ایک سنجیدہ دانشور کا چشم کشا خط!

محترم قاسمی صاحب، آداب! آپ کی مہربانی کہ آپ مجھے فنی (Funny)پوسٹس بھیجتے رہتے ہیں مگر یہ چیز آپ کے شایانِ شان نہیں، آپ ایک نامور شخصیت ہیں، آپ کو سنجیدہ قسم کی پوسٹس بھیجنا چاہئیں۔ یہ درست ہے کہ ملک میں اعصاب شکن صورتحال ہے، کسی طرف سے کوئی اچھی خبر نہیں آتی لیکن لوگوں کے چہرے پر وقتی مسکراہٹ لانے سے تو مسئلہ حل نہیں ہوتا۔ اس کا واحد حل یہ ہے کہ میں جو اپنے تجزیاتی مقالے ارسال کرتا ہوں آپ ان کی پوسٹس احباب کو روانہ کر دیا کریں، یہ آپ کی قومی خدمت ہوگی، آپ جو لطیفے بھیجتے ہیں ان میں کیا ہوتا ہے، ہلکی سی مسکراہٹ یا قہقہہ، اس سے تو لوگوں کے مسائل حل نہیں ہوں گے۔ آپ نے ایک لطیفہ بھیجا کہ ڈاکٹروں نے ایک شخص کو جس کو مشکل سے سانس آتا تھا، طویل عرصے تک علاج کے بعد مایوسی کا اظہار کرتے ہوئے اسے کہا کہ تم زیادہ سے زیادہ تین ماہ مزید زندہ رہو گے اس کے بعد مر جائو گے، وہ بندہ بہت حوصلے والا تھا۔ اس نے سوچا اب مر ہی جانا ہے تو کیوں نہ بقیہ زندگی مزے سے گزاری جائے، اس نے پاکستان کے شمالی علاقوں کی سیر کا پروگرام بنایا۔

اس کے لئے نئے سوٹ سلوائے، شرٹس سلوانے کے لئے وہ درزی کے پاس گیا اور اسے اپنی کہانی اپنی زبانی سنائی تو درزی نے اس کے کالر کا ماپ لیتے ہوئے شاگرد سے کہا ’’لکھو ساڑھے سولہ!‘‘ اس پر وہ صاحب بولے ’’میرے کالر کا سائز تو سولہ ہے اور میں وہی پہنتا ہوں‘‘ جس پر درزی نے فیتہ ایک طرف رکھا اور کہا ’’آپ اگر سولہ کا کالر ہی پہنتے رہیں گے تو آئندہ بھی آپ کے لئے سانس لینا مشکل رہے گا اور آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھایا رہے گا‘‘ اس کے آگے آپ نے ٹکڑا لگایا کہ ہمارے نظام کا سائز بھی صحیح نہیں ہے۔ جب تک یہ نظام رہے گا لوگوں کے لئے اسی طرح سانس لینا مشکل ہو گا اور ڈاکٹر ان کی موت کا اعلان کرتے رہیں گے۔ کیا اس بوگس لطیفے سے بہتر نہیں تھا کہ آپ میرا مقالہ لوگوں کو پوسٹ کر دیتے؟

آپ نے ایک اور لطیفہ مجھے بھیجا تھا جس کے مطابق ایک بڑی حکومتی شخصیت نے پریس کانفرنس کی اور اپنی حکومت کی کامیابیاں گنوائیں اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا کہ ہم آزادیٔ اظہار کے زبردست قائل ہیں، چنانچہ آپ کے ذہن میں کوئی سوال ہو تو بلاتکلف پوچھیں، اس پر ایک صحافی نے سوال کرنے کے لئے اپنا ہاتھ بلند کیا تو اس عالی مرتب شخصیت نے کہا ’’تم اپنی بکواس اپنے پاس رہنے دو۔ کسی اور صاحب کو کوئی اعتراض؟‘‘ میں کچھ نہیں کہتا، آپ خود ہی دل پر ہاتھ رکھ کر کہیں کہ اس بوگس لطیفے کے بجائے اگر آزادیٔ اظہار پر میرا مقالہ اپنے دوستوں کو بھیجتے تو وہ اس سے زیادہ موثر تر ہوتا؟

آپ نے ایک اور لطیفہ مجھے بھیجا جس میں ایک شخص نجومی کو اپنا ہاتھ دکھاتا ہے۔ نجومی اس کی ہاتھ کی لکیروں کو محدب شیشے سے دیکھنے کے بعد کہتا ہے ’’تمہاری زندگی کے آئندہ چھ مہینے سخت تنگدستی میں گزریں گے‘‘۔ ہاتھ دکھانے والا پوچھتا ہے ’’اور چھ مہینے کے بعد؟‘‘ نجومی کہتا ہے ’’اس کے بعد تم اس تنگدستی کے عادی ہو جائو گے… مگر گھبرانا نہیں!‘‘ میں بہت کچھ کہنا چاہتا ہوں مگر کہوں گا نہیں، سوائے اس کے کہ لگتا ہے آپ میرے چشم کشا مضامین پڑھتے نہیں، اگر آپ نے وہ پڑھے ہوتے تو قوم کو لطیفوں پر نہ ٹرخا رہے ہوتے۔ اسی لطیفے میں بین السطور جو بات کہی گئی ہے، قبلہ قاسمی صاحب، یہ کسی کی سمجھ میں آئے گی؟ چار چھ جملوں میں کہی گئی بات خاک سمجھ آتی ہے، میں آپ کو اس موضوع پر اپنا بائیس صفحات پر مشتمل مقالہ بھیج رہا ہوں، میری طرف سے آپ کو اجازت ہے کہ اپنے کالم میں قسط وار شائع کر دیں۔

میں جانتا ہوں میری بات لمبی ہوتی جا رہی ہے مگر میں کیا کروں میں جب کبھی آپ کا کالم پڑھتا ہوں، سر پکڑ کر بیٹھ جاتا ہوں کہ آپ ایسے پڑھے لکھے لوگ بھی کس چکر میں پڑے ہوئے ہیں۔ چند دن پہلے آپ نے ایک لطیفہ لکھا کہ ایک شخص فاقوں کے ہاتھوں جب مرنے کے قریب پہنچا تو اس نے اپنے فاقوں کو بھولنے کے لئے اپنے خالی پیٹ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اپنے پالتو طوطے کی طرف منہ کر کے کہا ’’میاں مٹھو چوری کھائو گے؟‘‘ طوطا غمگین لہجے میں بولا ’’کتھوں؟‘‘ یعنی طوطا یہ کہہ رہا تھا کہ کہاں سے کھلائو گے تم تو خود فاقوں سے مر رہے ہو۔ لا حول ولا قوۃ، پہلی بات تو یہ ہے کہ آپ اردو کے استاد رہے ہیں مگر آپ کو یہ علم تک نہیں کہ طوطا ’’ط‘‘ سے نہیں ’’ت‘‘ سے لکھا جاتا ہے، مگر آپ کو علم ہی نہیں کہ اس پرندے کی اصل املا طوطا نہیں توتا ہے۔

ایک اور بھوک کے مارے شخص کے بارے میں لکھا تھا کہ جب اس کی ہمت بالکل جواب دے گئی، تو اس نے تنگ آ کر اوپر کو نگاہ اٹھائی اور کہا ’’یا اللہ اس زندگی سے بہتر ہے کہ تو مجھے موت دے دے‘‘ اس کا یہ کہنا تھا کہ کمرے کی چھت کا شہتیر ٹوٹنے کی آواز آئی، اس پر وہ بولا ’’واہ مولا ایسی دعائیں تو تُو بہت جلدی سن لیتا ہے!‘‘ چھوڑیں قاسمی صاحب، میرے سر میں درد ہونے لگا ہے، میں آخر میں ایک بار پھر آپ سے عرض کروں گا کہ خدارا قوم کو لطیفوں پر نہ ٹرخائیں، آپ اگر ان لطیفوں سے یہ ثابت کرنا چاہتے تھے کہ غریب آدمی اب زندگی پر موت کو ترجیح دینے لگا ہے تو یہی بات پوری سنجیدگی سے کرنا چاہئے تھی، یہ تو میں ہی پاگل ہوں جس کی عمر بھاری بھرکم مقالے لکھتے گزر گئی ہے اور آپ چند جملوں میں وہ بات کہنے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔

یہ سب باتیں میں نے آپ کی بھلائی کے لئے کہی ہیں، خدا کرے آپ کی سمجھ میں آ جائیں۔ میں اس خط کے ساتھ اپنے ڈیڑھ سو مقالے بھی ارسال کر رہا ہوں آپ جب چاہیں ان سے استفادہ کر سکتے ہیں۔

خیر اندیش

ڈاکٹر عبدالغفور، بھابڑا یونیورسٹی

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے