بلڈربرگ گروپ کیا ہے؟

 گزشتہ دنوں میں نے لگ بھگ سو کے قریب ھائ پروفائل بزنس مینوں، یونیورسٹیوں کے اساتذہ، طلباء اور سیاسی ورکرز اور اس فورم کے ممبران سےبھی یہ سوال پوچھا کہ کیا وہ Bildeberg Group یا کلب کے بارے میں کچھ جانتے ہیں تو سو فیصد نے نفی میں جواب دیا حقیقت یہ ہے کہ مجھے خود بھی اس کے بارے میں کچھ نہیں معلوم تھا۔ اگرچہ میں این جی اوز اور نیو ورلڈ آرڈر پر زمانہء طالب علمی سے تحقیقاتی مضامین دلچسپی سے پڑھتا ھوں اور اور یہ میری دلچسپی کے خصوصی مضامین ہیں ان کے بارے میں میرا شروع سے ایک اسٹرونگ نقطہ نگاہ ہے میں اس حوالے سے مواد ڈھونڈتا رہتا ہوں۔
اسی قسم کی ریسرچ کے دوران مجھے اس کلب کا علم ہوا اگرچہ یہ کلب 1954 میں قائم ہوا اور ہر سال اس کا خفیہ اجلاس دنیا کے کسی بھی ملک میں منعقد ہوتا ہے۔ لیکن ان میٹینگز کی تفصیلات کبھی بھی کہیں شائع نہیں ہوئ۔ ہر سال دنیا کے مختلف ممالک میں یہ میٹنگز زبردست سیکیورٹی حصار میں منعقد ہوتی ہیں تاہم میڈیا یا کسی عام فرد کو کبھی ان کی تفصیلات معلوم نہیں ہو سکیں۔
اکثر لوگ دنیا میں یہ سمجھتے ہیں کہ نیو ورلڈ آرڈر کا تصور امریکہ نے پیش کیا جبکہ حقیقت میں یہ تصور بلڈر برگ کی 1985 میں منعقدہ میٹینگ میں پیش کیا گیا اگرچہ اس کے خدو خال تو سالوں پہلے طے کر لیے گئے تھے تاہم اس تصور کو پبلک کرنے کا فیصلہ اس 1985 کی میٹنگ میں ہوا۔ رونالڈ ریگن اس وقت امریکہ کے صدر تھے۔ بعد ازاں جارج بش کے دور میں سماجی اور معاشی ترقی کے عنوان سے نیو ورلڈ آرڈر کے تصور کو پوری شدت کے ساتھ دنیا بھر میں پھیلایا گیا اور اس مقصد کے لیے یو این او کے تعاون سے این جی اوز کا ایک جال دنیا بھر میں بچھا دیا گیا۔
این جی اوز نے دنیا بھر میں کیا رول پلے کرنا ہے بلڈر برگ گروپ یہ طے کرتا ہے اور دنیا بھر کی این جی اوز اس کے مطابق سماجی، معاشی میدانوں میں ری ایکٹ کرتی ہیں اس نیٹ ورک کی جڑیں تصور سے زیادہ گہری ھو چکی ہیں۔ 2005 میں پہلی بار کینڈین صحافی Deniel Estulin نے اس کلب کے بارے میں ایک کتاب لکھی اور اس کلب کے خدو خال کو دنیا کے سامنے پیش کیا۔ اگرچہ یورپ اور امریکہ میں اس کے ون ورلڈ حکومت کے تصور پر کافی
تنقید ہوئ تاہم کوئ بھی اس کے اندرونی خفیہ نظام کےبارے میں کچھ خاص نہیں جانتا۔ Józef Hieronim Retinger (17 April 1888 – 12 June 1960 جوزف ہائرونیم ریٹینگراس گروپ کا بانی ہے، جوزف نے پولینڈ کے ایک گھرانے میں آنکھ کھولی ، بیس سال کی ریکارڈ عمر میں اس نے پی ایچ ڈی
کی ڈگری حاصل کی بہت کم عمری میں وہ ایک پولش جنرل کا پولیٹیکل ایڈوائزر بن گیا۔ جوزف یورپین موومنٹ کا بانی ہے اور موجودہ یوروپین یونین اسی کے دئے گئے تصور کی جیتی جاگتی تصویر ہے۔ 1954 میں اس نے ہالینڈ کے بادشاہ کو بلڈر برگ گروپ کے قیام کے لے قائل کیا اور یوں ھالینڈ کے ایک چھوٹے سے خوبصورت قصبے Oysterbeek کے ایک ھوٹل بلڈربرگ میں اس کا پہلا خفیہ اجلاس ہوا۔
بلڈر برگ گروپ 1954 میں ھالینڈ میں قائم ھوا اور تب سے اب تک ہر سال ستمبر میں بلا تعطل اس گروپ کی سالانہ میٹنگ ھوتی ہے جس میں یہ طے کیا جاتا ھے کہ اگلا سال اکنومکلی اور پولیٹیکلی کیسا ھو گا۔ دنیا بھر میں ھونے والی معاشی، سیاسی، جغرافیائ تبدیلیاں یہ گروپ کنٹرول کرتا ہے۔ پورپین یونین، نیٹو، عالمی بینک اسی گروپ کے آئیڈیاز ہیں۔ اس گروپ میں امریکہ، کینیڈا سمیت اٹھارہ یوروپین ممالک کے موسٹ انفلواینشل لوگ شامل ہیں ۔ عالمی بینک کا سربراہ، نیٹو کا سیکریٹری جنرل، یو این او کا سیکریٹری جنرل اور دیگر عالمی اداروں کے سربراہ اس میٹنگ کا لازمی حصہ ھوتے ھیں اور اسی گروپ میں دنیا کے ٹاپ تھنک ٹینکس کے نمائندے بھی شریک ھوتے ہیں۔
اس گروپ کو آپ کس طور پر فری میسن ٹائپ کا گروپ نا سمجھیں ، فری میسن بہت چھوٹا گروپ ہے اپنے اثر و رسوخ کے اعتبار سے جبکہ بلڈر برگ گروپ اپنے اثرو رسوخ کے اعتبار سے ایک عالمی حکومت کا متبادل ہے اور حقیقت میں اس کا بنیادی مقصد ہی ایک عالمی حکومت قائم کرنا ہے۔ دنیا کے دس بڑے معاشی گروپس کے مالکان اس کے بنیادی ممبرز ہیں لیکن یہ گروپ کا سب کچھ نہیں بلکہ اس کا ایک حصہ ہیں ۔دنیا بھر کے صارفین کے استعمال کی اشیاء یہ دس بڑے گروپس مینوفیکچر کرتے ہیں اور اپنی اجاراہ داری قائم رکھنے کے لیے انہوں نے ان اشیاء کو عالمی منڈی میں ایک معاھدے کے تحت آپس میں تقسیم کر لیا ہے، جس کے نتیجے میں ان پروڈکٹس کی قیمتیں ان کی مرضی کے مطابق متعین ھوتی ہیں۔
پندرہ سو بلین ڈالر کی ڈرگ مارکیٹ بھی دنیا بھر میں یہ گروپ کنٹرول کرتا ہے۔ اور جن جن ممالک میں ڈرگ کا بزنس ھوتا ہے وہ بلیک منی ان ممالک کی اسٹاک مارکیٹس کو کنٹرول کرنے اور بلیک منی کو لیگل کرنے میں استعمال ھوتی ہے۔ دنیا بھر کی معاشی منڈیوں کو کنٹرول کرنے کی منصوبہ بندی سال ہا سال سے اس گروپ کے شاطر ترین افراد کر رہے ہیں۔ اور عالمی معیشت پر ان کی گرفت مظبوت سے مظبوط ہوتی جا رہی ھے۔ پیٹرول، سونے، چاندی، لوہے سے لیکر رئیل اسٹیٹ تک یہ گروپ ہر بڑی معاشی منڈی کو کنٹرول کرتا ہے۔ آپ ان اشیاء کی قیمتوں کے اوپر نیچے ہونے کی دسیوں توجیحات پیش کر سکتے ہیں لیکن کن مقاصد کے تحت قیمتیں تھری سکسٹی کے زاویے سے اوپر اور نیچیے ہوتی ہیں کوئ نہیں جانتالیکن اس کا کنٹرول ان کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔
پیٹرول ۱۱۵ ڈالر سے ۳۵ ڈالر فی بیرل کیوں ھوا کوئ نہیں جانتا اور تو اور اس سال کھالوں کی عالمی قیمیت 75 فیصد سے زائد ڈراپ ہوئیں ، لیکن کیوں اور کس نے کیں کوئ نہیں جانتا۔ دوسری طرف عالمی سیاست پر ان کی گرفت کا اندازا اس بات سے لگا لیجئے کہ بل کلنٹن، ٹونی بلئیر، مارگریٹ تھیچر اور دسیوں دوسرے سیاستداں ان کی سالانہ میٹینگ میں شرکت کے بعد اپنے اپنے ملکوں کے صدر اور وزیراعظم بنےتھے۔ جو جو ان کی سالانہ میٹنگ میں شریک ھوتا ہے اس کے بارے میں یہ کہ دیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ سال کوئ حکومتی عہدہ سنبھالنے والا ہے۔
واضح رہے کہ ان خفیہ میٹنگز میں شرہک ہونے والے مندوبین کی حیثیت سے شریک ھوتے ہیں وہ اس گروپ کے مستقل ممبرز نہیں ھوتے۔ بلڈر برگ کی عالمی حکومت کا تصور چار عناصر پر مشتمل ہے جنہیں اگر کنٹرول کیا جائے تو پوری دنیا پر حکومت کی جا سکتی ہے۔ معیشت (دس بڑے معاشی گروپ) آرمی (نیٹو) مالیات (ورلڈ بینک) اور ماس میڈیا ( چار میڈیا گروپ) اور ان چار میدانوں میں ہر آنے والے دن دنیا کے یہ طاقتور ترین لوگ مظبوط تر ہوتے جا رہے ہیں۔
Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے