ایک نیا پواڑا اور حسین حقانی کے سہولت کار

ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کے کالموں کے ذریعے اپنے تئیں قومی اُمنگوں کی ترجمانی میں مبتلا خواتین وحضرات اپریل 2016ءسے پانامہ دستاویزات کی بدولت نواز شریف اور ان کے خاندان کو نشانِ عبرت بنانے کو بے چین ہیں۔عمران خان کی صورت میں اس ملک کو کرپشن سے پاک کرنے والی مہم کو ایک ولولہ انگیز قیادت بھی میسر ہے۔تاج اچھالنے اور تخت گرانے کے لئے مگر درکار ہوتی ہے ایک عوامی تحریک۔ وہ کم از کم مجھ بدنصیب کونظر نہیں آرہی۔

1977ءکے بعد ایسی ایک تحریک ہم نے جنرل مشرف کے دورِ اقتدار کے آخری ایام میں افتخار چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی کے نام پر دیکھی تھی۔وہ بالآخر بحال ہوگئے تو تقریباََ روزانہ کی بنیاد پر پیپلز پارٹی کی حکومت سے وابستہ وزراءکو عدالت میںطلب کرتے رہے۔حامد سعید کاظمی جیسے وزیر کو موصوف نے حج سکینڈل کے نام پر جیل بھیج دیا اور اس وقت کے وزیر اعظم یوسف رضا گیلانی کو ایک چٹھی نہ لکھنے کے جرم میں سزا دے کر فار غ بھی کردیا۔سماج سدھارنے کے جنون میں مبتلا یہ منصف بھی لیکن بالآخر ارسلان کا ابو ہی ثابت ہوا۔ ہم مگر اب بھی یہ بنیادی بات سمجھ نہیں پائے ہیں کہ سماج صرف کسی جلاد صفت منصف کی مہربانی سے سنوارا نہیں جاسکتا۔
بہرحال بہت شدومد سے سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہورہا ہے۔روزانہ سماعت کی بنیاد پر پانامہ کے حوالے سے حقائق کا کھوج لگاتے ہوئے منصف حضرات تواتر کے ساتھ برہمی کا اظہار کرتے رہے۔ کیس کی سماعت ختم کرتے ہوئے انہوں نے صاف الفاظ میں یہ بھی کہا کہ ان کے روبرو اس قضیے سے متعلق تمام-اور میرا زور ”تمام“ پر ہے-فریقین نے انہیں ٹھوس اور تفصیلی شواہد فراہم نہیں کئے۔فیصلہ اس کے باوجود انہوں نے لکھنا ہے اور وہ ایسا فیصلہ لکھنے کو پرعزم ہیں جو آئندہ کئی برسوں تک مستند نظر آئے۔اس کا حشر سپریم کورٹ کے اس فیصلے جیسانہ ہو جو اس نے ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کے مترادف ثابت کرنے کے لئے لکھا تھا۔

ایسا فیصلہ لکھنے کے لئے وقت یقینا درکار ہے۔ہم مہلت دینے کو مگر ہرگز تیار نہیں۔مجھے بہت ایمانداری سے یہ خوف محسوس ہورہا ہے کہ فیصلہ آنے میں مزید تاخیر ہوئی تو سپریم کورٹ کی ساکھ پر اُنگلیاں اُٹھنا شروع ہوجائیں گی۔سوشل میڈیا پر ”قاضیوں“ کو اسلامی تاریخ کے حوالے دینے کی مہم کا ویسے آغاز بھی ہوچکا ہے۔میں اس مہم کا مین سٹریم میڈیا میں درآنے کا انتظار کررہا ہوں۔یہ الگ بات ہے کہ اندھی نفرت وعقیدت میں تقسیم ہوئے ہمارے معاشرے میں اب جو بھی فیصلہ آیا،کسی ایک فریق کو بھی مطمئن نہیں کرپائے گا۔مسرت نذیر کے مشہور کئے پنجابی گیت والی مٹیار کو بلکہ ایک نیا”پواڑا“پڑجائے گا۔وہ باجرے کو ”کٹ کٹ کر“کوٹھے پر ڈالتی رہے گی۔کوے کم بخت مگر آتے اور اس کی محنت کے ثمر کو اجاڑتے رہیں گے۔

باجرے کو کٹ کٹ کر کوٹھے پر ڈالنے والی مٹیار کی پریشانی اور بے بسی سے یاد آیا کہ ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کے کالموں کے ذریعے سماج سدھارنے کی اذیت میں مبتلا خواتین وحضرات کو بھی تو سکھ کا ایک پل نصیب نہیں ہوپارہا۔پانامہ کا فیصلہ ابھی آیا نہیں تھا کہ حسین حقانی نے ”واشنگٹن پوسٹ“ کے لئے ایک مضمون لکھ مارا۔اصل مقصد اس مضمون کا ”ٹرمپ اور اس کے مصاحبین کو“شیر بن شیر“والا مشورہ دینا تھا۔ان ناقدین سے بچانا تھا جو مسلسل ٹرمپ کے چند وفاداروں کی واشنگٹن میں متعین روسی سفیر سے روابط کی بناءپر امریکی صدر کی اپنے وطن سے وفاداری کو مشکوک بنارہے ہیں۔مجھے ہرگزخبر نہیں کہ ٹرمپ کے دفاع پر مامور افراد نے حسین حقانی کے مذکورہ مضمون سے استفادہ کیا یا نہیں۔جس اخبار میں اگرچہ یہ مضمون چھپا تھا اس میں کوئی اور کالم یا مضمون نگار اس کا حوالہ تک دیتا نظر نہیں آیا۔رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔

ہماری سکرینوں اور اخبارات کے ذریعے سماج سدھارنے پر مامور افراد البتہ اس کے چھپ جانے کے بعد سے بہت پریشان دِکھ رہے ہیں۔حیران وہ حسین حقانی کی ”غداری“ کے بار ے میں ہرگز نہیں ہورہے۔ اصل پتہ انہیں اس بات کا لگانا ہے کہ ان دنوں کے صدر اور وزیر اعظم-آصف زرداری اور گیلانی-سی آئی اے کے جاسوسوں کو پاکستان لانے کے جرم میں شریک تھے یا نہیں۔ہمارے 24/7کے کئی ٹاک شوز اب تک اس سوال کا جواب ڈھونڈنے کی نذر ہوچکے ہیں۔ان سوالات کا جواب آصف علی زرداری نے بھی دینے کی کوشش کی ہے اور گیلانی نے بھی۔تسلی ہماری مگر ہونہیں پارہی۔ کوشش ایک بار پھر کسی پارلیمانی یا عدالتی کمیشن کے ذریعے ”غداری کی نشان دہی“کے لئے ہورہی ہے۔
ٹی وی سکرینوں کے ذریعے سوالات اٹھاکر سچ جاننے کی لگن سے یہ بھی یاد آگیا کہ حسین حقانی جب واشنگٹن میں تعینات تھا تو قومی دفاع اور سلامتی کے امور کے اصل نگہبان دو اور لوگ تھے۔اشفاق پرویز کیانی اور پاشا ان کے نام تھے۔سوال یہ ہے کہ ان دونوں سے ہمارے جید”ترجمانوں“ نے رجوع کیوں نہیںکیا۔ ان سے رابطہ کرنے کو اگر پر جلتے ہیں تو ایک صاحب شاہ محمود قریشی بھی تو ہوا کرتے تھے۔ریمنڈڈیوس کے واقعے تک وہ ہمارے وزیر خارجہ تھے۔ملتان کے اس مخدوم کو سکرینوں پر رونق لگانا خوب آتا ہے۔حسین حقانی کے معاملے پر لیکن وہ خاموش ہیں۔

یہ خاموشی حیران کن ہے کیونکہ کیری لوگربل ان ہی کے دور میں فائنل ہوا تھا۔اس کی چند جزائیات کے بارے میں کورکمانڈرز کے ایک اجلاس میں سخت تحفظات کا اظہار ہوا تو شاہ صاحب واشنگٹن کے ایک دورے کو درمیان میں چھوڑ کر پاکستان بھاگے آئے تھے۔ان کی معاونت سے کیری-لوگر بل کی چند شقوں کو بالآخر ختم کرنا پڑا۔وہ ختم ہوگئیں تو فخروانبساط سے شاہ محمود قریشی اور ہیلری کلنٹن ایک دوسرے کا ماتھا ملاتے پائے گئے۔شاہ صاحب کو یقینا علم ہوگا کہ کیری-لوگر بل میں وہ کیا تھا جسے ہٹانا مقصود تھا۔قابلِ اعتراض شقیں ہٹانے کے باوجود پاکستان کو لیکن وہ خطیر رقم پھر بھی درکار تھی جس کا وعدہ اس بل کے ذریعے ہوا تھا۔اس رقم کے حصول کے لئے سی آئی اے کے کارندوں کو ویزے دینے کے لئے ”دوسرے راستے“ڈھونڈنا ضروری تھے۔یہ راستے ڈھونڈنے میں حقانی اکیلا نہیں تھا۔صرف سیاسی ہی نہیں اس وقت کی عسکری قیادت بھی اس ضمن میں اس کی ”سہولت کار“ تھی۔سہولت کاری کی اس Big Pictureکو مگر ہمارے سامنے لانے کو کوئی تیار نہیں۔ کیونکہ بات نکلی تو اس کے بہت دور تک جانے کا اندیشہ ہے۔

شاید کہانی بڈابیر کے اس اڈے سے شروع کرنا پڑے جہاں سے ایک امریکی طیارہ 1960ءکے آغاز میں اُڑکر روس پہنچ گیا تھا۔روسیوں نے اس جاسوس طیارے کو مارگرایا تو ہم سادہ لوح پاکستانیوں کو خبر ہوئی کہ ہماری سرزمین پر امریکی اڈے بھی ہوا کرتے ہیں۔ہماری حالیہ تاریخ میں ایک شمسی ایئربیس بھی تو تھا۔جنرل مشرف کے دور میں اسے افغانستان میں وارآن ٹیرر کے لئے بھرپورانداز میں استعمال کیا گیا تھا۔

شمسی ایئربیس پرامریکی ماہرین کی مسلسل موجودگی کے بغیر اس کا استعمال ممکن ہی نہیں تھا۔کوئی ہمیں بتائے گاکہ اوسطاََ کتنے امریکی جیکب آباد کے قریب واقع اس بیس پر موجود رہا کرتے تھے۔ایک ماہ میں اوسطاََ وہاں کتنے طیار ے آتے اور ا پنے مشن پر روانہ ہوتے۔ شمسی ایئربیس استعمال کرنے والے ماہرین اور پائلٹوں کو ویزے کون دیا کرتا تھا۔

ٹی وی سکرینوں اور اخبارات کے کالموں کے ذریعے اپنے تئیں قومی اُمنگوں کی ترجمانی میں مبتلا خواتین وحضرات کو لیکن خوب علم ہے کہ ”کچے“ پر پاﺅں نہیں رکھنا۔Safe-Safeکھیلنا ہے۔دونمبر کی یہ حق گوئی نری شعبدہ بازی ہے۔اس ملک میں سوال اُٹھانے کے لائق کوئی باقی رہ گیا ہوتا تو اب تک ہمیں اتنی خبر تو مل ہی جاتی کہ جنرل راحیل شریف کو سعودی عرب کی پیش قدمی اور فیاضی کی بدولت ممکنہ طورپر قائم ہونے والی ”اسلامی Nato“کی قیادت سوپنے کا فیصلہ کب اور کہاں ہوا تھا؟پارلیمان یا کابینہ کا وہ کونسا اجلاس تھا جہاں ریاستِ پاکستان نے بہت غوروخوض کے بعد”اسلامی Nato“کی تشکیل میں بھرپور کردار ادا کرنے کا فیصلہ کیا۔اصل سوالات اٹھانے کی سکت نہ ہوتو بہتر یہی ہے کہ بہت خلوص کے ساتھ وینا ملک کی شادی بچانے کی کوشش کی جائے اور اپنی اوقات میں رہا جائے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے