اینکرز ہیں کہ خواجہ سراؤں کا غول ہیں

شورش کاشمیری نے کہا تھا: اخبار ہیں یا خواجہ سراؤں کا غول ہیں۔معلوم نہیں اس دور کے اخبارات اور مدیران کرام کی کون سی ادائیں تھیں جو اس مصرعے کی شان نزول بنیں لیکن مارگلہ کے پہاڑوں پر شام اترتی ہے تو ایک خیال لپکتا ہے، شورش اگرآج زندہ ہوتے اور وقت افطار رمضان ٹرانسمشن کے نام پر بعض اینکرز کی بدذوقی اور پست اخلاقیات کا مظاہرہ اپنی آنکھوں سے دیکھتے تو کیسی گرہ لگاتے: اینکر ز ہیں یا خواجہ سراؤں کا غول ہیں؟

کوئی دکھ سا دکھ ہے، رمضان کے مبارک مہینے میں شیطان قید ہو جاتا ہے لیکن میڈیا آزاد ہو جاتا ہے،قوم پر میڈیا ہاؤسز اپنے ناتراشیدہ اینکرز چھوڑ دیتے ہیں جو اپنے مطالعے، تہذیب، تربیت اور ذوق کے اعتبار سے اتنے پست واقع ہوئے ہیں کہ ان کی اچھل کود اور اوٹ پٹانگ حرکتیں دیکھ کر بندے کو متلی آ نے لگتی ہے۔صحافت کا حال پہلے ہی کوئی بہت اچھا نہیں ہے۔اک زوال مسلسل ہے۔خبر چربہ، کالم تعصبات کی جگالی، اسلوب جیسے بیوہ کا بڑھاپا، تدبر غائب، علم عنقا اور ادار یہ مرغ کے وظیفۂ زوجیت کی طرح مشق مستعجل۔ ۔ غیر سنجیدگی، غیر ذمہ داری اور جہالت کے آسیب نے گلیاں سونی کر دی ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ آج کسی سنجیدہ آدمی کے لیے اردو صحافت سے وابستہ رہنا یا فیض یاب ہونا ممکن نہیں رہا۔ تنہائی اسے آغوش میں لے لیتی ہے اور اوسط سے کم تر ماحول میں وہ بالکل اجنبی ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔لیکن اب تو اس آزاد میڈیا کے ناتراشیدہ لونڈوں نے باقاعدہ دین کا مذاق اڑانا شروع کر دیا ہے۔یہ چیز نظر انداز نہیں کی جا سکتی۔

بلاشبہ سبھی ایک جیسے نہیں۔ایسے چینلز بھی ہیں جہاں رمضان ٹرانسمیشن پورے اہتمام اور وقار کے ساتھ پیش کی جاتی ہیں ۔میزبان اور مہمان سماجی ، مذہبی اور اخلاقی اقدار کے مطابق شائستگی سے پر سکون ماحول میں بات کرتے ہیں لیکن ایسے چھچھورے میزبان بھی ہیں جو کسی غریب کالونی سے چند ندیدوں کو اکٹھا کر کے،ایک’ سکوٹری‘انعام میں دیتے ہیں تو ساتھ پوری بے شرمی سے چیختے ہیں:’’ لے جاؤ لے جاؤ یہ بائیک اور اس پر گرل فرینڈ کو سیر کراؤ‘‘۔اور اسے آگے سے کوئی یہ نہیں کہتا کہ بے شرم انسان یہ اپنی مادری ہم نصابی سرگرمیاں اپنے گھر تک رکھو۔مہمانوں کی ان بے ہودہ شوز میں جتنی تذلیل کی جاتی ہے وہ بجائے خود ایک المیہ ہے۔ایک لونڈا کل اپنے شو میں پوچھ رہا تھا : بتائیے کل میں نے کس رنگ کے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔اپنے کپڑوں کے بارے اتنی حساسیت کا مظاہرہ کر کے یہ لونڈا اپنی خواجہ سرائی کی نمائش کے سوا اور کیا کر رہا تھا۔فیصلہ کرنا مشکل ہے کہ ان شوز کے اینکرز زیادہ ناتراشیدہ ہیں یا شرکاء جو چند ٹکوں کا انعام حاصل کرنے کے لیے اپنی اتنی تذلیل کراتے ہیں کہ اس لمحے انسان نہیں جانور لگتے ہیں۔خدا لگتی کہیے کیا اب ہمیں شوبز کے ڈوم اور ڈومنیاں دین سکھائیں گے؟کیا اہل علم اور جید بزرگان دین اس دھرتی سے اٹھ گئے کہ اب ہم دین کی ٹرانسمشن کے لیے جان ریمبووں، فہدوں،جعلی ڈگریوں والوں،عمر شریفوں کے محتاج ہیں۔چینلز پر جو حرکتیں ہو رہی ہیں انہیں دیکھ کر دل سے دعا نکلتی ہے کہ ’’ بے چاری‘‘ ایمان علی کی ڈیڑھ دو ہفتے مزید ضمانت نہ ہی ہو ورنہ ضمانت ہو گئی تو کچھ بعید نہیں کسی ٹی وی پر محترمہ رمضان ٹرانسمشن میں دولت کی ہوس کے خلاف ہمیں لیکچر دے کر ہمارا تزکیہ کرتی پائی جائیں۔

صحافت کا حال ہمارے سامنے ہے، اب میر انیس ہی آئیں تو کوئی مرثیہ ہو۔درد اس وقت کچھ اور بڑھ جاتا ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ اس خطے میں صحافت کی تاریخ خا ص تا بناک رہی ہے۔

ابو لکلام آزاد سے لے کر چراغ حسن حسرت تک کیسے کیسے لوگ اس شعبے سے وابستہ رہے ہیں۔ سترہ سال کی عمر میں ابو الاعلی مودودی مدھیہ پردیش کے ’’تاج‘‘کے مدیر بنے اورآخر تک صحافت کو وجۂ افتخار جانا۔ پاسپورٹ پر کبھی علامہ ،مولانا یا مذہبی سکالر نہ لکھا۔ ہمیشہ خود کو صحافی لکھا۔ اسلوب، متانت اور علم! ہم نے سب کچھ گنوا ڈالا۔ وے ’گہر‘ تو نے ایک ہی شوخی میں کھو دیے۔

رمضان ایک ماہ مقدس ہے جس میں فرد اللہ کی جانب رجوع کرتا ہے۔ہمارے میڈیا کے کمر شلزم نے اسے ایک تہوار بنا دیا ہے۔میڈیا کو ہر چیز بیچنی ہے،بھلے وہ مذہبی جذبات ہی کیوں نہ ہوں۔اب افطار کے ساتھ ہی بے ہودہ پروگراموں کی ایک لمبی فہرست ہے جو چلنا شروع ہو جاتی ہے۔نجی چینلز کا تو کیا رونا پی ٹی وی بھی جو ایک سرکاری چینل ہے اور عوام سے بجلی کے بلوں میں سے تیس روپے ’ جگا ٹیکس ‘ لیتا ہے، رمضان شروع ہوتے ہی مزاحیہ کھیل شروع کر دیتا ہے۔وقت تراویح یہ مزاحیہ کھیل چل رہا ہوتا ہے۔رمضان کا خصوصی مزاحیہ کھیلوں سے کیا واسطہ،یہ ایک تہوار نہیں ہے ،یہ عبادت کا مہینہ ہے۔اسے کھیل مت بنائیے۔خدا کے قہر سے ڈریے۔اس وقت سے ڈریے جب لوگ سڑکوں پر نکل آئیں اور مطالبہ کریں کہ ماہ مقدس میں شیطان کی طرح آزاد میڈیا کی بھی مشکیں کس دی جائیں تاکہ کچھ سکون ملے۔

دل جل اٹھتا ہے، آئین قانون ،چینلز نے ہر چیز پامال کر دی ہے۔دستور پاکستان کا آرٹیکل 19 جو رائے کے حق کی آزادی دیتا ہے چند پابندیاں بھی عائد کر دیتا ہے اور واضح طور پر قرار دیتا ہے کہ اسلام کی شان و شوکت، شائستگی اور اخلاقیات کے تقاضوں کے خلاف کوئی بات نہیں ہو گی۔اب آپ رمضان میں نیلام گھر کی طرز پر چلنے والے پروگرام ذرا خود دیکھ لیں اور فیصلہ کر لیں ان کا اخلاقیات اور شائستگی سے کیا تعلق ہے۔پیمرا آرڈیننس 2002 کا آرٹیکل 20 بھی اس ضمن میں بنیادی اہمیت کا حامل ہے۔اس میں ٹی وی چینل کے لائسنس کی "Terms and Conditions” کی بات کی گئی ہے کہ جس فرد کو ٹی وی چینل کھولنے کا لائسنس ملے گا اس کے لیے چند امور کی پابندی لازمی ہو گی۔مثلا،وہ اسلام کی شان و شوکت کے تحفظ کو یقینی بنائے گا،وہ سماجی اور مذہبی اقدار کے تحفظ کو یقینی بنائے گا،وہ عریانی فحاشی ،بے ہودگی سمیت ایسے تمام کاموں سے اجتناب کرے گا جو معاشرے کی عمومی اخلاقیات سے کم تر ہوں۔اب آپ فیصلہ کر لیجیے کیا ان پروگراموں میں ہماری اقدار کا تحفظ کیا جا رہا ہے یا انہیں برباد کیا جا رہا ہے۔ہماری اقدار تو یہ تھیں کہ رمضان آتے ہی بہت ہی مباح چیزوں سے بھی اجتناب شروع ہو جاتا تھا کہ یہ خاص عبادت کا مہینہ ہے۔یہاں رمضان آتا ہے تو اداکار اور اداکارائیں ،چہروں پر میک اپ کی دبیز تہیں لگا کر ہماری حسیات کا خون کرنے آن دھمکتے ہیں،جس چینل پر دیکھو ایک لونڈا اور ایک چھمک چھلو تماشا لگائے بیٹھے ہیں۔اور ہر جانب ایک خاموشی ہے؟ایان علی کی توہین ہو تو کھوسہ لاء چیمبر دس کروڑ کے نوٹس بھیج دیتا ہے،ارسلان افتخار کے والد گرامی بیس کروڑ کا نوٹس بھیجتے ہیں، سپریم کورٹ کے جنگلوں پر شلوار دھو کر لٹکائی جائے اس پر بھی نوٹس ہوتا ہے، یہاں لونڈوں نے دین کا مذاق اڑانا شروع کیا ہوا ہے، کسی کو پرواہ نہیں۔ہمارے بزرگ آخری عشرے میں غم کی تصویر بنے ہوتے تھے کہ مہمان مہینہ رخصت ہونے والا ہے،یہاں سکرینوں پر لونڈے اور چھمک چھلو مل کر عید تیاریوں کے نام پر بد زوقی اور بد اخلاقی کا طوفان اٹھا دیتی ہیں۔ریاست مدینہ کے بعد کلمہ طیبہ کے نام پر بننے والی دنیا کی اس واحد ریاست میں کیا دین کا کوئی وارث نہیں رہا؟آنکھ کھولیے اس سے پہلے کہ آنکھ بند ہو جائے۔کوئی شرم ہوتی ہے کوئی حیا ہوتی ہے۔

[pullquote]

یہ کالم گزشتہ رمضان المبارک میں شائع ہوا تھا

[/pullquote]

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے