بیگم جان، تقسیم ہند اور طوائف کا کوٹھا

تین روز قبل ریلیز ہونے والی بالی ووڈ فلم "بیگم جان” ایسے ظلم و ستم کی کہانی ہے، کوٹھے کو سنبھالنے والی بیگم جان جہاں مظلوم لڑکیوں کو پناہ دیتی ہے وہیں اُن کو اپنے ماتحت رکھنے کی خواہش مند ہوتی ہے، تقسیم برصغیر کے وقت بیگم جان کا کوٹھا سرحد کی لکیر کے آڑے آرہا ہوتا ہے۔

فلم میں دکھایا گیا ہے کہ کانگریس کے وہ لوگ جو بیگم جان کے گھر اپنی ہوس پوری کرنے آتے تھے اور اُس کی محبت کا دعویٰ کرتے تھے وہی لوگ تقسیم ہند کے وقت مخالفت میں کھڑے ہوگئے کیونکہ بیگم جان اس تقسیم کی حمایت میں نہیں تھی۔

ایک فیصلے کے بعد جب ایک ہی ملک دو حصوں میں تقسیم ہوا تو دو دھڑے سامنے آگئے، ایک وہ جو ہندوستان کی تقسیم چاہتا تھا اور دوسرا اس تقسیم کا حامی نہیں تھا، تقسیم کے حامیوں کو سرکار نے وسائل فراہم کیے اور وہ مخالفت کرنے والوں پر حملے کرتے رہے تاکہ فیصلے پر مکمل عملد درآمد کروایا جاسکے۔

فلم کی اصل کہانی ابتدائی بیس منٹ کے بعد شروع ہوتی ہے کہ جب ریڈیو پر تقسیم کا اعلان ہوجاتا ہے اور لوگ جشن منانا شروع کردیتے ہیں، اسی دوران بیگم جان کے کوٹھے پر ماسٹر صاحب کی آمد ہوتی ہے اور وہ جشن پر خوش نہیں ہوتی۔

جن لوگوں کو تقسیم ہند قبول تھی وہ کسی بھی بہانے سے مخالفین کے گھروں پر حملے کرتے اور اُن پر تشدد کرتے، یوں کہا جائے کہ فلم میں تقسیم کے وقت کے مظالم عکس بند کیے گئے ہیں تو غلط نہ ہوگا۔ ہاں مگر فرق اتنا ہے کہ اس کہانی کا کردار صرف ایک طوائف کے کھوٹے تک محدود رکھا گیا ہے۔

کانگریس کے لوگوں اور تقسیم کے حامیوں کے لیے یہ بات بھی تشویشناک تھی کہ اُن کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں بیگم جان کے کوٹھے پر آتے جاتے تھے، ایک وقت میں ایسی صورتحال سامنے آئی کہ سرکار نے بیگم جان کو کوٹھا خالی کرنے کے احکامات دیے مگر اُس نے صاف انکار کردیا۔

کہانی

کہانی کے ڈائیلاگ کوثر منیر نے ترتیب دیے۔ فلم کی ابتداء معاشرے کی ایسی حقیقتیں بیان کی گئی ہیں جو شاید ہضم کرنا بہت مشکل ہیں، تاہم اس کی کہانی ان حقیقتوں سے شروع ہوکر تقسیم برصغیر پر ختم ہوتی نظر آتی ہے۔ ماؤنٹ بیٹن کی تقسیم کا فیصلہ اور سرحدوں پر کام کرتے ہوئے سرکاری افسران کو دکھایا گیا ہے۔

بیگم جان کا کوٹھا تقسیم ہند کے بعد سرحد پر بجائی جانے والی لکیر میں رکاوٹ بنتا ہے تو ہندو سرکار کی جانب سے اُس پر مکان خالی کرنے کےلیے دباؤ ڈالا جاتا ہے، کانگریس کے کارکن طوائف سے تعلقات کی بنیاد پر اُسے قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں مگر وہ اپنی جگہ چھوڑنے سے صاف انکار کردیتی ہے۔

سرکار کے دباؤ پر بیگم جان موقف اختیار کرتی ہے کہ وہ رانی جھانسی کی طرح جان دینے کو فوقیت دیتی ہے اور قائل کرنے والے افسران کو صاف انکار کے ساتھ واپس بھیج دیتی ہے۔

تقسیم کی حامی سرکار کو ہر صورت گھر خالی کروانا ہوتا ہے تو وہ کرائے کے بلوائیوں کو اس کام کی ذمہ داری سونپ دیتی ہے اور وہ لوگ بیگم جان کے گھر پر حملہ کر دیتے ہیں، افسران کے گھر آنے کے بعد بیگم جان ہتھیار چلانے کی ٹریننگ حاصل کرتی ہے اور کوٹھے میں کام کرنے والی خواتین کو بھی اس کی تربیت دیتی ہے۔

بلوائیوں کے حملہ کرنے پر انہیں سخت مزاحمت کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاہم سرکاری مشینری کی وجہ سے وہ کامیاب ہوجاتے ہیں اور بالآخر بیگم جان کا گھر ختم کر کے وہاں سرحد کی لکیر کھینچ دی جاتی ہے۔

ہدایت کاری

وشیش فلم پروڈیکشن کے بینر تلے بننے والی فلم کی ہدایتکاری مُکیش بھٹ نے کی، فلم کو بہتر انداز میں پیش کرنے کے لیے کاسٹیوم، سیٹ ، کیمرہ مینگ اور فوٹو گرافی کا شاندار استعمال کیا گیا۔ پردے کے پیچھے آنے والی آوازوں کے لیے امیتابھ بچن کی آواز کو منتخب کیا گیا جس نے فلم میں جان ڈال دی۔

چونکہ یہ فلم بنگالی زبان میں بننے والی "راج کہانی” کا ری میک ہے اس لیے کئی مناظر میں بنگلہ کی ثقافت بھی دکھائی دی مگر مجموعی طور پر ہدایت کاری اچھی رہی۔

اداکاری

مجموعی طور پر بیگم جان کا کردار ادا کرنے والی ودیا بالن منفرد کردار ادا کرتی نظر آئیں، کئی مواقعوں پر اُن کے کرداروں میں جھول نظر آئے جس کے باعث وہ طوائف کا کردار مکمل طور پر ادا کرنے میں ناکام دکھائی دیں تاہم اُن کے ساتھ کوٹھے پر کام کرنے والی دیگر اداکاراؤں نے ادھورا کردار ادا کیا۔

سرکاری افسران کا کردار ادا کرنے والے دونوں فنکاروں نے اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا اور چنکی پانڈے نے بھی منفی کردار خوب جم کر کیا جبکہ کوٹھے پر کام کرنے والی صرف دو خواتین اور ایک بچی اپنے کرداروں نے متاثر کرنے میں کامیاب رہیں۔

کردار

ودیا بالن (بیگم جان)، عائلہ ارون ( آمنہ)، گوہر خان (روبینہ)،پلاوی شردھا ( گلابو)، پریانکا سیٹھیا (جمیلہ)، ردہیمہ تیوارے ( امبہ)، فلورا سائینی (مانیہ)، رافضاؤ چوہان( لتا)، پونم راجپوت ( رانی)، مشتی (شبنم)،سومیت نوجوہان( سلیم مرزا)، چنکی پانڈے (کبیر)،راجیت کپور (الیاس)،راجیش شرما(شایام)،نصیر الدین شاہ (راج اجی) سمیت دیگر فنکاروں نے اپنی اداکاری کے جوہر دکھائے۔

میوزک

فلم کا میوزک معروف بالی ووڈ کمپوزر (انوملک) نے تیار کیا، جبکہ اس میں آشا بھوسلے، سونو نگھم، راحت فتح علی خان، ارجیت سنگھ، شریا گھوشال، کوتیا سیٹھ اور راجیت سنگھ وغیر نے اپنی آواز کا جادو جگایا۔ ساحر لدھیانوی کی مشہور زمانہ نظم "وہ صبح کبھی تو آئی گی” کو بھی فلم میں بطور گیت شامل کیا گیا ہے مگر اس کے پہلے مصرے کو تبدیل کردیا گیا۔

ساحر لدھیانوی کی یہ نظم 1958 میں بننے والی فلم” پھر صبح ہوگی” میں شامل ہوچکی ہے، اُس وقت اس نظم کو آشا بھوسلے اور مکیش آور نے گایا تھا۔

ری ویو

فلم کی کہانی کے لیے ایسا موضوع منتخب کیا گیا ہے جو پڑھنے اور سننے میں کافی اچھا لگتا ہے، فلم کے دوران کئی ایسے مناظر بھی ہیں جس کی وجہ سے دل کو تکلیف بھی پہنچی اور عقل نے ساتھ دینا چھوڑ دیا کیونکہ یہ تقسیم برصغیر ایسی تلخ حقیقت ہے جس سے باہرنکلنے میں ابھی کئی نسلوں کا گزرنا باقی ہے۔

عمومی طور پر فلم جذباتی مناظر سے بھر پور ہے اور کہانی کی بنیاد پر یہ لوگوں کو متاثر کرنے میں کامیاب ہوسکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے