ایران اور سعودی عرب میں وزیر اعظم اور آرمی چیف کامشن کیا ہوگا؟؟

وزیر اعظم نواز شریف 18 جنوری کو سعودی عرب جبکہ 19 کو ایران کا دورہ کریں گے، ذرائع کے مطابق ان دوروں میں آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ان کے ہمراہ ہوں گے۔

دفترخارجہ سے جاری ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم کے ہمراہ ایک اعلیٰ سطحی وفد بھی سعودی عرب اور ایران جائے گا، ان دوروں کے دوران سعودی اور ایرانی قیادت کے ساتھ علاقائی اور عالمی امور پر بات چیت کی جائے گی۔ بیان میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کو حالیہ ایران سعودی تناؤ میں اضافے پر گہری تشویش ہے۔

وزیر اعظم نے دونوں ممالک سے کہا ہے کہ وہ اس مشکل دور میں مسلم امہ کے وسیع تر مفاد میں اپنے اختلافات پرامن طور پر حل کریں، پاکستان نے ہمیشہ او آئی سی کے رکن ممالک میں بھائی چارے کو فروغ دینے کی حمایت کی ہے، پاکستان دونوں ممالک کے ساتھ قریبی اور برادرانہ تعلقات ہیں۔ ذرئع کے مطابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف بھی ان دوروں میں وزیر اعظم نواز شریف کے ہمراہ ہوں گے۔

ریڈیو پاکستان کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے ایک اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف 18 جنوری اور 19 جنوری کو دونوں ممالک کا دورہ کریں گے۔

دفتر خارجہ کے مطابق نواز شریف کل (پیر کے روز) سعودی عرب جائیں گے جبکہ منگل کے روز ایران پہنچیں گے۔

وزیراعظم کے ہمراہ اعلیٰ سطح کا وفد بھی جائے گا البتہ یہ نہیں بتایا گیا کہ وفد میں کون کون شامل ہوگا۔

ذرائع کے مطابق وزیراعظم اور آرمی چیف کشیدگی کے خاتمے کے لیے ریاض میں سعودی فرمانروا سلمان بن عبدالعزیز اور تہران میں ایرانی صدر حسن روحانی سے ملاقاتیں کریں گے.

دفتر خارجہ کے مطابق نواز شریف دونوں ملکوں کی قیادت کے ساتھ عالمی اور علاقائی امور پر تبادلہ خیال کریں گے۔

اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ پاکستان کے ایران اور سعودی عرب کے ساتھ گہرے برادرانہ تعلقات ہیں جبکہ پاکستان کو دونوں ممالک میں حالیہ کشیدگی پر تشویش ہے، وزیر اعظم دونوں ملکوں کی کشیدگی کو پرامن طریقے سے حل کروانا چاہتے ہیں۔

یہ بھی کہا گیا ہے کہ پاکستان او آئی سی (ارگنائزیشن آف اسلامک کوآپریشن) کے ممبر ممالک میں برادرانہ تعلقات کی پالیسی پر عمل پیرا ہے۔

قبل ازیں میڈیا رپورٹس میں امکان ظاہر کیا جاچکا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف، وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز اور معاون خصوصی طارق فاطمی بھی سعودی عرب اور ایران جائیں گے.

واضح رہے کہ سعودی عرب میں شیعہ عالم نمر النمر کو موت کی سزا دیے جانے کے بعد گزشتہ ماہ مظاہرین نے تہران میں واقع سعودی سفارت خانے اور شہر مشہد میں سعودی قونصل خانے پر دھاوا بول دیا تھا۔

واقعے کے بعد سعودی عرب نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کرتے ہوئے ایران کے سفارتی عملے کو 48 گھنٹے میں ملک چھوڑنے کی ہدایت کی تھی۔

56 سالہ شیخ نمر الباقر النمر کو 12-2011 میں ملک کے سب سے بڑے مشرقی صوبے ’الشریقہ‘ میں حکومت مخالف احتجاج کو منظم کرنے کا جرم ثابت ہونے پر سزائے موت سنائی گئی تھی۔

ان کے ہمراہ دیگر 46 افراد کو بھی دہشت گردی کا جرم ثابت ہونے پر موت کی سزا دی گئی تھی۔

شیخ نمر الباقر النمر کو اکتوبر 2014 میں موت کی سزا سنائی گئی تھی، جبکہ سپریم ٹرائل کورٹ اور سپریم کورٹ نے ان کی اپیل مسترد کر تے ہوئے اکتوبر 2015 میں سزائے موت کی توثیق کی تھی۔

یاد رہے کہ سعودی عرب اور ایران کے درمیان تعلقات میں گزشتہ کئی دہائیوں سے کشیدگی پائی جاتی ہے اور سعودی عرب کئی بار یہ الزام لگا چکا ہے کہ ایران، عرب ممالک کے معاملات میں مداخلت کر رہا ہے۔

سعودی عرب کے ساتھ یکجہتی کا مظاہرہ کرتے ہوئے متعدد خلیجی ممالک نے ایران سے سفارتی تعلقات ختم کرنے کا اعلان کیا.

تاہم پاکستان نے موقف اختیار کیا تھا کہ ’مناسب وقت‘ آنے پر سعودی عرب اور ایران کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا جائے گا.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے