ایک نئے وژن کی ضرورت

وہ بالکل درست فرماتے ہیں۔ وزیراعظم کے مشیر برائے تجارت عبدالرزاق دائود کہتے ہیں کہ اُنہیں کچھ لوگ پوچھتے ہیں آپ نے برآمدات بڑھا کر کون سا تیر مار لیا ہے۔

کراچی میں ایک کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اُنہوں نے یہ بھی فرمایا کہ پاکستانیوں میں عالمی وژن ہے اور نہ صبر۔ اِس ناچیز نے عبدالرزاق دائود کے خطاب پر مبنی طویل خبر کو بار بار پڑھا اوراش اش کر اٹھا۔ مجھے تو اپنے وژن پر بھی شک ہونے لگا۔

اگر عبدالرزاق دائود اپنے ہم وطنوں کے عالمی وژن کا پردہ چاک نہ کرتے تو میں یہی سمجھتا رہتا کہ بڑھتی ہوئی مہنگائی کی وجہ حکومت کی غلط پالیسیاں ہیں لیکن عبدالرزاق دائود نے بتایا کہ یہ مہنگائی حکومت نہیں بلکہ کاروباری طبقہ کرتا ہے۔

بجلی، گیس اور تیل کی قیمتوں میں اضافے کا فیصلہ بھی کاروباری طبقہ کرتا ہے، حکومت تو اِس فیصلے کا صرف اعلان کرتی ہے۔ پھر مجھے یہ بھی سمجھ آ گئی کہ مسئلہ کشمیر پر پاکستان کو عالمی سطح پر اتنی حمایت کیوں نہیں ملتی؟

پچھلے سال ہندوستان کی ظالم حکومت نے مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو نافذ کرکے انسانی حقوق کی پامالی کے نئے ریکارڈ قائم کئے تو ملائیشیا، ترکی اور ایران نے ہندوستان کے ظلم کیخلاف آواز بلند کی لیکن پاکستان کو قرض نہیں دیا۔ پاکستانیوں نے خواہ مخواہ ملائیشیا، ترکی اور ایران کا شکریہ ادا کرنا شروع کر دیا بعد میں سمجھ آئی کہ اِن پاکستانیوں کے پاس کوئی عالمی وژن نہیں۔

عالمی وژن کے مطابق شکریہ اُس کا ادا کرنا چاہئے جو بھلے کشمیریوں کے دشمن نریندر مودی کو بڑے بڑے قومی اعزازات سے نوازے لیکن پاکستان کو چند ارب ڈالر کا قرضہ دیدے بس وہی ہمارا محسن ہے۔ اب جبکہ ہندوستان کا نیا آرمی چیف پاکستان کو آزاد کشمیر پر حملے کی دھمکی دے رہا ہے تو گھبرانے کی کوئی ضرورت نہیں۔

اپنے عبدالرزاق دائود صاحب کی حکومت کے سعودی عرب کے ساتھ بڑے گہرے تعلقات ہیں اور سعودی عرب کبھی ہندوستان کو آزاد کشمیر پر حملے کی اجازت نہیں دے گا۔ یہ جو ہندوستان کی فوج آئے روز آزاد کشمیر کی سویلین آبادی پر گولہ باری کرتی ہے اور بے گناہ کشمیریوں کو شہید کرتی ہے اس پر بھی شور مچانے کی ضرورت نہیں شور صرف وہ مچاتے ہیں جن کے پاس عالمی وژن نہیں۔

شکر ہے کہ عبدالرزاق دائود جیسے لوگ پاکستان میں ابھی موجود ہیں جو عالمی وژن جیسی دولت سے مالا مال ہیں اور ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ جیسے جذباتی نعرے کو حقیقت بنانے پر یقین نہیں رکھتے ورنہ ہم کب کے سعودی عرب کو ناراض کر کے ملائیشیا اور ترکی کے ساتھ جا ملے ہوتے اور ان ممالک کی حکومتیں بھی ہمیں خوش کرنے کیلئے ’’کشمیر بنے گا پاکستان‘‘ کا نعرہ لگا دیتیں۔

عالمی وژن یہ ہے کہ ہمیں جذباتی نعروں کی نہیں پیسے کی ضرورت ہے۔ عالمی وژن پر صرف ’’لپ سروس‘‘ کرنی ہے کشمیر کو سچی مچی پاکستان بنانے کی کوشش نہیں کرنی۔ یہ وہ عالمی وژن ہے جس سے پاکستانی قوم کو جنرل پرویز مشرف نے بھی آشنا کرایا تھا اور اپنے عبدالرزاق دائود اس کی حکومت میں بھی شامل تھے۔

پرویز مشرف نے مسئلہ کشمیر کے حل کیلئے اقوامِ متحدہ کی ’’جذباتی‘‘ قراردادوں کو پسِ پشت ڈال کر ایک آئوٹ آف باکس فارمولا تیار کیا تھا جس کا مقصد کشمیر کو مختلف علاقوں میں تقسیم کرنا تھا۔

مشرف اپنے فارمولے پر عملدرآمد نہ کرا سکے کیونکہ 2007ءمیں اُنکے خلاف کالے کوٹ والوں نے تحریک چلا دی تھی۔ آخر کار 2019میں مشرف فارمولے پر مودی نے عملدرآمد کر دیا۔ اُس نے وادیٔ کشمیر میں کرفیو نافذ کر دیا، دفعہ 370معطل کرکے لداخ اور جموں کو وادی سے علیحدہ کر دیا اور کشمیر پر باقاعدہ قبضہ جما لیا۔

اس قبضے کے خلاف عبدالرزاق دائود کے وزیراعظم عمران خان نے پچھلے سال اقوامِ متحدہ میں ایک دھواں دھار تقریر کی تھی۔ یہ تقریر محض ’’لپ سروس‘‘ تھی اصل کہانی تو عبدالرزاق دائود کے عالمی وژن میں چھپی ہوئی ہے اور وہ یہ ہے کہ مشرف فارمولے کے مطابق کشمیر کو پاکستان نہیں بنانا بلکہ لائن آف کنٹرول کو مستقل سرحد تسلیم کرنا ہے۔

عام پاکستانی اس قسم کے عالمی وژن کو تسلیم نہیں کرتے لہٰذا عبدالرزاق دائود نے عام پاکستانیوں کی جہالت کا پردہ چاک کر دیا ہے۔ اُن کی حکومت مشرف کے خلاف ایک خصوصی عدالت کے فیصلے کو بھی جہالت سمجھتی ہے اِسی لئے عبدالرزاق دائود کے ایک ساتھی وزیر بیرسٹر فروغ نسیم نے مشرف کے خلاف عدالتی فیصلے کی شدید مذمت کی۔

کہا گیا کہ یہ فیصلہ ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی لٹکانے کے فیصلے سے بھی زیادہ بُرا ہے۔ بھٹو کو پھانسی پر لٹکانے کا فیصلہ لاہور ہائیکورٹ نے دیا تھا اور سپریم کورٹ نے اُسے برقرار رکھا تھا۔

اب مشرف کے خلاف فیصلے کو بھی لاہور ہائیکورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے اور مشرف کے حامیوں کا کہنا ہے کہ لاہور ہائیکورٹ مشرف کے خلاف فیصلے کو کالعدم قرار دیدے گی اور سپریم کورٹ اس نئے فیصلے کو برقرار رکھے گی۔ خیر یہ تو مشرف کے حامیوں کا وژن ہے۔

وہ جب بھی مشکل میں پھنستے ہیں تو لاہور والے اُن کی مدد کو آ جاتے ہیں۔ اب دیکھئے نا۔ آرمی ایکٹ میں ترمیم کا معاملہ آیا تو لاہور کے لیڈر نواز شریف نے کوئی شرط رکھے بغیر وہ فیصلہ کیا کہ عمران خان بھی حیران رہ گئے اور پھر نواز شریف کی دیکھا دیکھی آصف علی زرداری نے بھی اپنی پارٹی کے مفاد کو قومی مفاد پر قربان کرتے ہوئے آرمی ایکٹ میں ترمیم کی حمایت کر دی۔ آج کل اسلام آباد کے سیاسی حلقوں میں ایک تجویز زیر بحث ہے جس میں عبدالرزاق دائود کے عالمی وژن کی بھرپور جھلک نظر آتی ہے۔

تین دن پہلے سینیٹر حاصل بزنجو نے مسلم لیگ (ن)، پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کے کچھ اراکین پارلیمنٹ کو اس تجویز پر غور کی دعوت بھی دی۔ تجویز یہ ہے کہ تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو ایک دوسرے میں مدغم کر دیا جائے، عمران خان نئی پارٹی کے صدر، شہباز شریف نائب صدر اور بلاول بھٹو زرداری جنرل سیکرٹری بن جائیں۔

اس نئی پارٹی کا چیئرمین چوہدری شجاعت حسین کو بنا دیا جائے کیونکہ حقیقت میں اِن تینوں جماعتوں نے 2020میں وہ کیا ہے جو چوہدری صاحب بہت پہلے کر چکے ہیں۔

تو اب جبکہ تینوں بڑی پارٹیاں قاف لیگ بن چکی ہیں تو پھر انہیں چوہدری صاحب کی چیئرمین شپ میں ایک نئی پارٹی بنا دیا جائے تاکہ پاکستان کو اُس عالمی وژن کے مطابق آگے بڑھایا جا سکے جو پاکستان میں جنرل پرویز مشرف نے متعارف کرایا تھا لیکن افسوس کہ عام پاکستانی اس وژن سے آج بھی محروم ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے