بے روزگاری کے شکار پاکستانی نوجوان

ایک اندازے کے مطابق پاکستا ن میں ہر سال 20 لاکھ نوجوان یونیورسٹی کی تعلیم مکمل کر کے ملازمتوں کی تلاش کی دوڑ میں شامل ہورہے ہیں جبکہ پاکستان کی معیشت کی سالانہ شرح نمو محض تین سے چار فی صد ہے ۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ اتنی زیادہ آبادی کے ملک میں بے روزگاری کو ختم یا کم سے کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ اس کی سالانہ شرح نمو سات فی صد یا اس سے زیادہ ہو۔

اوپر ذکر کیے گئے اعدادو شمار میں وہ لاکھوں طلباء شامل نہیں جو ہر سال ملک کے طول وعرض میں پھیلے مذہبی تعلیمی اداروں سے تعلیم مکمل کر کے آتے ہیں۔جرائد واخبارات میں سامنے آنے والی مختلف رپورٹس میں اکثر ان طلباء کا ذکر نہیں ہوتا حالانکہ نوجوانوں کا یہ طبقہ بھی بے روزگاری کے اعتبار سے شدید مسائل کا شکار ہے۔ مذہبی تعلیمی اداروں کی رجسٹریشن کا عمل تو شروع ہو گیا ہے مگر ابھی تک حکومت اور ان اداروں کے ارباب ِ بست وکشاد کسی ایسے نصاب تعلیم پر متفق نہیں ہوسکے ہیں جو ان طلباء کو تحصیل علم سے فراغت کے بعد روزگار کے مواقع فراہم کر سکے ۔

پاکستان زیادہ افرادی قوت کے اعتبار سے دنیا میں دسویں نمبر پر ہے لیکن مارکیٹ میں اتنی بڑی افرادی قوت کی خاطر خواہ کھپت نہیں ہے۔ ہمارے ہاں یونیورسٹی سے ڈگری حاصل کرنے والے نوجوان اپنے مستقبل کے بارے میں غیر یقینیت کا شکار رہتے ہیں ۔ المیہ یہ ہے کہ بہت سے نوجوانوں کو حالات سے مجبور ہو کر ایسی ملازمتیں کرنا پڑتی ہیں جو ان کی ڈگری سے مناسبت نہیں رکھتیں ۔ اس طرح ملک اور معاشرہ ان کی بہترین صلاحتیوں کے ثمرات سے محروم رہ جاتا ہے۔ جب یہ نوجوان صحت اور توانائی سے بھرپور ہوتے ہیں تو انہیں ملازمت نہیں ملتی اور جب کبھی کسی سرکاری ادارے میں روزگار کا موقع ملتا ہے تو عمر نکل چکی ہوتی ہے۔

دیہی علاقوں کی حالت تو بہت ہی تشویش ناک ہے۔ ان علاقوں میں بسنے والے نوجوانوں کی اکثریت نسبتاً کمزور معاشی پس منظر کی حامل ہوتی ہے۔ یہ نوجوان بھاری خرچ اٹھا کر شہروں میں تعلیم کے حصول کے لیے آتے ہیںلیکن ڈگری کی تکمیل کے بعد انہیں بہتر مستقبل کی کوئی راہ سجھائی نہیں دیتی۔

اب ایک اور منفی رجحان سامنے آیا ہے کہ دیہی علاقوں کے ڈگری یافتہ نوجوان شہروں میں مناسب روزگار کی عدم یابی کے باعث مایوس ہوکر واپس اپنے گاؤں کی طرف لوٹ رہے ہیں جہاں ان کے سامنے ترقی کے کوئی امکانات نہیں ۔ جن نوجوانوں کے پاس مناسب زرعی زمین موجود ہے وہ تو کسی نہ کسی طرح اپنی زندگی کی گاڑی کو رواں رکھ ہی لیں گے مگر دوسرے بہت سے غریب نوجوانوں کا مستقبل فی الوقت ڈانواں ڈول نظر آ رہا ہے۔

اس صورتحال میں حکومت کی کارکردگی پر سوال یقینا اٹھتا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ یونیورسٹیوں میں تعلیم کے معیار کی کمی کو بھی کسی صورت نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ جب ہم مارکیٹ کے لوگوں سے بات کرتے ہیں تو اکثر کا جواب ہوتا ہے کہ یونیورسٹیوں سے ڈگریاں لے کر آنے والے طلباء کی اکثریت کام کی سوجھ بوجھ نہیں رکھتی۔

نتیجتاً ان ڈگری بردار نوجوانوں کی نئے سرے سے عملی تربیت کرنا پڑتی ہے جس کے بعد وہ باقاعدہ طریقے سے کسی پروفیشنل ادارے میں خدمات سر انجام دینے کے قابل ہو پاتے ہیں ۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کی تعلیمی اداروں میں تھیوری پر زیادہ زور دیا جا رہا ہے مگر علم کی عملی تطبیق کا خاطر خواہ انتظام نہیں ہے۔ یہ درست ہے کہ یونیورسٹیوں کے بیشتر پروگراموں میں ایک مخصوص مدت کے لیے انٹرن شپ لازمی قرار دی گئی ہے مگر اس کی جانچ کا عمل توجہ چاہتا ہے۔

انٹرن شپ کا بنیادی مقصد یہی ہے کہ طلبا ء کو ڈگری کی تکمیل کے ساتھ ساتھ اپنے شعبے میں عملی کام کے بارے میں خاطر خواہ آگاہی حاصل ہو سکے۔ طلباء اپنی فائنل اسائنمنٹ کے ساتھ انٹرن شپ کی رپورٹس جمع کروا دیتے ہیں اور ان کے آخری امتحانات بھی ہوجاتے ہیں۔ بہت کم ادارے ایسے ہیں جو صرف طالب علم کی رپورٹ پر انحصار کرنے کی بجائے متعلقہ ادارے سے اس کی دوران انٹرن شپ کارکردگی کے بارے میں پوچھ گچھ کر کے اطمینان کریں۔ ظاہر ہے ان حالات میں سوسائٹی میں پروفیشنلز کم ڈگری بردار زیادہ پیدا ہوتے ہیں۔

ایک اور شکایت جو بے روزگار نوجوانوں سے عام سننے کو ملتی ہے کہ جب وہ پروفیشنل اداروں میںکام کے لیے جاتے ہیں تو ان سے متعلقہ شعبے میں تین یا پانچ سالہ تجربے کا مطالبہ کیا جاتا ہے۔ تجربہ نہ ہونے کی صورت میں ان سے ٹریننگ سیشن کے نام پر کئی کئی ماہ تک بلا معاوضہ کام لیا جاتا ہے اور امید دلائی جاتی ہے کہ جلد آپ کی ملازمت پکی ہو جائے گی لیکن کچھ عرصہ بعد ادارے کی جانب سے انہیں بتایا جاتا ہے کہ ہماری پالیسی بدل چکی ہے لہٰذا آپ سے معذرت۔ اس غیر یقینیت کے ماحول میں پاکستانی نوجوان شدید فریسٹریشن کا شکار ہے۔ بہت سے نوجوان پرائیویٹ اسکولوں اور شام میں چلنے والی اکیڈمیوں میں انتہائی معمولی تنخواہوں پر کام کرنے پر مجبور ہو جاتے ہیں جو ظاہر ہے ان کے مستقبل کے خوابوں کو شرمندہ ٔ تعبیر کرنے کے لیے ناکافی ہیں۔

بے روزگاری کے نتیجے میں نوجوان منفی سرگرمیوں میں مبتلا ہو کر ملک و معاشرے کو نقصان پہنچانے کا سبب بھی بنتے ہیں۔ ان کے دل میں سسٹم کے خلاف نفرت اور بغاوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جن کے زیر اثر وہ غیر قانونی شارٹ کٹس کے ذریعے اپنی آرزوؤں کی تسکین کا سامان کرنے لگتے ہیں ۔

ایک فلاحی ریاست میں حکومت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ نوجوانوں کے لیے ایسی تعلیم کا بندوبست کرے جو شعور میں اضافے کے ساتھ ساتھ روزگار کی فراہمی کا سبب بننے کی صلاحیت بھی رکھتی ہو۔ خاص طور پر معاشی اعتبار سے حکومت کو ایسی پالیسیاں ترتیب دینی چاہئیں جن کے تحت زیادہ سے زیادہ افرادی قوت کو بروئے کار لایا جا سکے جس کے نتیجے میں ایک طرف تو معاشرے کی ترقی ممکن ہو گی تو دوسری جانب ایک عام فرد اپنی زندگی سے مطمئن ہو گا۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے