بچوں کی حفاظت کون کرے گا؟

گھر میں بچے ہوں توبچوں سے متعلق ہر خبر پر دل دہل جاتا ہے۔ اور پاکستان میں گذشتہ چند سالوں سے بچے صرف اس وقت خبروں کا موضوع بنتے ہیں جب ان کے ساتھ کچھ برا ہو جائے۔ قصور ، سرگودھا اور اب پشاور سے بچوں کی خبریں آئی ہیں، سب جگہ بچوں کو جنسی زیادتی کا سامنا رہا ہے۔ ان کی فلمبندی کی گئی اور انہیں زندگی بھر کے لئے ایک زندہ جہنم میں دھکیل دیا گیا۔

اکژاہل دل نے اس پر ایک بار پھر آواز اٹھائی کہ بچوں کو جنس کے متعلق تعلیم دی جائے تو واقعات میں کمی آسکتی ہے۔ بچے کو سمجھا دیا جائے تو وہ شور مچا سکتا ہے۔ والدین کو بتا سکتا ہے۔ بھاگ سکتا ہے۔ والدین کی بڑی ذمہ داری بنتی ہے۔ اپنے بچوں کی حفاظت کریں۔

سال 2005 میں سرگودھا پولیس ٹریننگ سکول میں مجھے کچھ پولیس سپاہیوں کو جنسی تشدد، صنفی امتیاز اور بچوں سے بد سلوکی کے بعد ان کی ذہنی کیفیت وغیرہ کے موضوع پر بات کرنے کا موقع ملا۔ وہیں ایک بزرگ پولیس اہلکار نے اشارہ کیا کہ وہ الگ سے کچھ بات کرنا چاہتے ہیں۔ کہنے لگے ” بی بی، آپ نے کبھی بھی کسی باپ کو اتنا بے بس اور غم زدہ نہیں دیکھا ہوگا جس کے بچے کے ساتھ زیادتی ہو جائے اور وہ اسے بچا نہ سکے۔ عمر بھر وہ والد اپنے آپ کو اس بچے کا مجرم سمجھتا رہتا ہے۔”

میں نے کہا ‘ بالکل، لیکن بہرحال اولین ذمہ داری والدین کی ہی بنتی ہے۔پولیس والے بزرگ کہنے لگے ‘ لیکن اس باپ سے بھی زیادہ وہ باپ تکلیف میں ہوتا ہے جو جانتا ہے کہ اس کے بچے کو اس کے سگے بھائی، دادا، ماموں یا کسی اور نزدیکی عزیز نے زیادتی کا نشانہ بنایا یے۔ لیکن ہمارے معاشرے کی عجیب سی روایات ہیں، لوگ بچوں کو خاموش کروا دیتے ہیں۔ کیونکہ اس سے خاندان میں لڑائی ہو جائے گی۔ مسئلہ حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہو جائے گا۔

اور میں نے سوچا اس سے بھی بڑھ کر اذیت میں وہ ماں ہوگی جو بچوں کو یہ سکھانے پر مجبور ہوجائے کہ اس اس ظالم انسان کو جھک کر سلام بھی کرو کیونکہ وہ تمھارے والدین کا سگا رشتہ دار ہے۔

والدین کی مجبوری اس وقت تک ختم نہیں ہو سکتی جب تک معاشرہ حق کو حق اور غلط کو غلط کہنے کی عادت نہیں ڈالے گا۔ جب ایک چور کو چوری کے لئے سزا نہیں ہوگی، ایک رشوت خور اور قاتل، بد معاش سینہ تان کر سماج میں پھرتا ہے تو اس سے ہر سطح کا گناہگار شہ پاتا ہے۔ جب غیرت کے نام پےبہن کو قتل کرنے والے کو اس کا باپ بیٹی کا قتل معاف کر دیتا ہے تو بگاڑ بنتا ہے۔

یہ صرف بچوں کی حفاظت کا معاملہ نہیں یہ انصاف کی بلا لحاظ و تفریق فراہمی کے کلچر کا معاملہ ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے