بول اور آزادی صحافت

پاکستان میں آزادی صحافت کے دعووں کے حقائق جانچنے کے لیے بول ایک ٹیسٹ کیس کی حیثیت رکھتا ہے جب کہ یہاں پریس فریڈم کے نام پر کام کرنے والی نام نہاد تنظیموں کی بول کے خلاف اقدامات پر لگا تار پراسرار خاموشی سے صاف ظاہر ہے کہ حقائق در اصل کچھ اور ہیں اور ملک میں آزادی صحافت تا حال ایک سنہرے خواب سے زیادہ کچھ حیثیت نہیں رکھتی۔ سال 2013 میں پاکستان کی صف اول کی آئی ٹی کمپنی ایگزیکٹ نے میڈیا کو ملک دشمن سیٹھ مافیا سے نجات دلانے اور صحافیوں کو بین الاقوامی معیار کے مطابق سہولتیں فراہم کرنے کے لیے ملک کے سب سے بڑے میڈیا گروپ ’بول میڈیا ہائوس‘ کی بنیاد رکھی تو اس کے پس منظر میں ملک میں آزادی صحافت پر یقین ہی کار فرما تھا مگر آئی ٹی کمپنی کے مالک شعیب احمد شیخ کو اس بات کا کوئی اندازہ نہیں تھا کہ ان کی یہی انسانی دوستی اور آزادی صحافت کے دعووں پر یقین شاید اس مملکت خدا داد پاکستان میں ان کی سب سے بڑی غلطی ٹہرے گا۔ ایگزیکٹ نے صحافیوں کو بہترین طرز زندگی فراہم کرنے کے علاوہ دنیا بھر میں ملک کا مثبت چہرہ دکھانے کے لیے پاکستان میں میڈیا کے سب سے بڑے اور جدید ترین انفرا اسٹرکچر کی بنیاد رکھی جس کا نا صرف عوام کی جانب سے پرجوش اسقبال کیا گیا بلکہ ملک کے نام ور ترین صحافیوں نے بول میڈیا ہائوس کے ساتھ وابستہ ہونا اپنے لیے باعث فخر سمجھا۔ مگر ملکی مفاد کے لیے کام کرنے والے میڈیا عناصر سے پاکستان کی ترقی کے لیے اٹھایا گیا اتنا بڑا قدم کسی طور ہضم نہیں ہوا اور بول کے خلاف ایک با قاعدہ پروپیگنڈا مہم کا آغاز کر دیا گیا جس میں بار بار بول کے تانے بانے مختلف مثبت و منفی حلقوں سے جوڑے گئے مگر جب اس سب سے کام نہیں چلا تو پاکستان کی میڈیا تاریخ کی سب سے بڑی سازش عمل میں لائی گئی جس سے نہ صرف شعیب احمد شیخ کے پاکستان میں آزادی صحافت کے تمام تر خواب چکنا چور ہو گئے بلکہ 30 ہزار بے گناہ افراد راتوں رات روزگار سے بھی محروم کر دیے گئے۔ اس مکروہ ترین سازش کے تحت 18 مئی 2015 کو امریکی اخبار نیویارک ٹائمز نے پاکستان مخلاف عناصر کی شہہ پر رپورٹر ڈیکلن والش کی ایک من گھڑت خبر شائع کی جس میں الزام لگایا گیا کہ پاکستان کی صف اول کی آئی ٹی کمپنی جعلی ڈگریوں کا کاروبار کرنے والے ریکٹ سے وابستہ ہے۔ خیال رہے کہ ڈیکلن والش کو حکومت پاکستان غیر اخلاقی طرز صحافت کی بنیاد پر نا پسندیدہ شخصیت قرار دے کر پہلے ہی ملک بدر کر چکی تھی اور ڈیکلن والش پاکستان مخالف خبریں تیار کرنے میں عالم گیر شہریت کا حامل رپورٹر ہے۔ امریکی اخبار میں ایگزیکٹ کے خلاف اس غیر متصدقہ خبر کے شائع ہونے کی دیر تھی کہ ایسا لگا ملک میں قیامت آ گئی اور حکومتی ادارے اس طرح ایگزیکٹ اور بول کے خلاف لپکے جیسے وہ اس موقعے کے انتظار میں گھات لگائے بیٹھے تھے۔ خبر کی اشاعت کے چند گھنٹوں کے اندر اندر بغیر کسی ثبوت اور شواہد کے اور قانونی تقاضے پورے کیے بغیر وفاقی تفتیشی ایجنسی ایف آئی اے نے ایگزیکٹ کے دفاتر پر قبضہ کر لیا، کمپنی کے بنک اکائونٹس منجمد کر دیے گئے، ایگزیکٹ کے آفسز میں ایف آئی نے لوٹ مار شروع کر دی، جب کہ شعیب احمد شیخ اور ان کے ساتھیوں کو غیر قانونی طور پر حراست میں لے لیا گیا جو تا حال کسی قانونی کارروائی کے بغیر جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید ہیں۔ بھارت نواز عناصر کو خوش کرنے کے لیے حکومتی شہہ پر کی گئی اس کارروائی کے ساتھ ساتھ تمام میڈیا گروپوں نے ایگزیکٹ کا وہ بد ترین میڈیا ٹرائل شروع کیا جس کی ملکی تاریخ میں کوئی مثال نہیں ملتی جہاں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے شعیب احمد شیخ اور ان کے ساتھیوں کو ’مجرم‘ ٹہرا دیا گیا جب کہ بعض صحافیوں نے بول سے استعفی بھی دے دیا۔ ایگزیکٹ کے خلاف اس تمام تر کارروائی کا مقصد دراصل بول میڈیا ہائوس کو نشانہ بنا کر ملک میں رہ سہی آزادی صحافت کا گلا گھونٹنے کے سوا کچھ اور نہیں تھا۔ کیوں کہ ایگزیکٹ گزشتہ 18 سال سے شفاف طریقے سے کام کرنے کے علاوہ ملکی خزانے میں اربوں روپے کا ٹیکس جمع کر رہا تھا اور جیسا کہ امریکی عدالت انصاف کے ایک حالیہ فیصلے نے واضح کر دیا ہے کہ ایگزیکٹ کبھی بھی کسی طرح کے بھی غیر قانونی طرز عمل میں ملوث نہیں تھا۔ بول میڈیا ہائوس کے خلاف ریاستی طاقت کے اندھے استعمال کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ پاکستان میں سائبر قوانین موجود نہیں ہیں چناں چہ ایف آئی اے محض دھوکا دہی کی شق 420 کے تحت ایگزیکٹ کے خلاف کارروائی کی جس میں پاکستان پینل کوڈ کے تحت زیادہ سے زیادہ ایک سال سزا جب کے 10 سے 50 لاکھ جرمانہ عائد ہو سکتا ہے، مگر شعیب احمد شیخ اور ان کے ساتھیوں کو جیل میں بغیر کسی عدالتی کارروائی کے ایک سال ہو چکا ہے۔ مہذب دنیا کے لیے یہ بات نہایت حیران کن ہو گی کہ ایگزیکٹ کے خلاف چوں کہ کوئی بھی متاثر سامنے نہیں آیا اس لیے یہاں ایف آئی اے کے ایک افسر سعید میمن خود ہی مدعی ہیں، خود ہی تفتیشی افسر اور خود ہی پراسیکیوٹر اور اب کسر صرف اس بات کی رہ گئی ہے کہ وہ وہ خود ہی منصف بن کر ایگزیکٹ کے خلاف فیصلہ بھی سنا دیں۔ اسی طرح پاکستان میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی (پیمرا) کی جانب سے لائسنس کے اجرا کے بعد ایگزیکٹ نے بول میڈیا ہائوس کی بنیاد رکھی تھی جس سے کئی ہزار افراد کا روز گار اور مستقبل وابسطہ تھا مگر اس سلسلے میں ایک بار پھر ملک میں قانون اور آزادی صحافت کا کھلے بندوں مذاق اڑایا گیا۔ پیمرا کی کونسل آف کمپلین قانونی طور پر کسی چینل کا لائسنس منسوخ کرنے کی سفارش نہیں کر سکتی کیوں کہ اس کا دائرہ کار قابل اعتراض مواد نشر کیے جانے کی صورت
میں شہریوں کی جانب سے شکایت کے بعد کسی چینل کے خلاف زیادہ سے زیادہ 10 روپے جرمانہ کی سفارش کرنے تک محدود ہے مگر یہاں مفاد پرست میڈیا عناصر کے گٹھ جوڑ (پی بی اے) نے بول کے خلاف پیمرا کی کونسل آف کمپلین سے رجوع کیا اور اس کونسل نے غیر قانونی طور پر پیمرا سے بول کا لائسنس منسوخ کرنے کی سفارش کی اور پیمرا کے عارضی چیئرمین نے بھی تمام تر قانونی تقاضے نظر انداز کرتے ہوئے بول کا لائسنس منسوخ کر دیا جب کہ پیمرا مستقل چیئرمین کی عدم موجودگی کی صورت میں ایسا کوئی فیصلہ کرنے کا مجاز نہیں ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ تمام کارروائی حکومت نے ملک دشمن عناصر کو خوش کرنے کے لیے کی جیسا کہ پاکستان کے وزیر خارجہ چوہدری نثار اعتراف کر چکے ہیں کہ انہوں نے پی بی اے کے کہنے پر بول کے خلاف کارروائی کا حکم دیا۔ اور اس حکم کا مقصد یہ ہی تھا کہ پاکستان میں آزادی صحافت کی دھجیاں اڑا کر ان مفاد پرست سیٹھوں کو پاکستان کے خلاف کام کرنے دیا جائے، ان کے مفادات کو کوئی نقصان نا پہنچے، صحافیوں کی حالت زار بدستور بر قرار رہے اور ہزاروں بے گناہ افراد کو ان کے روزگار سے بھی محروم کر دیا جائے۔ چناں چہ بول کے لائسنس کی منسوخی کے حق میں وزارت اطلاعات پاکستان نے نہایت مضحکہ خیز دلیل دی کہ اگر بول کو بولنے دیا گیا تو اس کی نشریات ایگزیکٹ کے خلاف جاری تحقیقات پر اثرا انداز ہوں گی۔ اس بھونڈی دلیل پر سینیٹ کے اراکین تک چیخ اٹھے اور رکن ایوان بالا سعید غنی نے یہاں تک کہا کہ اگر بول کے لائسنس کی منسوخی کی یہ ہی دلیل ہے تو پھر حکومت کو چاہیے کہ ملک میں تمام اخبارات اور چینلوں پر پابندی لگا دے۔ بول میڈیا ہائوس کے مخالفین میں جنگ اور جیو گروپ اس لیے سب سے زیادہ آگے ہے کیوں کہ اس کے تمام بڑے بڑے صحافیوں اور اینکر پرسنز نے بول میں شمولیت اختیار کر لی تھی اور بول کے شاندار تنخواہوں کے سامنے اس سیٹھ گروپ کو بھی دل پر پتھر رکھ کر اپنے کارکنوں کی تنخواہوں میں اضافہ کرنا پڑ رہا تھا چناں نے چہ اس گروپ نے دیگر مفاد پرست میڈیا مالکان کے ساتھ گٹھ جوڑ کیا اور حکومت بول کے خلاف سنگین کارروائی کی درخواست کی جسے بدعنوان نواز حکومت نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے من و عن پورا کیا اور پاکستان مخالف عناصر کو خوش کرنے کے لیے ہزاروں بے گناہ افراد کو بے روزگاری کے بد ترین جہنم میں دھکیل دیا۔ بول میڈیا ہائوس کے خلاف بد ترین حکومتی کارروائیوں پر ملک بھر کی سیاسی، سماجی و صحافتی شخصیات سمیت عوام نے بول کی حمایت کرتے ہوئے سخت ترین رد عمل کا اظہار کیا اور ملک بھر میں بول کی بحالی کے لیے احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ بول میڈیا ہائوس نے ان تمام تر بد ترین حالات کے با وجود ہار نہیں مانی اور اپنے حق کے لیے قانونی جنگ لڑنے کا فیصلہ کیا مگر گزشتہ ایک سال سے حکومتی ایما پر جان بوجھ کر عدالتی عمل تاخیر کا شکار کیا جا رہا ہے اور تا حال 10 جج نا معلوم وجوہات کی بنا پر ایگزیکٹ مقدمات سے علیحدگی اختیار کر چکے ہیں۔ اس دوران ملک کے ایک اور میڈیا گروپ اے آر وائی نے بول کے معاملات سنبھالنے کے لیے ایک معاہدہ کرنا چاہا مگر یہ معاہدہ بھی بعض وجوہات کے باعث اپنے انجام کو نہیں پہنچ سکا۔ گزشتہ ایک سال سے جہاں حکومت ایک طرف مسلسل عدالتی کارروائیوں پر اثر انداز ہو رہی ہے تو دوسری طرف اس کے پالتو میڈیا نے بول میڈیا ہائوس کے خلاف زہر اگلنے میں کوئی کسر اٹھا نہیں رکھی ہے اور بول کے خلاف مسلسل غیر متصدقہ، من گھڑت، جھوٹی اور حقائق کے خلاف خبریں نشر کرنے کا سلسلہ روز اول کی طرح بد ستور جاری ہے۔ مگر بول کے نڈر صحافیوں نے ریاستی طاقت کے سامنے جھکنے سے انکار کرتے ہوئے ملک بھر میں ایک تاریخی جدو جہد کی تاریخ رقم کرنے کا سلسلہ جاری رکھا ہوا ہے۔ جس کے تحت بول مینجمنٹ کمیٹی نے ایوان بالا، ایوان زیریں، صوبائی اسمبلیوں اور دیگر فورمز سے رابطے کیے جہاں انہیں زبردست حمایت اور ہر ممکن قانونی امداد کا یقین دلایا گیا ہے۔ کمیٹی اور صحافیوں کی جانب سے ملک بھر کے پریس کلبز میں مظاہرے کیے گئے اور دیوار دست خط بھی نصب کی گئی جہاں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے خاص و عام نے اپنا نام ثبت کر کے بول کے حق میں اپنی حمایت کا یقین دلایا۔ ماتحت عدالتوں میں انصاف میں تاخیر کے عمل کو دیکھتے ہوئے بالآخر بول میڈیا ہائوس نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا جہاں ابتدائی سماعتوں میں عدالت انصاف نے ایف آئی اے کو حکم دیا ہے کہ وہ ایک ماہ کے اندر اندر اپنی کارروائی مکمل کر کے بول ایگزیکٹ دفاتر کو خالی کر دے۔ ملک کے عوام اور صحافیوں کو عدالت عظمٰی سے انصاف کی فراہمی کا پورا یقین ہے مگر سیاسی، سماجی، صحافتی اور عوامی حلقوں نے اس بات پر شدید مایوسی کا اظہار بھی کیا ہے کہ ملک میں پاکستان پریس فائونڈیشن جیسے آزادی صحافت کے علم بردار اداروں نے بھی بول کے معاملے پر پر اسرار خاموشی اختیار کر رکھی ہے۔ پاکستان پریس فائونڈیشن کو آج سے تقریباً 50 برس قبل ملک میں آزادیِٔ صحافت کی بقا کے نام پر وجود میں لایا گیا تھا۔ اگر چہ پی پی ایف ایک آزاد اور غیر جانب دار ادارہ ہونے کا دعوی کرتا ہے مگر ’عالمی یوم آزادی صحافت 2016‘ کے تناظر میں اس کی حالیہ شائع کردہ ’پاکستان آزادی صحافت رپورٹ‘ نے اس تنظیم کے اس دعوے کی پوری طرح قلعی کھول دی ہے۔ متذکرہ رپورٹ میں پی پی ایف نے اگر چہ پاکستان میں ان رحجانات اور طرز عمل کا مشاہدہ کیا ہے جو ملک میں آزادی اظہار رائے اور میڈیا کے تحفظ پرسنگین اثرات مرتب کر سکتے ہیں جن میں پاکستان الیکٹرانک میڈیاریگولیٹری اتھارٹی کی طرف سے ادارتی ہدایت کے جارح
انہ نظام، متحدہ قومی موومنٹ کے رہ نما کی تقاریر اور انٹرویوز پر پابندی، اینکر پرسن حامد میر پر قاتلانہ حملہ کرنے والوں کی نشان دہی اور انہیں ذمے دار ٹہرانے کی سونپی گئی ذمہ داری کو پورا کرنے میں عدالتی کمیشن کی ناکامی، قومی اسمبلی کی جانب سے سائبر کرائم بل کی منظوری جو آزادی اظہار رائے کو ختم کر سکتا ہے اور ’مالک‘ فلم پر پابندی پر آواز اٹھانے کے علاوہ کچھ مثبت پیش رفت پر بھی بات کی گئی ہے مگر نہایت حیران کن امر ہے کہ اس رپورٹ میں پاکستان کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس بول گروپ کے خلاف گزشتہ ایک سال سے جاری حکومتی مظالم اور ایک پاکستان مخالف امریکی اخبار میں محض ایک جھوٹی خبر کی بنیاد پر بول کی آواز کو خاموش کیے جانے پر ایک لفظ تک لکھنے کی زحمت گوارا نہیں کی ہے۔ عوامی و صحافتی حلقوں نے اس امر پر نہایت تشویش کا اظہار کیا ہے کہ خود کو آزادی صحافت کا علم بردار اور آزاد قرار دینے والا ادارہ اس صحافتی جرم میں آخر کس طور نواز حکومت اور سرکاری اداروں کے ساتھ کھڑا ہو سکتا ہے۔ بول میڈیا ہائوس پاکستان کا سب سے بڑا صحافتی ادارہ ہے جس سے کئی ہزار افراد کا روز گار وابستہ ہونے کے باوجود جس طرح حکومتی اداروں نے آزادی صحافت پر شب خون مارتے ہوئے بول کا غیر قانونی طور پر گلا گھونٹا اس پر پی پی ایف کو بھر پور طریقے سے آواز بلند کرنی چاہیے تھی مگر ملک کے اتنے بڑے صحافتی معاملے پر اس نام نہاد آزاد ادارے کی پر اسرار خاموشی نے اذہان میں سنگین سوالات کھڑے کر دیے ہیں۔ عوامی حلقوں کا ماننا ہے کہ پاکستان میں آزادی صحافت کے حوالے سے کوئی بھی رپورٹ بول کے ساتھ ہونے والے بد ترین ریاستی ظلم کے تذکرے کے بغیر کسی طور پر مکمل ہو سکتی ہے اور نا ہی اسے قابل اعتبار قرار دیا جا سکتا ہے۔ صحافتی و عوامی حلقے جاننا چاہتے ہیں کہ پی پی ایف کی متذکرہ رپورٹ میں بول کا تذکرہ حذف کرنا آخر کس بات کا اشارہ ہے اور ان کا کہنا ہے کہ اگر پی پی ایف اپنی اس مجرمانہ خاموشی کی کوئی معقول توجیہہ پیش نہیں کرتا تو اس کا صاف مطلب ہو گا کہ صحافیوں کی خود مختاری، آزادی اور ان کے بہترین طرز زندگی کے لیے بول کے ملک دوست اقدامات سے خوف زدہ ہو کر جس طرح اپنی پروردہ میڈیا سیٹھ مافیا کی ایما پر ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت حکومت نے ملک کے سب سے بڑے میڈیا ہائوس اور صحافتی آزادی پر شب خون مارا ہے اس جرم میں پاکستان پریس فائونڈیشن بھی براہ راست شریک کار ہے۔ عوام اور صحافتی حلقوں نے شدید غم و غصے کا مظاہرہ کرتے ہوئے آزدای صحافت کے علم بردار اس نام نہاد آزاد ادارے سے ان سنجیدہ سوالات کا فوری طور پر جواب طلب کیا ہے۔ عوام کا کہنا ہے کہ دنیا کے مہذب ممالک میں اگر چہ قانون و انصاف اندھا ہوتا ہے مگر مملکت خدا داد پاکستان میں نہ صرف سرکاری بلکہ شاید خود کو آزاد کہلانے والے ادارے بھی بینائی سے یک سر محروم ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے