے ضروری ہے کہ وہ داور یعنی خدا تعالیٰ کا خوف رکھتا ہو ناکہ اسے دیوانِ ؍عدا لت کی طرف سے خط (مراد وارنٹ) اور ڈانٹ ڈپٹ اور خوف ہو (خدا کا خوف ہو تو انسان ایسے کام ہی نہیں کرتا جن سے اسے مذکورہ حالات سے گزرنا پڑے)۔

(44) تُو بکھیر دے اور گن اور فارغ بیٹھ جا، اس لئے کہ تُو سو میں سے ایک کو (ایک کو بھی) امین نہ پائے گا۔ (یہی مراد ہو سکتی ہے کہ تُو دولت مستحق لوگوں میں تقسیم کر دے، تھوڑی سی رکھ جو تو گن سکے اور یوں فراغت کی زندگی بسر کر۔ واللہ اعلم)۔

(45) دو پرانے ہم قلم ہم جنسوں (جو ایک ہی ملازمت والے ہوں) کو کسی جگہ اکٹھا نہیں بھیجنا چاہئے (کیونکہ وہ مل کر اپنا مفاد پورا کر لیں گے اور تیرے مفاد میں گڑبڑ کر دیں گے۔ اگلے شعر میں وضاحت کر دی ہے)۔

(46) تجھے کیا خبر کہ وہ دونوں ہم دست (برابر کے شریک) اور یار ہوں، ان میں سے ایک تو چور ہو جبکہ دوسرا اس کی پردہ داری کرنے والا۔

(47) جب چوروں کو ایک دوسرے سے خوف اور ڈر ہو (تو اس کا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ قافلہ سلامتی سے اپنا سفر طے کرتا ہے)۔

(48) جب تُو نے کسی کو اس کے مرتبے ؍عہدے سے معزول ؍(برخاست) کر دیا تو جب کچھ عرصہ گزر جائے تو اس کی خطا معاف کر دے۔

(49) اگر تُو یہ چاہتا ہے کہ تیرا نام جاوداں رہے تو پھر نیک نامی کو مت چھپا۔ (انہوں نے جو اچھے کام کئے ہیں انہیں سب پر ظاہر کر)۔

(50) تُو نے پہلے بادشاہوں کے عہدے کے بعد ان کے جو نقش ؍(کارنامے) دیکھے ہیں، ویسے ہی نقش تو اپنے عہد کے بعد پڑھ (یعنی تیرے کارناموں کی بدولت تیرا نام زندہ رہے گا)۔

(51) وہ (پہلے بادشاہ) ایسے ہی نام و طرب اور مقاصد والے تھےـ جنہیں وہ اپنے جانے کے بعد پیچھے چھوڑ گئے۔

(52) ایک انسان تو اس دنیا سے نیک نامی کے ساتھ گیا اور ایک سے برے طور طریقے جاوداں ہو گئے۔ (وہ اپنے پیچھے برائیاں چھوڑ گیا)۔

(53) کسی کی اذیت کو رضا کے کانوں سے نہ سن اور اگر کوئی ایسی بات کہی گئی ہے تو غور و فکر سے اس کی جانچ پڑتال کر (یونہی سنی سنائی پر کسی کو اذیت نہ دے)۔

(54) جو خطاکار ہے اس کے لئے بھول چوک کے عذر کو پیش نظر رکھ (یعنی اس نے جان بوجھ کر خطا نہیں کی ہوگی، بھول سے ہو گئی ہوگی) جب خطاکار پناہ مانگیں تو انہیں پناہ سے نواز۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے