بول کے لب آزاد ہیں تیرے قسط(1)

اصول بیچ کر مسند خریدنے والو
نگاہ اہل وفا میں بہت حقیر ہوتم
وطن کا پاس تمھیں تھا نہ ہوسکے گا کبھی
کہ اپنی حرص کے بندے ہو بے ضمیر ہو

حبیب جالب نے بجا فرمایا کہ مسند کی خاطر آپ اپنے اصولوں کو روند ڈالتے ہیں تو آپ سے بڑھ کر کوئی اہل وفا میں حقیر نہیں ہوسکتا،اپنے وطن اور پیشے سے غداری کا پاس اس وقت عیاں ہوجاتا ہے جب آپ اپنے ذاتی مفادات کی خاطر دوسروں کے مفادات کو قربان کر دیتے ہیں،حرص اور لالچ ایسی بری بلائیں ہیں جو آپ کو نہ صرف گھٹیا کردار نبھانے پر مائل کرتی ہیں بلکہ دوسروں کے دل میں رہی سہی جگہ کو بھی نکلنے کا ساماں بناتی ہیں۔

مکافات عمل ہے کہ جیسا کرو گے ویسا بھرو گے، آج سے ٹھیک دوسال قبل’’ خبر کے اندر کی خبر ‘‘رکھنے والے ہمارے سینئر ترین صحافی دوست نے وڈے میڈیا گروپ کو داغ مفارقت دیکر ایک نئے میڈیا گروپ جو ابھی تیاری کے مراحل میں تھا کہ اپنے لاؤ لشکر ان صحافتی کارکنان کو خوابوں کی دنیا میں لے جاکر ایسا دھڑم سے جگایا کہ ان کے اوسان تاحال خطا ہیں،اب وہ صحافتی کارکنان سانپ کے کاٹے رسی سے ڈرتے اپنی قسمت کا رونا رو رہے ہیں۔

گزشتہ برس وہ میڈیا گروپ جس کی انتظامیہ نے یکم رمضان المبارک مسلمانوں کے مقدس دن کے موقع پر آن ایئر ہونے کا اعلان کیا، یہ اعلان نہ صرف وڈے میڈیا گروپ کے مالکان پر ایٹم بم کی مانند گرا،اگر یہ میڈیا گروپ آگیا تو ہماری دکان کیسے چلے گی،راقم قبل ازیں گزشتہ برس25مئی کو ’’برداشت ‘‘ کے عنوان سے شائع کالم میں نئے آنے والے گروپ سے حسد کا ذکر کرچکا ہے۔

وڈے میڈیا گروپ کو چھوڑ کر جس میڈیا گروپ کو ان بھولے بھالے صحافیوں ،کارکنوں اوربڑے اینکرپرسنز نے جوائن کیا،جن میں کچھ تو رخصت ہوچکے ہیں،وہ گروپ معروف انقلابی شاعر ’’فیض احمد فیض ‘‘ کی نظم ’’بول کے لب آزاد ہیں تیرے‘‘ کے پہلے مصرعے سے لیا گیا،وہ گروپ ’’بول ‘‘ ٹی وی کے نام سے صحافتی افق پر آزمائشی نشریات کے ساتھ نمودار ہوا،اس گروپ نے پہلے ہی دن سے نمبر ون ہونے کا دعوی کرڈالا جو وڈے میڈیا گروپ کے لیے ٹینشن کا باعث بن گیا،وڈے میڈیا گروپ کے مالکان نے دوسرے میڈیا کے چند چھوٹے گروپس جنھیں وہ ایک آنکھ نہ بھاتے تھے،بالآخر سرجوڑے کہ میرے کارکنان ، اینکرز اور وڈے پروگرامز کے وڈے شو ز کی دکان جہاں بند ہونے جارہی ہے،وہاں تمھارے لوگوں کو بھی اٹھایا جا رہا ہے،اس میڈیا گروپ نے عام صحافی کی زندگی کو بہتر کرنے کا عزم کررکھا تھا، ایک طرف وڈے میڈیا گروپ سے منسلک بھولے بھالے صحافی جو وقت پر تنخواہیں نہ ملنے پر اپنی زندگی کو بہتر کرنے کی دھن میں بہتر سے بہتر کی تلاش میں نکلے اور اس میڈیا گروپ کا حصہ بن گئے، جس نے ان کی زندگی کو نئی جہت دینے کااعلان کررکھا تھا،یہ کسی بھی صورت وڈے گروپ کو گوراہ نہ تھی،چند رکنی اتحاد بنا کر میچ یوں فکس کرلیا کہ یکم رمضان کو آنے والے اس میڈیا گروپ کی آمد ان کے لیے ابدی موت کا ذریعہ بن نہ جائے۔

امریکی صحافی ڈیکلن والش جسے پاکستان نے’’پرسونانان گراٹا‘‘ قرار دیا،کی نیویارک ٹائمز امریکی اخبار میں کی جانے والی سٹوری ڈگریوں کے جعلی سکینڈل پر آنا فانا وڈے میڈیا گروپ نے اپنے اتحادیوں کے ہمراہ چڑھائی شروع کردیا،بریکنگ نیوز،ٹاک شوز کا حصہ فکس سکینڈل کوبناکر اس میڈیا گروپ کو آنے سے قبل سے روکنے کی بڑی سازش کی گئی، پس پردہ اس گروپ کی مدر کمپنی ایگزیکٹ تھی،جو آئی ٹی کی دنیا کی سب سے بڑی کمپنی تھی،اس کمپنی میں کام کرنے والوں کی ایک بڑی تعداد اور اس میڈیا گروپ کے تین ہزار سے زائد ملازمین کے منہ سے روزگار کا نوالہ چھین لیا گیا۔

یاد رہے کہ یہ امریکی اخبار آج بھی پاکستان مخالف سٹوریاں بریک کرنے میں پیش پیش ہے،جس کو بنیاد بنا کر پاکستان کے ادارے کارروائیاں کرتے ہیں،سمجھ سے بالا تر ہے کہ یہاں تجزیہ نگار ،بڑے بڑے صحافی،کالمنسٹ اور خبر کے اندر کی خبر رکھنے والے بھی بیٹھے ہیں،لیکن امریکی اخبار کو کیوں اتنا معتبر سمجھا جا رہاہے، آپ کا میڈیا وہ کچھ نہیں دکھا سکتا جو خاصیت امریکی اخبار میں ہے،اس کی پاکستان مخالف سٹوریز کو اتنا معتبر سمجھا جا رہا ہے،آج تک راقم کو سمجھ نہ آسکی۔

اس اخبار کے چند وڈے ترجمان پاکستان کی پاک سرزمین پر بھی موجود ہیں،جو اس کامن گڑھت ترجمہ کرکے عوام الناس تک پہنچانے میں صف اول کا کردار ادا کر تے ہیں،ہر من گھڑت کہانی کا ترجمہ کرکے عوام کو ذہنی مریض بناکر اپنی ریٹنگ بڑھانے کی کوشش کا بھی اک دن اختتام ہونا ہے،کیونکہ دنیا فانی ہے اور جھوٹ کی بنیاد نہیں رہتی،وڈے میڈیا گروپس کی کارستانیوں سے اتحادی جلد واقف ہو گئے کہ اس میں ان کا کوئی مفاد نہیں،بالآخر انھیں مزید کچھ محنت نہ کرنا پڑی، وڈے میڈیا گروپ کا کردار نہ صرف حکومت سازی میں ہے بلکہ حکومتی ترجمانی کا اصل حق بھی ادا کرنے میں پیش پیش ہے،حکومت سے یہ ڈیل ہے کہ آپ بول کو نہ آنے دیں ہم سنبھالیں گے عمران خان کو،بول اور ایگزیکٹ کے خلاف ہر آنے والی من گھڑت سٹوری وڈے میڈیا گروپ کے وڈے ترجمانوں کے ہاتھوں سے گزرتی ہوئی عوام الناس کی آنکھوں میں دھول کی مانند جھونک دی جاتی ہے۔

پاکستان کو ریوینیو کی صورت میں دینے والی کمپنی کو سکینڈلائز کرکے بزنس دنیا کے دوسرے ملکوں میں شفٹ ہوگیا،پاکستان میں پیسہ لانے والے کو پابند سلاسل کیا ہوا ہے،وہ اپنی قوم سے یہ سوال کررہا ہے کہ میرا کیا قصور ہے؟؟اس بھولے بھالے نوجوان کو حب الوطنی مار گئی،اپنے ملک کے لیے شہریوں کی زندگی کو بہتر بنانے کی کوششیں کرنے والے کو اس کے عزم سے روکنے کی کوشش کرنے والوں کو ایک دن حساب دینا ہی پڑے گا۔

قارئین محترم !
آج پاکستان میں ایک جمہوری حکومت میاں نواز شریف کی قیادت میں قائم ہے جو یہ دعوے کر رہی ہے کہ ہم بے روزگاری کے خاتمے کے لیے اقدمات اٹھا رہے ہیں،آپ بخوبی اندازہ لگا سکتے ہیں کہ بول اور ایگزیکٹ کے کم وبیش تیس ہزار ملازمین کے منہ سے نوالہ چھیننے والوں کے دعوے عوام کے سامنے ہیں،بول اور ایگزیکٹ کے ملازمین کے بچوں کو سکول کی فیس ،کتابیں اور یونیفارم کے پیسے میسر نہیں ، دس ماہ سے بول اور ایگزیکٹ کے ملازمین کو

عدالتی حکم کے باوجود اس میڈیا چینل کا گلہ گھونٹنے کی ہر ممکن سازش کی جارہی ہے
عدالتی حکم کے باوجود اس میڈیا چینل کا گلہ گھونٹنے کی ہر ممکن سازش کی جارہی ہے

تنخواہیں نہ ملنے کی وجہ سے فاقوں گھروں میں ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ بول اور ایگزیکٹ کے اکاؤنٹس منجمد ہونے کے باعث ملازمین کی ایک بڑی تعداد بے روزگار ہوچکی ہے،ایف آئی اے کے تاخیری حربے جاری وساری ہیں،ابھی تک ایف آئی اے حتمی چالان عدالت میں نہ پیش کرسکی، عدالت کے استفسار پر آج بھی حتمی چالان نہ پیش کرنے کا بہانہ مزید تحقیق کی صورت میں بنا کرحکومتی ایماء پر صحافیوں کے معاشی قتل کو طوالت دی جا رہی ہے۔

بقول جالب
بولنے پہ پابندی سوچنے پہ تعزیریں
پاؤں میں غلامی کی آج بھی ہیں زنجیریں
آج حرف آخر ہے بات چند لوگوں کا
دن چند لوگوں کا رات چند لوگوں کی

وزارت اطلاعات کے حکم نامے کے بعد پیمرا نے غیر قانونی طور پر بول نیوز کا لائسنس منسوخ کررکھا ہے،عدالتی حکم کے باوجود اس میڈیا چینل کا گلہ گھونٹنے کی ہر ممکن سازش کی جارہی ہے،جو پاکستان کی اچھی تصویر دکھانے صحافتی افق پر آرہا تھا،جس نے پاکستان کی ترقی کو دکھا نا تھا،جس سے یہ امید تھی کی کشمیریوں کے حق خودارادیت کی بااحسن ترجمانی کرتے ہوئے بھارتی جارحیت کا عالمی سطح پر اجاگر کرے گا ۔

صحافتی تنظمیں،فورمز صحافیوں کے معاشی قتل کے خلاف سراپا احتجاج ہیں،لیکن حکومت پر کوئی جوں تک نہیں رینگتی ،اس وقت خبر کے اندر کی خبر رکھنے والے،سماج کو بدلنے والے اور بہت سے دعویداروں نے بول انتظامیہ کا ساتھ چھوڑ کر اپنے اپنے ریٹ کے مطابق پرانی تنخواہ پر پوری طرح بحال ہونے کی کوششوں میں کامیابی حاصل کر رہے ہیں،کچھ نے وڈے چینل سے حلالے کے بعد رجوع کرنے کی کوشش کی،جس پر وڈے چینل نے طعنوں کے ساتھ پرانی تنخواہ پر پوری طرح بحال کیا لیکن وہ عزت اور وقار اب کی بار پھر سرکار۔

اس وقت بول ورکرز کا مقدمہ لیے سینئر صحافی نذیر لغاری، عامر ضیاء،فیصل عزیز اور خاور نعیم ہاشمی دس ماہ سے تنخواہوں سے محروم کارکنان کی ڈھال بنے انصاف کے لیے دستک دے رہے ہیں،لیکن آج اپنے روز گار کی مجبوریوں کے آڑے کارکنان بولنے سے قاصر ہیں،بول کے حق میں بولے تو نکال دیا جائے گا۔

میری ان تمام اپنے صحافتی کارکنان سے گزارش ہے کہ

اٹھ کے درمندوں کے صبح وشام بدلو بھی
جس میں تم نہیں شامل وہ نظام بدلو بھی
دوستوں کا پہچانو دشمنو کو پہچانو
میرے صحافتی کارکنو میرے صحافتی کارکنو

آج بول کے ورکرز کے ساتھ کھڑے ہوکر میرے ساتھ بولو کل کسی مشکل میں بول کے ورکرز بھی ہمارے ساتھ بولیں گے،آج حکومت چند سیٹھوں کی ایماء پر جہاں صحافیوں پر ظلم وتشدد کررہی ہے،ایسا آمریتی دور میں نہ تھا،معاشی طور پر صحافیوں کو کمزور کرکے حکومت دنیا کو اچھا پیغام نہیں دے رہی،صحافتی کارکنان کی تحریک جلد رنگ لائے گی اور جیت ہمیشہ حق کی ہوگی۔
(جاری ہے)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے