باسٹھ خان‘ تریسٹھ خان

پرتگیزی سیّاح واسکوڈے گاما جونیئر نے حالیہ دنوں میں اس خطّے کا تفصیلی دورہ کیا اور واپسی پر اپنے تاثرات ”سفرنامہ تضادستان‘‘ کے نام سے تحریر کئے۔ اس کتاب کے کچھ حصّے یہاں ہو بہو نقل کئے جا رہے ہیں…

”تضادستان اور اس کے اردگرد کے خطّوں میں ناموں کا معاملہ بڑا ہی عجیب و غریب ہے‘ یہ کسی کو پپّو کہہ کر بلا رہے ہوتے ہیں مگر بعد میں پتہ چلتا ہے کہ یہ اس کا نام نہیں ہے بلکہ پیار سے اس کایہ نام رکھا ہوا ہے۔ یہاں آرٹ کی دنیا میں سنگت اور سیاست کی دنیا میں جوڑی کا بڑا رواج ہے۔ مثلاً یہاں موسیقی کی دنیا میں نصرت فتح علی خان‘ مجاہد مبارک علی خان نامی ایک مشہور قوال سنگت رہی ہے۔ یورپ کے لوگوں کو سمجھانے کے لئے یہ کہنا کافی ہے کہ دراصل دو مختلف افراد کے ناموں کو ملا کر ایک نام بنایا جاتا ہے‘ بظاہر یہ ایک لمبا نام لگتا ہے۔ اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ یہ دو لوگ دراصل ایک ہیں اور اپنے فن کا مظاہرہ اکٹھے کرتے ہیں۔ اسی طرح مجھے بتایا گیا کہ قواّلی کی سنگت میں ایک اور بڑا نام غلام فرید صابری کا ہوا کرتا تھا۔ سنگت میں ساتھ دینے والا کئی دفعہ بھائی ہوتا ہے یا کزن‘ بعض اوقات بالکل دو اجنبی شخص بھی مل کر سنگت بنا لیتے ہیں‘ جیسے کہ پڑوسی ملک کی فلموں میں سلیم جاوید کی سنگت ہوا کرتی تھی۔ سلیم‘ مشہور بھارتی اداکار سلمان خان کے والد اور جاوید اختر مشہور بھارتی اداکارہ شبانہ اعظمی کے خاوند ہیں۔ دونوں نے مل کر وہ زبردست کہانیاں لکھیں کہ اودھم مچا دیا‘ مگر پھر یہ الگ ہوئے تو کہانی نویسی سرے سے ہی چھوڑ دی۔ جاوید اختر نے شاعری پر زور ڈالا اور سلیم گھر کے کاموں میں لگ گئے۔

سیاست میں اسی طرح کی سنگت کو اس ملک میں جوڑی کہا جاتا ہے۔ چوہدری برادران اور شریف برادران اس حوالے سے زیادہ مشہور ہیں۔ بھٹو کزنز یعنی ذوالفقار علی بھٹو اور ممتاز علی بھٹو بھی ایک زمانے میں نامور رہے‘ مگر اب شریفوں اور چوہدریوں کا طوطی بولتا ہے۔ افراد کے ناموں تک تو مجھے سمجھ آ گئی کہ ایک ہی شعبے میں اکٹھے کام کرنے والے جب ایک ہی مقصد کے لئے گروپ بنا لیتے ہیں تو اسے جوڑی یا سنگت کہتے ہیں۔ مگر جو چیز سمجھ نہیں آئی وہ یہ کہ یہاں اکثر قانون اور آئین کی شقوں کو بھی الگ الگ بیان کرنے کی بجائے ملا دیا جاتا ہے۔ ابھی پچھلے دنوں باسٹھ خان‘ تریسٹھ خان کے نام سے ایک نئی سنگت سامنے آئی ہے۔ میں یورپی ہونے کی حیثیت سے سمجھا کہ یہ کوئی نئی قوال سنگت ہے۔ میں نے ایک ”نونی‘‘ (نون لیگ والا) پہلوان سے کہا کہ کسی دن باسٹھ‘ تریسٹھ خان کی قوالی سنوا دو‘ تو اس نے مجھے حیران ہو کر دیکھا اور کہا کہ تُم سیّاح ہو‘ سیّاح ہی رہو‘ ہمارے معاملات میں مداخلت نہ کرو۔ میں سمجھا کہ شاید میں نے کوئی بُری بات کہہ دی ہے۔ میں نے ایک پیپلئے (پیپلز پارٹی والا) سے پوچھا کہ باسٹھ خان‘ تریسٹھ خان کی سنگت یا جوڑی کیا نون کے خلاف ہے؟ اس نے قہقہہ لگا کر کہا : یہ افراد نہیں اور نہ ہی موسیقار‘ گلوکار یا قوال ہیں‘ یہ تو تضادستان کے آئین کی دو شقیں ہیں جن پر نوازشریف کے سیاسی مستقبل کا انحصار ہے۔ اگر تو سب سے بڑی عدالت باسٹھ خان‘ تریسٹھ خان کا اطلاق کرتی ہے تو وزارت عظمیٰ بھی جائے گی‘ عظمت‘ دولت اور شہرت کے چراغ بھی بجھنا شروع ہو جائیں گے۔

یورپ میں تو یہ روّاج ہے کہ جب بھی کسی پر کوئی پّکا الزام سامنے آتا ہے تو وہ فوراً استعفا دے کر عدالت میں پیش ہوتا ہے اور اس وقت تک سیاست میں حصّہ نہیں لیتا جب تک یہ الزامات غلط ثابت نہیں ہو جاتے اور اگر الزام درست ثابت ہوں تو پھر وہ سیاست کے منظر سے ہمیشہ کے لئے غائب ہو جاتا ہے۔ مگر تضادستان کے رواج عجیب و غریب ہیں یہاں کوئی سیاستدان اخلاقی وجوہات کی بناء پر مستعفی نہیں ہوتا کیونکہ سمجھا اور سمجھایا یہی جاتا ہے کہ الزامات بے بنیاد ہیں اور ان کا مقصد صرف بدنامی کرنا ہے۔ میں نے ایک مجہول صحافی (اُردو میں یہ نیا لفظ سیکھا ہے جس کا مطلب واضح تو نہیں مگر شاید بے خبری اور بے شعوری کے قریب تر ہے) سے پوچھا کہ باسٹھ خان‘ تریسٹھ خان کیا ہے؟ وہ تو پھٹ پڑا‘ کہنے لگا یہ سب کچھ سیاست خانوں کا کیا دھرا ہے۔ ٹھیک ہے باسٹھ خان‘ تریسٹھ خان‘ جنرل ضیاء الحق کے زمانے میں مضبوط ہوا تھا مگر سیاستدان اس میں ترمیم کر سکتے تھے جب انہوں نے اٹھارویں ترمیم منظور کی‘ اس میں باسٹھ خان‘ تریسٹھ خان کے دانت بھی نکال دیتے‘ مگر اس وقت نُونی‘ پپلیوں کو باسٹھ خان‘ تریسٹھ خان سے ڈرا کر رکھنا چاہتے تھے اس لئے اس ہتھیار کو برقرار رکھا اور اب شومئی تقدیر ”نونی‘‘ خود اس کی زد میں آ رہے ہیں۔ نُونیوں (نونی کا جمع میں نے خود بنائی ہے پتہ نہیں یہ لفظ اُردو میں ہے یا نہیں؟ مگر پرتگیزی اسے بخوبی سمجھ جائیں گے‘ کیونکہ یہ لفظ ٹونی سے ملتا جلتا ہے) کی آنکھیں بند تھیں جب عمرانیوں (یہ عمران خان کے حامیوں کے بارے میں ہے) نے پارلیمان کے ذریعے احتساب کی بات کی تھی تو نُونیوں نے ٹی او آرز پر اتفاق نہ کیا اور یوں یہ معاملہ سپریم کورٹ سے ہوتا ہوا جے آئی ٹی اور پھر دوبارہ سپریم کورٹ تک پہنچا ہے۔ پرتگیزی کی حیثیت سے میںسمجھتا ہوں کہ نُونیوں کے زوال کی وجہ ان کی سہل پسندی‘ فیصلے کرنے میں دیر اور ایک بوڑھی پارٹی ہونا ہے۔

تضادستان کی سیاست سے ہٹ کر میں ذاتی حوالے سے کہنا چاہتا ہوں کہ میرے جدّ امجد واسکوڈے گاما کے اس خطّے اور یورپ دونوں پر بے محابا احسانات ہیں۔ کالروں والی شرٹ کو اس خطّے میں قمیض کہا جاتا ہے‘ یہ پرتگیزی نام ہے اس خطّے میں شرٹ یا کرُتے کے کالر نہیں ہوتے تھے۔ کالر واسکوڈے گاما کے ساتھ ہی اس خطّے میں آئے تھے۔ میں شرمندہ بھی ہوں کہ واسکوڈے گاما نے مکّہ جانے والے زائرین کے جہاز کو لوٹ لیا تھا۔ بعدازاں گاما اس پر عمر بھر شرمندہ رہا ہو گا۔ واسکوڈے گاما کو امیر البحر عرب اور وائسرائے آف انڈیا کے اعزازات ملے تھے۔ واسکوڈے گاما اور اس کے بعد آنے والے کسی پرتگیز نے کبھی ”اقامہ‘‘ نامی لفظ کا نام تک نہیں سنا تھا‘ اس بار تضادستان آیا تو ہر طرف پہلے پاناما خان اور اب اقامہ خان کے چرچے تھے۔ پہلے کہا گیا وزیراعظم ”پاناما خان‘‘ ہیں‘ اب کہا جا رہا ہے کہ وہ ”اقامہ خان‘‘ ہیں ۔ پھر کہا گیا وزیر دفاع خواجہ آصف اور وفاقی وزیر منصوبہ بندی احسن اقبال کے علاوہ کئی سندھی وزیر بھی ”اقامہ خان‘‘ بنے ہوئے ہیں۔ میں یورپی ہونے کے ناطے سمجھنے سے قاصر تھا کہ تضادستان کے وزیراعظم اور وفاقی وزیر ریاست کے اعلیٰ ترین حکومتی عہدوں پر فائز رہتے ہوئے دوسرے ملکوں کے اقامتی ویزے لے کر وہاں نوکری کیوں کرتے ہیں۔ دوہری تنخواہ اور دوہری نوکری اور اقامت‘ اس کا رواج پرتگال کی سیاست میں بالکل نہیں ہے۔ اگر کسی کے بارے میں ایسا علم ہو جائے تو اسے ہمیشہ کے لئے سیاست چھوڑنی پڑ جاتی ہے‘‘

واسکوڈے گاما جونیئر مزید لکھتے ہیں کہ ”تضادستان میں فقرے بازِی‘ طنز‘ چوٹ‘ مزاح اور طعنے عام ہیں۔ آپ جس سے بات کریں گے وہ چوٹ دار جواب دے گا‘ یہاں کی ایک عجیب بات یہ بھی ہے کہ یہاں کھانا تناول کرنا تفریح سمجھا جاتا ہے۔ یورپ میں کھانا ناپ تول کر احتیاط سے کھایا جاتا ہے‘ مگر تضادستان میں پلیٹ بھر بھر کر کھانا کھایا جاتا ہے جتنا کھانا یہاں ضائع ہوتا ہے اس سے ملک کے سارے غریبوں کا پیٹ بھرا جا سکتا ہے‘‘۔

یہاں ‘سیاستدان ہوں یا عام شہری‘ مطالعے کا شوق بہت کم پایا جاتا ہے۔ وزیر باتدبیر تو اِسے قابل توجہ چیز ہی نہیں سمجھتے۔ البتہ سرتاج عزیز‘ احسن اقبال‘ خرم دستگیر اور خواجہ آصف باقاعدہ کتابیں خریدتے اور پڑھتے ہیں انہیں تاریخ کا بھی علم ہے‘ پتہ نہیں وہ حکومت کو تاریخ کی مثالیں دے کر اچھے فیصلے کرنے پر آمادہ کیوں نہیں کرتے۔ یورپ نے تاریخ سے سیکھا ہے مگر افسوس میرے جدّ امجد واسکوڈے گاما نے جس خطّے کو یورپ سے ملوایا تھا وہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھ سکا!!

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے