ایک تکلیف دہ موازنہ

ایک تکلیف دہ موازنہ وئی فرنگیوں کو لاکھ برا بھلا غاصب، عیار،مکار کہے لیکن سچی بات ہے گورننس کی تمیز گورے کو ہی تھی کہ 90سال 1857ء تا 1947ء 90سال میں جہالت اور پسماندگی میں غرق برصغیر کو کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔سیاسی نظام سے عدالتی و انتظامی نظام تک، نہری نظام سے کئی نئے شہروں تک، میڈیکل کالجز سے زرعی کالجوں اور دیگر تعلیمی اداروں اور یونیورسٹیوں تک، ’’بمبمے‘‘یعنی ہینڈپمپ سے ریلوے اور ماچس تک، جدید منظم فوج سے لاء اینڈ آرڈر تک کمال ہی کمال ہے ۔رٹ تھی ایسی زبردست کہ ہندوئوں کے روحوں سے سَتّی کی بے رحم رسم اکھاڑ پھینکی، برہمنوں اور مسلمان اشرافیہ کو اس کی عدلیہ پر بڑی خار تھی کہ اچھوت اور کمی کمین بھی انہیں عدالتوں میں گھسیٹ سکتے ہیں۔حرام خور برہمن نے ریل کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کیا کہ اس میں شودر بھی برہمن کے برابر بیٹھ سکتا ہے لیکن گورے نے جو کیا ڈٹ کر کیا اور خوب کیا …..

ہم سے کہیں بہتر کیا کہ آج نہ وہ پولیس نہ عدالتیں نہ ریلوے نہ نہری نظام نہ ’’کمپنی باغ‘‘ کہ باغوں کیا ہم نے تو قبرستانوں پر قبضے شروع کر دیئے۔کوئی ہے جو قسم اٹھا کر کہہ سکے کہ آج کا گورنمنٹ کالج لاہور اور پنجاب یونیورسٹی اتنے ہی عالیشان تعلیمی ادارے ہیں جتنے کبھی تھے۔میں نے کہیں نہیں پڑھا کہ تب وکلاء ججوں پر اس طرح چڑھ دوڑتے تھے،طلبہ اساتذہ کے گریبان پکڑتے تھے اور ڈاکٹرز اسی طرح مریضوں کو’’گاہکوں‘‘ کی طرح ٹریٹ کرتے تھے۔ حقیقت یہ کہ ہم نے ہمارے ساتھ اس سے کہیں برا کیا جتنا گورے نے کیا لیکن بہرحال ’’آزادی‘‘ بڑی بات ہے ۔

’’اپنوں‘‘ کے ہاتھوں برباد ہونا غیروں کے ہاتھوں آباد ہونے سے کہیں بہتر ہے ۔ان لاکھوں کو کیا کہیں جو آزاد وطن چھوڑ کر سابق آقائوں کے ملکوں کی شہریت والی ’’غلامی‘‘ پر ناز کرتے ہیں۔محبت پاکستان سے لیکن شہریت انگلستان تا امریکہ ،کینیڈا، آسٹریلیا کی۔ جائیدادیں بھی وہیں، اولادیں بھی وہیں اور بضد اس بات پر کہ ’’یہ وطن ہمارا ہے، ہم ہیں پاسباں اس کے‘‘ تضادات کے یہ مائونٹ ایورسٹ کیوں؟ فرق کیا ہے ؟

تب’’ رول آف لاء‘‘ تھا، اب ’’رول آف دی رولر‘‘ ہے ورنہ ہمارا وزیر باتدبیر یہ نہ کہتا کہ اگر وزیراعظم آئی جی پولیس نہیں بدل سکتا تو الیکشن کی کیا ضرورت؟ حضور! پروسیجرز، قواعدوضوابط، اصول قانون بھی کوئی شے ہے کہ مادر پدر آزاد ہو کر تو کائنات نہیں چل سکتی، ملک کیسے چلے گا؟ لمبی کہانی ہے جسے سمجھنے کیلئے ایک چھوٹا سا واقعہ عرض ہے ۔یہ 1930تا 35ء کی درمیانی کہانی ہے ۔لیجنڈپطرس بخاری تب پنجاب ٹیکسٹ بک کمیٹی کے چیئرمین تھے جب فیض احمد فیض جیسا لیجنڈ انہیں ملنے گیا۔وہاں ایک ضخیم فائل پر نظر پڑی جس پر جلی حروف میں لکھا تھا ʼʼOFFICE CATʼʼ فیض صاحب یہ عنوان دیکھ کر متجسس ہوئے اور پطرس بخاری صاحب سے پوچھا …..’’یہ کیا ہے ؟‘‘

جس پر بخاری صاحب نے فرمایا ۔’’قصہ یوں ہے کہ ایک دن میرے آفس میں بلی آگئی۔مجھے اچھی لگی تو میں نے کسی سے کہا اسے تھوڑا سا دودھ لادو۔پھر وہ بلی ہر روز آنے لگی اور ہر روز اسے دودھ بھی باقاعدگی سے ملنے لگا۔مہینے کے آخر پہ سپرنٹنڈنٹ نے دفتر کے اخراجات کا بل مجھے بھیجا تو اس کے ساتھ ایک تحریری سوال بھی منسلک تھا کہ بلی کے دودھ پر چودہ روپے چھ آنے کی جو رقم خرچ ہوئی ہے، وہ کس مد میں جائےگی ؟میں نے لکھ بھیجا CONTIGENCES یعنی متفرق خرچ میں ڈال دو۔چند روز کے بعد اکائونٹنٹ جنرل نے بل لوٹا دیا اور نوٹ لکھا کہ CONTIGENCYکی مد دفتر کے سازو سامان اور دیگر غیر جاندار اشیاء کے لئے مخصوص ہے ۔بلی جاندار شے ہے جس کے اخراجات اس میں شامل کرنا رولز کی خلاف ورزی ہے ۔

اس پر آفس سپرنٹنڈنٹ نے مجھ سے تحریری ہدایت طلب کی۔میں نے لکھا کہ اگر جاندار غیر جان دار کا مسئلہ ہے تو ESTABLISHMENTیعنی عملے کی مد میں ڈال دو۔بل دوبارہ خزانے کو بھیجا گیا اور تھوڑے دنوں میں لوٹ آیا اور اس بار طویل مراسلے میں یہ استفسارات تھے کہ اگر یہ خرچ عملہ کی مدد میں جائے گا تو واضح کیا جائے کہ اس رقم کو تنخواہ تصور کیا جائے گا یا کہ الائونس ۔ اگر تنخواہ ہے تو بھی قاعدہ ضابطہ نمبر فلاں فلاں، دفتر کی پیشگی منظوری درکار ہے اور اگر یہ الائونس ہے تو بموجب رول اینڈ ریگولیشن فلاں فلاں متعلقہ افسر سے اس کی تصدیق لازمی ہے چنانچہ یہ فائل چھ مہینے سے چل رہی ہے اور اس میں ایسے ایسے باریک انتظامی قانونی نکتے بیان ہوئے ہیں جن کاتصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔‘‘

یہ ہے گورننس اور قواعدوضوابط کا احترام جبکہ ’’آزادی‘‘ کے بعد کی مادر پدر آزادی میں تو قدم قدم پر ’’انہی ‘‘(اندھی) پڑی ہوئے ہے ۔حلوائی کی دکان پر نانا دادا سب کی فاتحہ، سکھا شاہی، واہی تباہی کا ناتمام سلسلہ ہے جس کا سب سے بڑا موجد نواز شریف جس نے رولز ریلیکس کرنے کی بدعت عام کی اور اپنا ووٹ بینک بنانے کیلئے 60،60سال کے بابوں کو پٹواری اور ʼʼWANTEDʼʼقسم کے جرائم پیشہ لوگوں کو پولیس میں بھرتی کیا۔پبلک پارکس ،چمچوں کو دان کئےکواپریٹوز کے ساتھ کھلواڑ کیا اور نوبت یہاں تک آپہنچی کہ آج وکیل وزیر یہ کہتا ہے کہ اگر وزیر اعظم IGپولیس بھی نہیں بدل سکتا تو الیکشن کی کیا ضرورت تھی؟وزیر اعظم کا قصور نہیں یہ ’’کٹلری بوکس‘‘ کا کام تھا کہ کوئی اسے بتاتا ’’پرائم منسٹر صاحب !آپ آئی جی کو تبدیل تو کر سکتے ہیں لیکن فون پر نہیں کہ اس کا ایک پراسیس پروسیجر اور طریق کار ہے ‘‘ لیکن آلات خورونوش ایسا رسک نہیں لیتے، یہ انسانوں کا کام ہے !

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے