” بلڈی سویلینز ۔۔۔ جی ہاں ۔۔۔ آپ "

مؤرخ لکھے گا کہ پاکستان ایک ایسا ملک ہوا کرتا تھا جو بناقانون و نظام ایک عرصہ تک صرف خدا آسرے ہی قائم رہا ، مؤرخ کو لکھنا ہوگا کہ اسلام کے نام پر حاصل ہونے والے پاکستان میں اگر کسی شئے کی کمی تھی تو وہ اسلام ہی تھا ، مؤرخ طوعا یا کرھا لیکن ایسا بھی ضرور لکھے گا کہ پاکستان میں بسنے والے لوگ طبقاتی طور دو حصوں میں منقسم تھے ، مؤرخ لکھنے پر مجبور ہوگا کہ پاکستان کا ایک طبقہ ” باوردی لوگ ” تمام تر سہولیات اور مراعات دوسرے طبقے ” بلڈی سویلینز ” کے بل بوتے اور انکی محنت کی حلال کمائی سے حاصل کیا کرتا اور بدلے میں ان کی تکالیف و مشکلات کا مداوا تو کجا ، ان کی مشکلات و پریشانیوں میں مزید اضافہ کیا کرتا ۔

مؤرخ کیوں نہ لکھے کہ ایک عجیب قوم تھی جو حفاظت کے لئے چوکیدار پالتی اور اپنی کمائی کا بڑا حصہ چوکیداروں کو دیتی تھی لیکن چوکیداروں کی نظرکرم بھونکنے واسطے اپنے پالنے والوں ہی کا انتخاب کیا کرتی تھیں ۔

مؤرخ پر یہ لکھنا لازم ہوگا کہ پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی کی سب سے مصروف اور بڑی شاہراہ ” راشد منہاس روڈ ” پر ہمیشہ ایک باوردی چوکیدار کچھ کچھ وقت بعد نمودار ہوتا اور ایک انگشت کے اشارے ہزاروں گاڑیوں کو روک دیا کرتا کیونکہ کسی باوردی صاحب نے سڑک پار کرنی ہوتی ، مؤرخ یہ بات کیونکر بھول پائے گا کہ ان رکنے والی ہزاروں گاڑیوں میں بہت سی ایمبولینس بھی شامل ہوتیں ور ان میں پڑے بہت سے مریض تڑپتے ، بلکتے ، سسکتے ہسپتال پہنچنے سے قبل ہی باوردی صاحب کے سڑک پار کرنے کی خاطر جان دیا کرتے ۔

مؤرخ ڈوبتے دل اور برستی آنکھیں لئے شاید یہ بھی لکھے کہ محبوب نامی کسی بلڈی سویلین کو راہ حق کے کسی باوردی مجاہد کے ہاتھوں جہنم واصل ہونا پڑا اور پھر پاگل قوم صرف انصاف کی امید پر ہی جیتی رہی ۔

ہو نہ ہو مؤرخ ، تاریخ کا اختتام کچھ ایسے الفاظ پر کرے گا کہ ” پاکستان میں حصول حق کے لئے باوردی ہونا لازمی ہوا کرتا تھا ، وردی پہنے صاحبوں کا طوطی بولتا بلکہ پاکستان نامی ریاست وردی والوں ہی کی ملکیت تھی اور باقی کے بچنے والے کچھ لوگ بلڈی سویلینز کہلاتے تھے ۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے