ایک طنزیہ تحریر، جسکو آپ دل پر لےبھی سکتے ہیں

آج کل لوگوں کو دھڑا دھڑ آگہی کا اٹیک ہو رہا ہے، اکثر یہ اٹیک آگہی کے ہیضے میں تبدیل ہو جاتا ہے، اور مریض عالمانہ الٹیاں کرنے لگتا ہے، رفتہ رفتہ حالت زہنی و جسمانی اسقدر غیر ہونے لگتی ہے کہ اپنے پرائے کی تمیز اٹھ جاتی ہے، دنیا اپنے خیالات کے لیے چھوٹی لگنا شروع ہو جاتی ہے اور اردگرد چلتے لوگ چوپائے لگنے لگتے ہیں۔

اکثر لوگ اس آگہی کے ہیضے کو اس آگہی سے کنفیوز کر دیتے ہیں جو علم و عالم کی صحبت، برسوں کی ریاضت اور زات کبریا کی مرضی سے حاصل ہوتی ہے۔

مفاد عامہ کی خاطر ہم آگہی کی چند معروف اقسام اور انکی علامات زیل میں درج کر رہے ہیں، اگر ان میں سے ایک بھی علامت آپ کو اپنے اندر یا قریبی عزیز میں دکھائی دیں تو فورا ڈاکٹر سے رجوع کریں۔

[pullquote]فیسبکی آگہی:
[/pullquote]

یہ آگہی کی وہ قسم ہے، جسمیں مریض کو اپنے جیسے دوسرے بہت سے مریض دیکھ کر اس بات کا پختہ یقین ہو جاتا ہے کہ وہ حق و ہو تک پہنچ گیا ہے۔ اور اب دنیا کی کوئی طاقت اسکو غلط ثابت نہیں کر سکتی۔

فیس بک پر اخلاقی کہانیاں اور ان سے نکلنے والے اخلاقی سبق، اس آگہی کا پہلا حملہ ہوتے ہیں، پھر مریض اس بات کو بھی حق سمجھنا شروع ہو جاتا ہے کہ حضرت علیؓ نے بنفس خود دوستی اور رشتہ داری کے موضوع پر لیکچر دیے ہوئے ہیں۔

مریض یہ بھی محسوس کرتا ہے کہ شیطان اسکو ہر دوسری پوسٹ شیئر کرنے سے روک رہا ہے، مگر وہ کامیابی سے شیطان کا منصوبہ ناکام بناتا چلا جاتا ہے۔

[pullquote]بلوغتی آگہی:
[/pullquote]
جیسے ہی کوئی بلوغت کی حد کو چھوتا ہے، اسے بلوغتی آگہی کا زبردست اٹیک ہوتا ہے۔ اگر بچپن میں اچھی تربیت اور والدین کی دعائیں ساتھ ہیں تو یہ آگہی جلد ہی زندگی کی مثبت تبدیلیوں میں ڈھل جاتی ہے-

دوسری صورت میں اسکا مریض لڑکا ہو یا لڑکی، ایسے وہم کا شکار ہو جاتے ہیں کہ جیسے جوانی کی کہانی ٹائپ فلمیں فقط انکو سمجھ آئی ہیں، اور باوا آدم سے لے کر آج تک باقی لوگ "سائینس” کی پیداوار ہیں۔

ایسے مریض کو اکثر معاشرے سے شکائت رہتی ہے کہ وہ منٹو اور واجدہ تبسم کو انکا جائز مقام نہیں دے رہے۔ ابھی پچھلے دنوں اس اٹیک کا شکار کچھ یونیورسٹی کی لڑکیاں اپنی اس آگہی کا اظہار دیواروں پر لٹکاتی پائی گئیں۔

[pullquote]بدیسی آگہی:
[/pullquote]

یہ دوسرے ملک جانے والوں کی بیماری ہے، جیسے ہی وہ وہاں کی ہوا میں سانس لیتے ہیں ان پر بدیسی آگہی کا حملہ ہوجاتا ہے۔ اکثر یہ حملہ جان لیوا تو نہیں ہوتا مگر ایمان لیوا ضرور ہوتا ہے۔

پہلی دفعہ انسان کو احساس ہوتا ہے کہ پاکستان میں سب کچھ غلط اور باقی دنیا میں سب کچھ صحیح ہو رہا ہے۔ عموما اس آگہی کا مریض اپنے نئے ملک کو ہی پوری دنیا سمجھ کر پاکستانیوں کی آن لائن تعلیم و تربیت میں مشغول ہو جاتا ہے۔

[pullquote]مذہبی آگہی
[/pullquote]

عرب ممالک، خصوصا سعودی عرب جانے والوں کو مزہبی آگہی کا مہلک دورہ پڑتا ہے۔ اور وہ جب بھی چھٹی پر پاکستان آتے ہیں اپنے عزیز و اقارب کا ایمان ٹھیک کرنے میں جتے رہتے ہیں۔ سالگرہ، چالیسواں، گیارہویں وغیرہ کے بارے میں لوگوں کے عقائد سے اسقدر رنجیدہ ہوتے ہیں کہ انکو انکے منہ پر ہی کافر ہونے اور جنت کی خوشبو تک نہ سونگھنے کی بشارت دیتے رہتے ہیں۔

اس آگہی کا شکار تو مرد حضرات ہوتے ہیں لیکن بھگتنا انکی بیگمات کو پڑتا ہے۔ خود تو ستر کے نام پر شارٹس پہن کر سعودی مالز میں سیلفیاں بنا بنا فیس بک پر ڈالتے ہیں، لیکن اپنی بیگم کو "شرعی پردے” کے نام پر نقاب کے اندر سے ہی دہی بڑے کھانے کی پریکٹس بھی کرواتے ہیں۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ ایسے موقعوں پر بیچاری بییویوں کو نقاب کے اندر اپنا ہی منہ نہیں مل رہا ہوتا۔

[pullquote] بزرگ آگہی:
[/pullquote]

عموما اس آگہی کے حملے کا شکار عمر رسیدہ افراد ہوتے ہیں۔ ڈھلتی عمر میں جذبات اور خون کی روانی دھیمی ہوتے ہی عقل کے خشک سوتے پھوٹ پڑتے ہیں۔ اور اچھا بھلا نارمل لگنے والا انسان اس آگہی کے حملے کے بعد واصف علی واصف اور اشفاق احمد کی باتیں کرنے لگتا ہے۔

اچھی بھلی بات کا ناس مارنا ہو تو ایسے آگہی زدہ بزرگوں کے سامنے بیان کردیں۔ انکو لگتا ہے کہ دنیا میں جو جو اچھا ہونا تھا وہ انکی جوانی کے زمانے میں ہو چکا ہے، اور عین جس دن انکی جوانی اپنا سوٹ کیس پیک کر رہی تھی، اس دنیا نے ٹرن لینا شروع کیا اور اب تو بس قیامت ہی آنا باقی ہے۔

کائنات کیسے چل رہی ہے، خدا نے سہ پہر کی چائے کتنے بجے پینی ہے، اور قیامت لانے والا فرشتہ کل شام میں کس فنکشن کو وزٹ کر رہا ہے، انکو سب معلوم ہوتا ہے۔

اپنی جوانی میں معصوم محبت کے قصے، جس میں اظہار محبت کو ڈھیلے میں لپیٹ کر چاچے کی چھت پر پھینکا جاتا تھا، مزے لے لے کر بیان کرتے ہیں، اور اگلی ہی سانس میں فیس بک کو بے حیائی کا نیٹ ورک قرار دیتے ہیں جہاں نا محرم لڑکے لڑکیاں دوستیاں کرتے پھرتے ہیں۔ بندہ پوچھ بھی نہیں سکتا کہ آپ کے زمانے میں جو ڈھیلا پھینکا جاتا تھا وہ محرم کے لیے ہوتا تھا کیا ؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے