بین المذاہب ہم آہنگی کا فروغ کیسے ممکن ہے؟

ادارہ امن و تعلیم کے زیرِ اہتمام بین المذاھب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے 26 تا 28 اپریل 2016 کو ہل ویو ہوٹل، اسلام آباد میں تین روزہ ورکشاپ کا انعقاد کیا گیا، جس میں ہندو، سکھ، مسیحی مذاہب کے نمائندگان کے علاوہ مسلمانوں کے مختلف مسالک، دیوبندی، بریلوی، اہل حدیث اور اہل تشیع کے علماء نے بھی شرکت کی۔ تقریباً 30 افراد اس پروگرام سے مستفید ہونے کے لیے جمع تھے۔ منتظمین نے تحریری نصاب کے ساتھ جدید سمعی ،بصری آلات اور عملی سرگرمیوں کے ذریعے بین المذاھب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے شرکاء کی ضروری تربیت کرنے کی بھرپور کوشش کی۔ محمد حسین, محمد رشید اور غلام مرتضی صاحب نے سہولت کار کے فرائض انجام دئیے۔ انہوں نے عمدہ سلائیڈیں تیار کی تھیں، نیز سرگرمیاں بھی خاصی دلچسپ تھیں۔

اس طرح کی کانفرنس میں شرکت کا یہ میرا پہلا موقع تھا۔ مختلف مذاھب اور مسالک کے افراد سے ملنا اور ان کے عقیدوں اور عقیدتوں کے بارے میں جاننا اور اپنے عقیدے کے ساتھ ان کی جذباتی وابستگی کا مشاہدہ اور تجزیہ کرنا میرے لیے ہمیشہ سے دلچسپ رہا ہے۔ میرا تاثر ہے کہ لوگوں کی اپنے عقائد سے عقیدت کی وجہ مذہبی سے زیادہ ایک سماجی رویہ ہے۔ اس کی وجوہات میں مذہب سے محبت سے زیادہ اپنی سماجی شناخت کا احساس اور دوسروں سے امتیاز کو قائم رکھنے کی شعوری اور غیر شعوری کوشش، دیگر سماجی گروہوں سے خدشات اور اس کے نتیجے میں پیدا ہونے والے عدم تحفظ کے احساس کی وجہ سے اپنے گروہ کے لیے عصبیت کا پیدا ہونا تاکہ گروہی تحفظ حاصل کیا جا سکے، وغیرہ شامل ہیں۔ اقلیتی گروہوں میں مزاحمت کی نفسیات بھی اس کی ایک وجہ ہوتی ہے۔ کمزور ہو کر اقلیت کا دباؤ کا مقابلہ کرنا ہیروازم پیدا کرتا ہے، انسان اس کے لیے جان دے کر شہید کہلانا پسند کرتا ہے۔ تعجب کی بات یہ ہے کہ وہ انسان جو اپنے مذہب یا کسی سماجی شناخت یا نظریہ کے لیے جان تک دینے کے لیے تیار ہوتا ہے، اپنی مذھب یا نظریہ سے عموماً زیادہ واقف نہیں ہوتا یا اس کی مکمل سمجھ نہیں رکھتا۔ چنانچہ مذھبی گروہ ہو یا سیاسی، ان کے جیالوں اور شہداء میں سادہ لوح افراد کی اکثریت عام مشاہدہ کی بات ہے۔ یہ افراد کسی گروہ کا حصہ بن کر اپنی شناخت کی ضرورت کو پورا کرنا چاہتے ہیں، اپنے عدم تحفظ کا مداویٰ چاہتے ہیں ،اور طرفہ تماشہ یہ ہے کہ اسی تحفظ کی خاطر جان بھی دے دیتے ہیں جس کے حصول کے لیے وہ گروہ میں شامل ہوتے ہیں۔

بہرحال، کانفرنس میں تمام افراد سے ان کا اور ان کے مذاہب اور مسالک کا ابتدائی تعارف ہوا۔ شرکاء نے ایک دوسرے کے مذاہب اور مسالک کے بارے میں مختصر سوالات بھی کیے، اکثر سوالات کے جوابات سے معلوم ہوا یہ سوالات ایک دوسرے کے بارے میں غلط تاثر کا نتیجے ہیں جو بالعموم غیر محتاط مقرر ین اور زبانی روایات کے ذریعے پھیل جاتے ہیں اور دیگر افراد ان کے بارے میں تحقیق اور تفتیش کی ضرورت محسوس کیے بغیر ان کو باور کر لیتے ہیں۔ مثلاً میں نے ہندو نمائندے جگموہن کمار اروڑہ صاحب سے پوچھا کہ آپ کے مذہب میں طبقاتی تقسیم کیوں ہے؟ کیا آپ کا دھرم شودروں کو بھگوان کی عبادت کا حق نہیں دیتا، جیسا کہ ہم نے پڑھا کہ تھا کہ شودروں کے لیے ہندوؤں کی مقدس کتابوں کو چھونا تو درکنار اگر وہ غلطی سے سن بھی لیں تو اس پر ان کو سزا دی جاتی تھی۔ اس پر جگموہن صاحب نے بتایا کہ عبادت کا حق دھرم نے کسی سے نہیں چھینا۔ نیز، طبقاتی تقسیم کی وجہ مذہبی سے زیادہ سماجی ہے، جیسے مسلمانوں کے ہاں مساوات کی تعلیم کے باوجود، کسی سید زادی کا نکاح کسی موچی سے کرنا عملاً ممکن نہیں۔ دوسرے ہندو نمائندے، جے رام پجاری نے اضافہ کیا کہ ہندو مت میں جو تقسیم ہے وہ پیشہ ورانہ بنیادوں پر بنائی گئی تھی، لیکن سماجی رویوں نے اسے کچھ کا کچھ بنا دیا۔ ان کی بات معقول معلوم ہوئی، یہ طبقاتی تقسیم اسی شدت سے مسلمانوں میں بھی پائی جاتی ہے اور یقیناً یہ سماجی رویہ ہی ہے۔

مسیحی نمائندے ریورنڈ حرمون ہیرالڈ صاحب نے جب بھی خطاب کیا، آغاز السلام علیکم سے کیا اور بتایا کہ یہ الفاظ بائبل میں استعمال ہوئے ہیں۔ مسیحی نمائندگان نے بتایا کہ ان کو ‘عیسائی’ کہلوانا پسند نہیں۔ ان کو مسیحی کہا جائے۔ اگرچہ مسلمان لفظ عیسائی کو کسی منفی تاثر کے ساتھ نہیں بولتے، تاہم انہیں ایسا پسند نہیں تو ان کے اس مطالبے کا احترام کرنا چاہیے۔

سکھ برادری کے نوجوان نمائندے کرپال سونو نے کہا کہ نصاب میں سکھوں کا تعارف تقسیمِ ہند کے حوالے سے بہت غیر محتاط انداز میں درج ہوتا ہے، سکھوں کے مظالم کو بہت سخت الفاظ میں لکھا گیا ہے، چنانچہ جب سکھ طلبہ مسلمان طلبہ کے ساتھ مطالعہ پاکستان پڑھتے ہیں تو بہت خوف کا شکار رہتے ہیں۔ انہوں نے یہ دلچسپ بات بھی بتائی کہ محاورہ: ‘سکھوں کے بارہ بج جانا’ کا تاریخی پسِ منظر کیا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ افغانستان سے حملہ آور آتے تھے اور پنجاب اور ملحقہ علاقوں میں لوٹ مار کرتے اور خواتین کو اٹھا کر لے جاتے، اس کی روک تھام کے لیے سکھوں نے اپنے نجی جتھے تیار کیے اور رات کو جب حملہ آور آتے تو یہ جا کر ان سے مقابلہ کرتے۔ چنانچہ مشہور ہو گیا کہ رات بارہ بجیں تو سکھوں کا دماغ چل جاتا ہے۔

مسلمانوں کے مختلف مسالک کے نمائندگان کا آپس کا ماحول بہت بے تکلف اور دوستانہ رہا۔ آپس میں دلچسپ جملوں کا تبادلہ بھی ہوتا رہا۔ مردان کے دیوبندی عالم، رومان حکیم صاحب نے اپنے دلچسپ بیان سے بہت محظوظ کیا۔ کہنے لگے ،”تم ہم سے پوچھنے ہو، مدرسے والو، تم نے سائنس میں ترقی کیوں نہیں، ایٹم بم، ہائیڈروجن بم کیوں نہیں بنایا۔ میں تم سے کہتا ہوں کہ یہ سوال پوچھنا ہے تو یونیورسٹی والوں سے پوچھو۔ ہمارے ذمے تو مولوی تیار کرنا تھا، اور اس میں ہم خود کفیل ہیں، سائنس کا ذمہ تم نے لیا تھا، کیا تم سائنس میں خود کفیل ہو؟ سارا بجٹ تو یونیورسٹی میں دیتے ہو، اور ہمیں دس بیس روپے چندہ دیتے ہو، دس بیس روپے میں ایٹم بن بنتا ہے کیا؟ ” ساری محفل کشتِ زعفران بن گئی، اس پر میں نے عرض کیا، "مولوی صاحب یہ تو بنجا کہ آپ نے ایٹم بم نہیں بنایا، ہائیڈروجن بم نہیں بنایا، لیکن آپ نے خود کش بم تو بنایا ہے نا!” اس پر ہال قہقہوں سے گونج اٹھا۔
اہل تشیع کے بارے میں عوامی سطح پر پائی جانے والی غلط فہمیوں اور منفی تاثرات کا بہت عمدہ طریقے سے جناب ڈاکٹر ندیم عباس صاحب نے جواب دیا۔ مثلاً مسجد اور امام بارگاہ کا فرق بتایا کہ مسجد عبادات کے لیے مخصوص ہے اور امام بارگاہ ان کی کمیونٹی کا سماجی مرکز (community center) ہوتا ہے۔ جہان تو مذھبی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ اہل تشیع کے بعض مقبول عوامی مذھبی رسموں کو انہون نے صحیح علم و روایت پر مبنی ہونے کے سماجی رسمیں قرار دیا۔
دیوبندی، اہلِ حدیث اور بریلوی حضرات پر کوئی قابلِ ذکر اعتراض یا سوالات نہیں ہوئے۔ کانفرنس کے دوران طاہر اسلام عسکری صاحب نے بہت فکر انگیز نکات اٹھائے، جن پر وقت کی قلت کی وجہ سے بات کرنا ممکن نہیں تھا، امید ہے کسی مجلس میں ان پر تفصیل سے بات ہوگی۔
سب لوگ بلا امتیاز مختلف سرگرمیوں میں ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوتے رہے۔ سب شرکاء نے زور دیا کہ ایک دوسرے کو بدلنے کی بجائے ایک دوسرے کو سمجھنے پر توجہ دی جائے۔ آخر میں یہ طے ہوا کہ سب ایک دوسرے کو اپنے اپنے اجتماعات میں بلایا کریں گے، تاکہ یہ ہوٹل اجتماع عوام میں بھی اپنا اظہار پیش کرے۔ کچھ حضرات البتہ اس کے حق میں نہیں تھے کہ غیر مسلموں کے ساتھ مذھبی تہواروں میں شرکت کی جائے۔ میں نے عرض کیا کہ اجتماعات کے علاوہ ہمیں غیر مسلموں سے سماجی سطح پر دوستانہ روابط بھی استوار کرنے چاہیں اور ان کے دکھ سکھ میں بھی ایسے ہی شریک ہونا چاہیے جیسے ہم اپنے ہم مذھب افراد کے ساتھ کرتے ہیں۔
کانفرنس مجموعی طور پر کارآمد اور کامیاب رہی۔ البتہ یہ محسوس ہوا کہ سرگرمیوں کی کثرت کی وجہ سے کانفرنس کا اصل مقصد یعنی مختلف مذاھب اور مسالک کے افراد کو ایک دوسرے کے مذاھب اور رویوں کے سمجھنے میں مدد دینا اور ایک دوسرے کے قریب لانا، کافی متاثر ہوا۔ سوالات کا موقع نہیں دیا گیا۔ جس کی وجہ سے بہت سی باتوں کی تفہیم جو کہ ضروری تھی ، تشنہ رہ گئی۔ اگر یہ کہا جائے کہ خود قلم و قرطاس اور سہولت کار شرکاء کے درمیان حجاب بنے رہے تو غلط نہ ہوگا۔ غیر مسلم اقلیت کو لاحق خدشات، اور ان سے جڑے نازک مسائل مثلاً توہین رسالت وغیرہ کے بارے میں کوئی بات نہیں کی جا سکی۔ اس کے علاوہ میں نے قادیانیوں کو بھی بطور ِ گروہ ،خواہ غیر مسلم گروہ ہی کے طور پر، مکالمہ اور دعوت کا مخاطب بنانے اور ان کے ساتھ بائیکاٹ ختم کرنے کی بات کی لیکن اس بات کو پذیرائی نہ مل سکی، البتہ بعض افراد نے تائید کی۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے