بھارت میں گائے کے گوشت کی پہچان کے لیے سفری کِٹ تیار

مغربی بھارت کی ایک سرکاری لیبارٹری نے گائے کے گوشت کی فوری پہچان یقینی بنانے کے لیے خصوصی سفری کِٹس تیار کرلیں۔

حکام کے مطابق یہ کِٹس غیرقانونی طور پر ذبح کی گئی گائے کے گوشت کی فوری نشاندہی میں پولیس کو مدد فراہم کریں گی۔

واضح رہے کہ ہندومت میں گائے کو ذبح کرنے پر ممانعت ہے اور اسی لیے کئی بھارتی ریاستوں میں گائے کو قبضے میں رکھنے اور اس کا گوشت کھانے کی سزا، سزائے موت ہے۔

بھارتی ریاست مہاراشٹرا کی سرکاری فرانزک سائنس لیبارٹریز کے ڈائریکٹر کے وائے کلکرنی کا کہنا تھا کہ ‘ہم گذشتہ 8 ماہ سے گائے کے گوشت کی پہچان کرنے والی کِٹس کی تیاری میں تھے، اب کِٹس کو اگست میں مہاراشٹرا اور ممبئی پولیس میں تقسیم کیا جائے گا’۔

انہوں نے بتایا کہ یہ خصوصی کِٹس تشخیصی ٹیسٹ ‘ ELISA’ کی بنیاد پر تیار کی گئی ہیں جس کے ذریعے نمونے کے رنگ میں ہونے والی تبدیلی سے اس میں شامل اشیاء کا اندازہ لگایا جاتا ہے، پولیس گوشت کے نمونے کو کٹ میں ڈالے گی اور 3 منٹ کی اندر اس بات کی جانچ ہوجائے گی کہ گوشت گائے کا ہے یا نہیں۔

واضح رہے کہ اس وقت روایتی ڈی این اے ٹیسٹ کے ذریعے گوشت کی جانچ کی جاتی ہے اور اس کام کو کرنے کے لیے لیبارٹری کو چند دن درکارہوتے ہیں۔

ڈی این اے ٹیسٹ کے انتظار میں اکثر مویشیوں کے بے گناہ تاجروں کو کئی کئی دن جیل کی سلاخوں کے پیچھے گزارنے پڑتے ہیں۔

ڈائریکٹر کے وائے کلکرنی کے مطابق گائے کے گوشت کی پہچان کرنے والی ایک کٹ کی قیمت 8 ہزار روپے ہوگی۔

تاہم ممبئی پولیس کے ترجمان نے اس بات کی تصدیق سے انکار کیا کہ پولیس کو یہ خصوصی کِٹس دی جانے والی ہیں۔

خیال رہے کہ یہ اعلان ایک ایسے وقت میں سامنے آیا ہے جب گذشتہ چند ماہ کے دوران بھارت میں گائے کے نام نہاد رکھوالوں کی جانب سے متعدد مسلمانوں کو گائے ذبح کرنے اور گوشت کھانے کے الزام میں قتل کردیا گیا۔

بھارتی وزیراعظم نریندر مودی نے حال ہی میں گائے کے تحفظ کے نام پر ہونے والی ہلاکتوں کی مذمت کی تھی تاہم ناقدین کہتے ہیں کہ 2014 میں بھارتیہ جنتہ پارٹی کی فتح کے بعد سے ہی گائے کے محافظین ایسی کارروائیوں میں زیادہ سرگرم ہیں۔

مخالفین مودی حکومت پر انسانوں سے زیادہ گائے کی زندگی کے لیے فکرمند ہونے کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔

دوسری جانب مقامی میڈیا میں کِٹس کی تیاری کی رپورٹس منظرعام پر آنے کے بعد بھارتی اپوزیشن کے قانون ساز سشی تھرور کا اپنے ٹوئٹر پیغام میں کہنا تھا کہ ‘یہ غلط ترجیحات کی بدترین مثال ہے، کیا ریاستی وسائل صرف کرنے کے لیے گوشت کی شناخت کرنے والی کٹس سے اہم اور کچھ نہیں؟’۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے