بھٹو صاحب! یہ راستہ دلوں تک نہیں جاتا

پاکستان پیپلز پارٹی اپنے تن نیم مردہ میں جان ڈال سکے گی یا نہیں؟ اہل علم سے لیکر اہل سیاست تک سبھی اپنی دانش کے مطابق اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کرتے دیکھائی دیتے ہیں خاص کر جب بلاول بھٹو زرداری بھرپور سیاسی اننگز کا آغاز کر چکے ہیں۔وقت کے ساتھ تربیت بھی ہوگی لیکن سر دست بلاول بھٹو کو جو سنگین مسلہ درپیش ہے وہ از سر نو پیپلز پارٹی کی سیاسی ترجیحات کا تعین ہے۔ بے نظیر بھٹو کی شہادت کے ساتھ ہی بلاول بھٹو نے پارٹی چئیرمین کا عہدہ تو سنبھالا لیکن پیپلز پارٹی کے وفاق میں پانچ سالہ دوراقتداراور سندھ میں اب تک سات سالہ اقتدار کے دوران بحیثیت پارٹی چئیرمین کسی موقع پر بھی وزاء سے کارکردگی پر جواب طلبی نہ کر سکے۔

پیپلز پارٹی دو ہزارآٹھ سے دوہزار تیرہ تک پانچ سال کیا کرتی رہی بلاول بھٹو نے اس پر آنکھیں بند رکھیں جو بحثیت چئیرمین سنگین غفلت تھی۔یوں پارٹی اور حکومت دنوں کو والد آصف علی زرداری ا ور پھوپھی فریال تالپور نے سنبھالے رکھا۔وزیراعظم سے لیکر وزرا ء تک ہی نہیں افسر شاہی نے بھی قومی خزانے کو اس سفاکی کے ساتھ لوٹا کہ سن کر رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔مفاہمت کے نام پر جس نے جو مانگا قوم کے خزانے سے ادا کر دیا گیا لیکن عوام کو کیا دیا جا رہا ہے بلاول بھٹو نے اس کی باز پرس نہیں کی۔ لیکن باقول چوہدری شجاعت ۔مٹی پاو۔ کیوں کہ یہاں مستقبل کی بات کرنا مقصود ہے ،ماضی کا حساب ویسے بھی پیپلز پارٹی سے دو ہزار تیرہ کے عام انتخابات میں عوام نے لے لیا ۔رہی پیسے کی برآمدگی کہ کس نے کتنا کھایا تو وہ سیاستدانوں سے لیکر افسر شاہی اور جنرلوں سے لیکر ججوں تک،کسی سے نہ آج تک واپس ہوا نہ ہوگا، چاہیے کتنے ہی پانامہ پیپرز سامنے نہ آجائیں۔

سوال یہ ہے کہ پارٹی کو پھر سے زندہ کرنے کے لیے نوجوان چئیرمین کے کیااقدامات ہو سکتے ہیں جو کارکنوں اور قوم کو واضح پیغام دیں کہ آکسفورڈ کا پرھا لکھا نوجوان بھٹو حقیقت پسند ہے،اسے پیپلز پارٹی کی ماضی قریب کی سنگین غلطیوں کا ادراک ہے ۔ اس کام کے لیے کوئی غیر معمولی ذہانت درکار ہے نہ سو چنے میں اردو زبان پر عبورنہ ہونا کوئی رکاوٹ ۔ بلاول بھٹوکوپیپلزپارٹی پر کرپشن کے الزامات سے جان چھوڑانا ہوگی اور عوام کو یہ بات باور کرانی ہوگی کہ اسے کرپشن سے نفرت ہے اور عوامی فلاح کے منصوبوں کے ذریعے محروم طبقات کا معیار زندگی بلند کرنا اس کیاولین ترجیح ہے۔

پیپلز پارٹی کے چئیرمین کوبتانا ہو گا کہ دوسری سیاسی جماعتوں بالخصوص عمران خان کے مقابلے میں اس کے پاس عوام کو دینے کے لیے کیا ہے؟ چالیس سال پرانے نعروں میں جیالوں کے لیے کوئی چاشنی ہے نہ عام طبقات کے لیے۔ تحریک انصاف وہ جماعت ہے جس نے پاکستان پیپلز پارٹی کے ووٹ بنک کوسوائے سندھ کے ہر جگہ ناقابل تلافی حد تک نقصان پہنچایا ، اس حقیقت کو سامنے رکھ کر متبادل بیانیہ دینا پڑے گا۔

کیابلاول بھٹو کی اب تک کی سیاست پاکستان پیپلز پارٹی کے عام کارکنان سے لیکر جیالے قائدین کو کوئی امید دلا سکی یا نہیں۔ حقیقت پسندی سے اس کا تجزیہ کریں تو جواب نفی میں ہے۔یہ کہنا سو فیصد درست ہوگا کہ چند دنوں میں بلاول بھٹو دودھ اور شہد کی نہریں نہیں بہا سکتے تھے۔وہ کراچی میں جہاں ان کی حکومت ہے وہاں امن و امان کی صورتحال ٹھیک نہیں کر سکتے تھے۔راتوں رات سندھ کے لوگوں کو صحت تعلیم کی بنیادی سہولیات فراہم نہیں کر سکتے، کراچی شہر کے سالانہ چودہ ارب روپے سے زائدکے بجٹ کے باوجود کراچی کا کچہرا بھی نہیں اٹھا سکتے ، کراچی شہر کے اسپتالوں سے لیکر مٹھی کے اسپتال تک سسکتی زندگیوں کو بھی بچا نہیں سکتے ، لیکن سمت کا درست تعین کر کے واضح پیغام تو دیا جا سکتا ہے۔ ایسا پیغام جو پیپلز پارٹی کے تن نیم مردہ میں جان ڈالنے کا موجب بنے۔

بلاول بھٹو اپنے اقدامات سے عوام کو بتا سکتے ہیں کہ سندھ سے لیکر آزادکشمیر تک جہاں بھی پیپلز پارٹی کی حکومتیں ہیں وہ عوام کے سامنے جوابدہ ہیں اور اب ایک روپے کی کرپشن بھی برداشت نہیں کی جائے گی،جس وزیر پر کرپشن کا الزام بھی لگا اسے تحقیقات تک عہدے سے الگ کر دیا جائے گا۔سندھ کے وڈیروں کو پیغام دیا جا سکتا ہے کہ اپنی جیلوں میں قید ہاریوں کو نہ صرف آزاد کر دو بلکہ ان کی زمینیں بھی واپس لوٹا دو ورنہ نتائج کے لیے تیار رہو۔اپنے علاقے کا ہر بند اسکول کھول دو جس میں جانور بندھے ہیں اور اس کے نام پر فنڈز سرکاری بابو کھا رہے ہیں۔ وزیر بلدیات کو یہ کہنے میں کیا مشکل کہ انہیں رپورٹ پیش کی جائے کہ سندھ میں پینے کے صاف پانی کی صورتحال کیا ہے ا ور اہداف طے کیے جاہیں کہ کب تک سندھ کے ہر شہری کو پینے کا صاف پانی میسر ہوگا۔لیاری جہاں کے عوام آج بھی پیپلز پارٹی کے لیے جان دیتے ہیں ان کی حالت زار بدلنے کے ہنگامی اقدامات کیے جائیں۔ نیت ہو تو کراچی کا روزانہ بارہ ہزار ٹن کچہرا ٹھکانے کا جامع منصوبہ بنانے میں کون سی راکٹ سائنس چاہیے۔کرپشن کا منہ بند کرکے وسائل کا رخ اسپتالوں کی جانب موڑنا کتنا ایک مشکل کام ہے،لیکن سب کچھ مشروط ہے ایک نئی طرز سیاست کے آغاز سے۔

بلاول بھٹو چاہیں توبے نظیر بھٹو کی طرز پر کارکنان سے ای میل کے ذریعے روابط کو موثر بنایا جا سکتا ہے،خود بھی کارکنان اور عوام کی ای میلز کو دیکھا جائے اور کراچی میڈیا سیل میں ایک ڈیسک بنا دیا جائے جو روزانہ کی بنیاد پرکارکنوں کی ای میلز بلاول بھٹو تک پہنچائے اور ہدایت کے مطابق ان کا جواب دے۔صرف ٹویٹس سے کمپنی کی مشہوری توہو سکتی ہے پارٹی کو کوئی فائدہ پہنچنا ممکن نہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کئی علامتی اقدامات بھی کیے جا سکتے تھے جو نوجوان لیڈرکا مثبت امیج ابھارنے میں معاون ثابت ہوں لیکن سب کچھ اس کے برعکس ہو رہا ہے۔

بلاول بھٹو کے پاس سیکھنے اور عملی اقدامات کرنے کے لیے وقت بہت کم اور چیلنجز بے شمار ہیں۔انہیں یہ بات یاد رکھنی ہوگی کہ بے نظیر بھٹو نے جب سیاست میں قدم رکھا تو حالات مشکل ضرور تھے لیکن ذوالفقار علی بھٹو کی شہادت کے بعد عوام کی تمام ہمدردیاں پیپلز پارٹی کے ساتھ تھیں اور جب وہ پاکستان آئیں تو عوام نے انہیں ایک نہیں دور بار مسند اقتدار پر بٹھا دیا۔پرویز مشرف کے طویل اقتدار کے بعد جب بے نظیر بھٹو وطن آئیں تو عوام ایک بار پھر طویل آمریت سے اْکتا چکے تھے اور پھر ان کی شہادت نے پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر اقتدار دلا دیا۔لیکن پہلی بار جب کارکردگی کی بنیاد پر اقتدار کے حصول کا مرحلہ آیا تو سندھ کے علاوہ تینوں صوبوں سے پارٹی کا صفایا ہو گیا۔

بلاول بھٹو کو اگر پاکستان پیپلز پارٹی کو ایک بار پھر ملک گیر جماعت بنانا ہے تو ان کے پاس روایتی سیاست کی اب کوئی گنجائش نہیں،انہیں دن رات غیر روایتی سیاست کرنی ہوگی۔پارٹ ٹائم اور روایتی سیاست پیپلز پارٹی کوپھر سے اپنے پاوں پر کھڑا کرنے کے لیے کسی طور درست انتخاب نہیں۔ انہیں یاد رکھنا ہوگا کہ سوشل میڈیا پر ان کے ٹویٹ اور جلسوں میں زمینی حقائق سے ہٹ کر تقریوں کی ستائش ان کے آس پاس منڈلاتے چند اشخاص ہی کریں گے عوام کو سروکار نہیں۔

عوام کے دل جیتنے کا صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ کرپشن پر کوئی سمجھوتا ہونہ عوامی فلاح کے منصوبوں پر۔پھر سے اقتدار کا خواب دیکھنے اور پیپلز پارٹی کو عوامی جماعت بنانے کے لیے سندھ کو صحت ،تعلیم ،امن و امان اور طرز حکمرانی ،ہر اعتبار سیپنجاب اور خیبرپختونخواہ سے بہتر بنانا ہوگا۔ بصورت دیگر بائیں بازوں کی واحد جماعت جو دہشتگردوں اور شدت پسندی کے خلاف پاکستانی عوام کی موثر ترین آواز ہے، قصہ ماضی بن جائے گی،اور اس میں بھی نقصان پاکستان کے عوام کا ہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے