ایک جنگ محبت کے نام عرف پدماوت

پدماوت دیکھی، ہاسا ہی نکل گیا۔ دوبارہ دیکھی تو پھر ہنسی سے لوٹ پوٹ ہو گئی اور سہ بارہ دیکھنے کی ہمت نہ ہوئی اب جی چاہتا ہے، سینما کے دروازے پہ موڑھا ڈال کے بیٹھ جاؤں اور آ تے جاتوں کو کہوں، ’’ دو بار دیکھی ہے تیسری بار دیکھنا ہوس ہے ‘‘۔

سوال یہ ہے کہ فلم میں آ خر ایسا کیا ہے کہ ایک خاصا سنجیدہ انسان ان کیفیات سے دوچار ہو جائے؟ سب سے پہلے تو اس نکتے کو ایک طرف کیجئے کہ فلم یا کسی بھی طرح کے فکشن اور حقیقی تاریخ میں کوئی مماثلت ہوتی ہے۔ یوں تو لکھی ہوئی تاریخ کی بھی اصل تاریخ سے مماثلت بعید از قیاس ہی ہے۔ لیکن جو بھی، جیسی بھی تاریخ ہمیں مل جاتی ہے وہ تاریخی فلموں میں دکھائی بھی جائے یہ ممکن نہیں۔ وجوہات بے شمار ہیں۔

ایک وجہ تو یہ کہ تاریخ خاصا خشک موضوع ہے اور فلم، تفریح کی غرض سے دیکھی جاتی ہے، لہٰذا اس میں تفریح کا عنصر غالب ہوتا ہے اور اس کے لئے تاریخ کو وقتاً فوقتاً تیل لینے بھیج دیا جاتا ہے۔ دوسرا، اس دور کو پردے پہ تخلیق کرنا خاصا مشکل کام ہوتا ہے۔ اس دور کے لباس اور عمارات، زبان، تہذیب، ثقافت اور ادب آ داب سب بہت مختلف ہوتے ہیں، اور یہ ہی فلم ساز کا کمال ہوتا ہے کہ وہ یا تو تحقیق کے ذریعے اس دور کی درست عکاسی کر پائے، یا ایک دیکھنے والے کو یہ سمجھنے پہ مجبور کردے کہ ایسا ہی ہوتا ہو گا۔
دونوں صورتوں میں تماش بین کو ہال سے اس کیفیت میں نکلنا چاہیے کہ اسے کم سے کم اپنے ٹکٹ کے پیسے ضائع ہونے کا افسوس نہ ہو۔

اب آ تے ہیں فلم پدما وت کی طرف، جیسا کہ ہندوستان، پاکستان کا بچہ بچہ جان چکا ہے کہ یہ فلم، ’’ محمد جائسی‘‘ کی نظم پدما وت پہ بنی ہے اور یہ نظم، علأ الدین خلجی کے دور کے کئی سو سا سال بعد لکھی گئی اور یہ بھی کہ اس نام کی کسی رانی کا کوئی وجود نہ تھا لیکن نہ صرف دونوں ملکوں میں بلکہ جہاں جہاں فلم لگنی تھی ’ کھل بلی ‘ سی مچ گئی۔

فلم یا کوئی بھی کہانی ’ خواہش ‘ یا ’ عزم ‘ کے گرد گھومتی ہے۔ مرکزی کردار کی خواہش اور کھل نائیک یا ولن کی خواہش، دونوں ایک دوسرے سے متصادم ہوتی ہیں تو ڈرامہ پیدا ہوتا ہے جو دیکھنے والوں کو اپنے ساتھ قدم بہ قدم چلاتے ہوئے انجام تک لے جاتا ہے۔ اس فلم کا ہیرو کون تھا؟ رانا چتوڑ؟ جو پہلے ہی سین میں اپنی دھرم پتنی کے ہاتھوں، ان کا قیمتی ہار اجاڑنے پہ درگت بنواتے نظر آتے ہیں اور پھر جہاں وہ موتی خریدنے جاتے ہیں وہاں ایک شہزادی کے تیر سے گھائل ہوتے ہیں اور ان کی میزبانی کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے ان پہ نہ صرف یہ کہ گندی نظر رکھتے ہیں بلکہ ان سے موتی بھی بٹورتے ہیں اور جاتے جاتے اپنی وفا شعار بیوی پہ سوت بنا کے ساتھ بھی لے جاتے ہیں۔

اس طرح رانا صاحب کا کیئریئر تو بطور ہیرو، شروع ہونے سے پہلے ہی ختم ہوجاتا ہے۔ نہ تانیثیت پسند اورنہ ہی بے چارے نام نہاد شاؤنسٹ اس ہیرو کے ساتھ کہیں کھڑے ہو پاتے ہیں، نہ روایتی ہندوستانی سوچ اور نہ ہی جدید آزاد ذہن، کوئی بھی رانا رتن سنگھ کو ہیرو تسلیم نہیں کر پاتا، کیونکہ نہ تو وہ وفا شعار ہے، نہ پہلی بیوی کے دیے ہوئے تحفے کی توقیر کرتا ہے اور نہ ہی میواڑیوں کی مہمانداری کی کوئی قدر کرتا ہے، وہاں اس کے راجپوتی اصول جانے کہاں جا چھپتے ہیں۔

دوسری انٹری جو کہ اصل میں پہلی انٹری تھی اور فارمولے کے لحاظ سے ہیرو کی انٹری تھی، علأ الدین خلجی کی تھی جو اپنے زورِ بازو سے اپنی عم زاد کی فرمائش پہ اس کے لئے ایک پر کی جگہ ایک پورا شتر مرغ ہی لے کر آ جاتا ہے اور یہیں پہ بس نہیں، سلطانِ ہند کے سامنے خم ٹھونک کر اس کی بیٹی کا ہاتھ مانگ لیتا ہے۔

یہ تمام خصوصیات کم سے کم روایتی سوچ کے لوگوں کو، اس ’ مبینہ ‘ خلجی کو ایک ہیرو کی شکل میں دیکھنے پہ مجبور کر دیتی ہیں۔ خاص کر ہندوستان کے ناظرین، جن کے پاس اب سوائے تاریخ اور اس کے صفحات میں دبے، یہ وسطی ایشیائی فاتحین، ہی وہ بنیادیں ہیں جن پہ وہ اپنی شناخت کی عمارت قائمکیے کھڑے ہیں۔

گویا، فلم کا ولن ہی تکنیکی اعتبار سے فلم کا ہیرو بن گیا اور ہیرو کی حیثیت ایک سائیڈ کک کی ہو گئی۔ خواتین کے کردار میں رانی سا، یا بڑی بہو ایک روایتی راجپوت بہو ہیں جو ہزارہا خادماؤں کی موجودگی میں اپنے دوپٹوں پہ جانے کیا ٹانکتی رہتی ہیں، اور بے چارگی سے نوکرانیوں کو بلا بلا کے سوئی دھاگا مانگتی ہیں۔ کچھ ایسا ہی حال، ترک شہزادی، اور اب حالیہ ملکۂ جہاں کا ہے، وہ بھی گھر کا پھٹا ادھڑا سی سی کر اپنی زمرد سی آ نکھیں پھوڑا کرتی ہیں۔

لے دے کے ایک نارمل عورت تھی، جو غالباً تعلیم حاصل کرنے کی غرض سے ایک ویہار میں رہ رہی تھی ( یہ بھی قیافہ ہے ورنہ فلم ساز نے اس طرف بالکل توجہ نہیں دی کہ اس دور کی خواتین کو اس پہلو سے بھی دکھایا جاتا ) یہ شہزادی، پدما وتی تھیں اور چنکارہ ہرن کا شکار بھی کرتی پائی گئیں۔ مگر قسمت دیکھئے ان کی ایک دو ہا جو راجے کو تیر مارا اور چونکہ، عورت تھیں اور ویہار میں رہنے کی وجہ سے برہمچاری بھی تھیں تو جس پہلے مرد کو دیکھا اس پہ مر مٹیں۔

اب یہ راجہ کا حدود اربعہ پوچھے بغیر یا اگر پوچھتی بھی ہیں تو نہائت بے ملالی سے ایک دوسری عورت کے گھر میں درانہ گھس جاتی ہیں۔ اس بارے میں راجپوت پرم پرا کیا کہتی ہے، فلم ساز نے بالکل نہ سوچا۔ دوسری طرف خلجی کا اپنی شادی کی رات ایک لونڈی کے پاس چلا جانا اس طرح دکھایا گیا ہے جیسے بڑا جرم ہو حالانکہ اس دور میں انسانی تجارت ابھی قانون اور اخلاق کے دائرے ہی میں آ تی تھی اور اس دور کے حساب سے یہ کوئی جرم نہ تھا۔

پھر یہ رانا اور رانی ایک ابولہوس برہمچاری کے پاس حاضر ہوتے ہیں اور وہ رانی پہ گندی نظر رکھ لیتا ہے۔ راجہ صاحب کا بھولپن ملاحظہ ہو کہ انہیں یہ سب نہ آج تک نظر آ یا تھا اور نہ آج نظر آیا۔ نظر آیا تو کب، جب وہ استاد ذی وقار ان کی خواب گاہ میں جھاتیاں مارتے پکڑے گئے۔

اس سب سے فلم ساز شاید یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ پدما وتی نے ایک برہمچاری کی تپسیا بھنگ کر دی۔ خیر، آ گے چل کے ہم دیکھتے ہیں کہ وہ ذہین اور بہادر لڑکی بھی چتوڑ کی نمک کی کان میں آ کے نمک ہو جاتی ہے اور سوائے بھاری بھاری لہنگے پہن کے راجہ کی پگڑی میں موتی ٹانکنے، ناچنے اور مختلف طرح کے تہوار منانے کے کوئی کام نہیں کرتی، یا پھر راجہ کو الٹے سیدھے مشورے دیتی ہے، جس سے اس ویہار میں دی جانے والی ڈگری کا پول بھی کھل جاتا ہے، جہاں یہ پڑھا کرتی تھیں۔ یقیناً کسی گروپ آ ف کالجز کی ملکیت ہو گا اور نالائقوں میں مہنگی ڈگریاں بیچنے کا کام کرتا ہو گا۔

اس دوران، علأ الدین خلجی، اپنی سیاست، قسمت اور چالبازی کی بدولت، سلطان الہند بن چکا تھا اور ملک کافور اس کا دایاں بازو تھا۔

چونکہ اکثر ہندوستانی سینما کے ہیرو، ان ہی اوچھے ہتھکنڈوں سے امیر ہوئے ہوتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ’ امی جان کہتی تھیں کوئی دھندا چھوٹا نہیں ہوتا اور دھندے سے بڑا کوئی دھرم نہیں ہوتا ‘‘، اس لئے کوئی وجہ نہیں کہ دیکھنے وا لا فلم ساز کے حسبِ منشاء خلجی سے نفرت نہیں کر پایا۔

ادھر رانا رتن سنگھ نے عقل سے ایسا بیر بسایا کہ ساری فلم میں سوائے لمبی لمبی باتیں کرنے اور دشمن کو ’ ہولی، دیوالی‘ کے تہواروں سے ڈرانے اور رانی سا کے ساتھ فضول فضول سین فلموانے کے علاوہ کوئی کمال نہ دکھا پائے۔ نہ کوئی جنگی حکمتِ عملی، نہ کوئی مشقیں، نہ کسی طرح کے ہتھیاروں سے واقفیت، نہ ہی سیاست کی کچھ شدھ بدھ۔ جن اصولوں کو راجپوتوں کے اصول کہہ کے اپنی کوڑھ مغزی پہ پردا ڈال رہے تھے، ان تمام اصولوں کو فلم کی ابتداء میں خود ہی پائمال کر چکے تھے۔

فلم میں ایک بہادر عورت نظر آ تی ہے اور وہ بھی اپنے کردار کی ایسی تیسی پھیر دیتی ہیں۔ ملکۂ جہاں کہتی ہیں کہ میں تمہیں اس لئے بھاگنے کا موقع دے رہی ہوں کہ میرا شوہر گناہگار نہ ہو۔ یعنی وہ زانی، ظالم، قاتل شخص صرف شوہر ہونے کی وجہ سے اب بھی ان کی ہمدردی کا مرکز تھا اور وہ اس عاقبت کے لئے اب بھی پریشان تھیں۔ بیڑہ ہی غرق ہو ایسے کرداروں کا۔

فلم ابھی باقی ہے میرے دوست، اب چلتے ہیں چتوڑ۔ یہاں بچ کے آ نے والے راجہ (جنہیں پدما وتی بھی دھوکے ہی سے چھڑا کر لائی ہے اور جس چالاکی پہ رانا رتن سنگھ پانی پی پی کر خلجی کو کوستے ہیں قریباً ویسی ہی غلط بیانی اور چالبازی سے اپنی فوج شاہی محل میں پہنچاتی ہے ) مزید حماقتیں کرتے ہیں اور بجائے کسی جنگی حکمتِ عملی پہ ذہن لڑانے کے پھر پرانی حرکتوں پہ قائم رہتے ہیں۔ یہاں تک کہ جنگ میں بھی بھولے بن کر مر جاتے ہیں۔

مرنے سے پہلے ایک کام کر گزرتے ہیں کہ بے چاری پدماوتی کو جسے وہ سکول سے بھگا کر لائے تھے، جل کر مرنے کی اجازت دے جاتے ہیں۔ وہ ایسی سیانی کہ اپنے ساتھ ساری راجپوتانیوں کو لے کر مر جاتی ہے۔ خلجی، قلعے کی کائی زدہ فصیلوں پہ اپنی خواہش کی شدت میں دوڑتا ہے اور آ خر کچھ خادماؤں سے منہ جھلسوا کے ٹکتا ہے۔

خلجی سلطان کے بارے میں دو باتیں مزید غور طلب ہیں، ایک تو یہ کہ وہ کنول کا پھول سونگھتا ہے، دوسرے کھانا کھاتے ہوئے بالکل پاکستانی ہو جاتا ہے اور وہ بھی وہ پاکستانی جو کسی کی شادی میں آ یا ہو ا ہو۔ ترک تو خاصے نفیس مزاج ہوا کرتے تھے اور یہ ہی دکھانے کے لئے مستقل امیر خسرو کو ساتھ نتھی کیا گیا لیکن وہاں بھی خلجی سلطان، ہندوستانی فلموں کے بمبیاء ولن کی طرح بازارو شاعری کرتا اور بے ہنگم رقص کرتا پا یا گیا۔ ان خصوصیات کے باعث، وہ بے چارے بھی ہیرو نہ بن پائے۔ مرغولی محرابیں، جو کہیں شاہجہاں کے دور میں ایجاد ہوئی تھیں، جگہ جگہ دکھا ئی گئیں۔

شاید میواڑ کے لوگوں کا مذہب بودھ دکھا یا جانا تھا، لیکن پھر کیا سوچ کر انہیں شدھی کر دیا گیا۔ ’ خ‘ اور ’ کھ ‘ کا باہم اختلاط ثابت کر گیا کہ فلم بنا نے والوں کو بس رنگ برنگے کپڑوں سے دورِ قدیم دکھانا تھا، شین قاف سب کا ایک ہی تھا۔

فلم ختم ہوتی ہے، پاپ کارن کے خالی ڈبے کھٹ کھٹ سیڑھیوں پہ گرتے ہیں، لوگ زیرِ لب، راجہ، علاء الدین خلجی، رانی اور فلم ساز کے اگلے پچھلوں کو کوستے، اپنے پیسوں کا حساب لگاتے گھر کا رخ کرتے ہیں۔ سمجھ کسی کو بھی نہیں آ تی کہ فلم میں کیا کہا گیا؟

مجھے چونکہ ایم اے کے بچوں کو فلم پڑھانی ہوتی ہے اور یہ بچے، نئی فلموں پہ عجیب عجیب سوال میرے ہی لیکچرز کی روشنی میں کر کے میرا ہی منہ بند کر دیتے ہیں اس لئے میں نے بھی خوب غور کیا کہ فلم میں کہا کیا گیا ہے۔ میری ناقص عقل میں اتنی سی بات آ ئی کہ خوبصورت عورت کے ساتھ سونا، خلجی جیسے ’ مبینہ ‘ عیاش اور ظالم بادشاہ سے لے کر ایک برہمچاری تک کی خواہش ہوتی ہے اور بڑے سے بڑا عبادت گزار اور زیرک آ دمی بھی اس خواہش سے نہیں بچ سکتا۔ نیز یہ کہ عورت شادی کے بعد ایک مرد کی ملکیت بن جاتی ہے اور اگر وہ چاہے تو وہ جیئے اور جب وہ اجازت دے، تب پٹ سے گر کے مر جائے۔

افسوس اس بات پہ ہے کہ سنجے لیلا بھنسالی نے، راجپوتوں، مسلمان خلجیوں، دنیا جہان کے مردوں، عورتوں، استادوں، شاعروں، سپاہیوں، سب ہی کو ان کے درجوں سے بہت نیچے گرا دیا۔ اس فلم میں کسی ایک طبقے کو نہیں رگیدا گیا، بلکہ اسے بناتے ہوئے صرف سکرین سجانے اور پیسہ کمانے پہ زور دیا گیا ہے، جس کی وجہ سے کوئی بھی اس فلم کے کسی بھی خیال سے متفق نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے