تاوان کی عادت ڈال لو

میرے ایک دوست ملٹی نیشنل کمپنی میں ملازم ہیں‘ بارہ لاکھ روپے تنخواہ لیتے ہیں اور خوشحال زندگی گزار رہے ہیں‘ یہ کل میرے پاس تشریف لائے‘وہ خاصے اداس اور ڈاؤن تھے‘ میں نے وجہ پوچھی تو اداس لہجے میں بولے‘ حکومت نے دوبارہ میرا ٹیکس بڑھادیا‘ میری تنخواہ سے اب 25 فیصد رقم کٹ جائے گی‘ میں نے قہقہہ لگا کر جواب دیا ’’لیکن کیا فرق پڑتا ہے‘ آپ کو پھر بھی نو لاکھ روپے بچ جائیں گے اور یہ پاکستان جیسے ملک میں چھوٹی رقم نہیں‘‘ وہ تھوڑے سے مسکرائے اور بولے ’’مجھے 25 فیصد ٹیکس پر اعتراض نہیں‘ میں ماہانہ 3 لاکھ روپے سے محروم ہونے پر بھی دکھی نہیں ہوں۔

میں اصل میں حکومت کی اپروچ پر اداس ہوں‘ حکومت کو انصاف کرنا چاہیے‘ ظلم نہیں‘‘ میں خاموشی سے ان کی طرف دیکھتا رہا‘ وہ بولے ’’ یہ بیس کروڑ لوگوں کا ملک ہے لیکن ان بیس کروڑ لوگوں میں صرف 70 ہزار لوگ بلند ترین شرح ٹیکس میں آتے ہیں‘ یہ کل آبادی کااعشاریہ صفرتین فیصد بنتا ہے‘ یہ حقیقت کیا ثابت کرتی ہے؟ یہ ثابت کرتی ہے ہمارا ملک صلاحیت اور کاروبار میں دنیا میں بہت پیچھے ہے۔

عالمی معیار کے مطابق ملک میں میری سلیب میں کم از کم ایک کروڑ لوگوں کو ہوناچاہیے تھا لیکن جس ملک میں کل ٹیکس پیئرز 15 لاکھ (0.75فیصد) ہوں وہاں یہ خواب دیکھنا بے وقوفی ہو گی‘ ہم 70 ہزار لوگ ثبوت ہیں ہمارے ملک نے 70 برسوں میں یا تو بلند ترین شرح ٹیکس کے صرف 70 ہزار لوگ پیدا کیے ہیں یا پھر اس ملک میں دس پندرہ یا پچاس لاکھ لوگ بلند ترین سلیب میں ہونے کے باوجود ٹیکس چوری کر رہے ہیں اور حکومت کمزوری یا نالائقی کی وجہ سے ان سے ٹیکس وصول نہیں کر پا رہی‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ’’یہ ستر ہزار لوگ اصل پاکستانی ہیں۔

یہ محب وطن‘ قانون پسند اور ریاست کا احترام کرنے والے لوگ ہیں‘ یہ ملک کو لوٹنے کے بجائے اسے دونوں ہاتھوں سے دے رہے ہیں لیکن ریاست ان کی حب الوطنی اور قانون پسندی کا احترام کرنے کے بجائے ان سے مسلسل زیادتی کر رہی ہے‘‘ میں خاموش رہا‘ وہ بولے ’’یہ لوگ تنخواہ لینے سے پہلے اپنا ٹیکس کٹواتے ہیں‘ یہ ریاست کو ہر سال اپنی پوری آمدنی‘ اپنے سارے اثاثے حتیٰ کہ اپنے گھر کا فرنیچر‘ بیوی کا زیور اور اپنی سواری تک کی تفصیلات بتاتے ہیں لیکن ریاست انھیں بدلے میں کچھ نہیں دیتی۔ میں پانی بھی خرید کر پیتا ہوں‘ میں بچوں کی تعلیم اور صحت کا خرچ بھی ذاتی جیب سے ادا کرتا ہوں‘ میں نے اپنی گلی بھی اپنی رقم سے بنوائی تھی‘ میرا اگر ایکسیڈنٹ ہو جائے تو میں اسپتال بھی خود پہنچتا ہوں۔

میرے گھر چوری ہو جائے‘ میں کسی مقدمے میں مدعی یا گواہ بن جاؤں یا پھر میرے گھر میں بارش کا پانی بھر جائے میں خود ذمے دار ہوں‘ ریاست میری کوئی ذمے داری نہیں اٹھائے گی لیکن یہ ہر ماہ میری تنخواہ سے چپ چاپ 25 فیصد نکال لیتی ہے‘ کیوں؟ ریاست اگر میرے اثاثوں‘ میری انکم میں حصہ دار ہے تو یہ پھر میرے مسائل میں شیئر ہولڈر کیوں نہیں ؟‘‘ میں خاموشی سے سنتا رہا‘ وہ بولے ’’میں تین سال سویڈن میں رہا‘ میں وہاں زیادہ ٹیکس دیتا تھا‘ میری تنخواہ سے چالیس فیصد حصہ ریاست رکھ لیتی تھی لیکن مجھے برا نہیں لگتا تھا‘کیوں؟

کیونکہ حکومت جواب میں مجھے بچوں کی تعلیم‘ صحت کی سہولت‘ صفائی‘ پینے کا پانی‘ بجلی‘ گیس اور سڑک فراہم کرتی تھی‘ مجھے وہاں انصاف بھی ملتا تھا اور پولیس ہو‘ فائر بریگیڈ ہو یا پھر ایمبولینس ہو پوری ریاست میری فون کال کے فاصلے پر ہوتی تھی چنانچہ مجھے وہ چالیس فیصد برے نہیں لگتے تھے‘ میں خوشی خوشی اپنا ٹیکس بھر دیتا تھا لیکن یہاں مجھے 25 فیصد ٹیکس بھی ظلم بلکہ جگا ٹیکس محسوس ہوتا ہے‘ کیوں؟ کیونکہ مجھے جواب میں کوئی بنیادی سہولت بھی نہیں ملتی اور ریاست جہاں چاہتی ہے یہ مجھے سڑک پر کھڑا کر کے بے عزت بھی کر دیتی ہے‘ یہ مجھے چکی میں گیہوں کی طرح پیس کر رکھ دیتی ہے‘ کیا یہ انصاف ہے؟‘‘۔

وہ رکے‘ سانس لیا اور میری طرف دیکھنے لگے‘ میں خاموش بیٹھا رہا‘ وہ تھوڑی دیر انتظار کرنے کے بعد بولے ’’ہم ستر ہزار لوگ اس ملک کے مظلوم ترین لوگ ہیں‘ ریاست ہمیں برسوں سے نچوڑ رہی ہے لیکن یہ ہمارے زخموں پر برف تک نہیں رکھتی‘ پچھلی حکومت نے جاتے جاتے ہم پر احسان کیا‘ یہ انکم ٹیکس کی بلند ترین سلیب کو 15 فیصد تک لے آئی‘ ہم لوگوں نے پہلی مرتبہ سانس لیا لیکن پھر پاکستان تحریک انصاف کی حکومت آ گئی اور اس نے آتے ہی پچھلی حکومت کا ریلیف واپس لے لیا‘ ہمارا ٹیکس 15 سے 25 فیصد ہو گیا‘ آپ خود انصاف کریں‘ میں پورا ٹیکس دے رہا ہوں لیکن میرے دائیں بائیں موجود لوگ مجھ سے اچھی زندگیاں گزارنے کے باوجود ریاست کو دھیلا نہیں دیتے اور ریاست نے ان لوگوں کو پکڑنے کے بجائے میرے گلے کا پٹا مزید ٹائیٹ کر دیا‘ یہ مجھے سانس تک کا موقع دینے کے لیے تیار نہیں‘کیوں؟ کیا وہ لوگ ہم سے اچھے نہیں ہیں جو کیش میں تنخواہ لیتے ہیں‘ کیش میں خریداری کرتے ہیں۔

بڑے بڑے گھروں میں رہتے ہیں‘ ہوائی جہازوں پر سفر کرتے ہیں‘ فائیو اسٹار ہوٹلوں میں کھانا کھاتے ہیں اور مہنگے کپڑے اور مہنگے جوتے پہنتے ہیں لیکن ریاست ان کا بال تک بیکا نہیں کر پاتی‘ الیکشن کمیشن نے انتخابی مہم کے لیے ایم پی اے کے لیے 20 لاکھ روپے اور ایم این اے کے لیے 40 لاکھ روپے کے اخراجات کی حد رکھی تھی‘ آپ کسی ایم پی اے یا ایم این اے کے سر پر قرآن مجید رکھ دیں اور اس سے پوچھیں کیا اس نے الیکشن کے دوران اتنی ہی رقم خرچ کی تھی‘ پارلیمنٹ کے 99 فیصد ارکان کا جواب نفی میں ہو گا‘ آپ کسی بھی ایم این اے یا ایم پی اے کے اثاثوں اور آمدنی کو الیکشن اخراجات‘ ڈیرے کا روزانہ کا خرچ اور اس کے شاہانہ ٹھاٹھ باٹھ کے ساتھ کمپیئر کر لیں آپ کو اکثریت کے اثاثوں اور اخراجات میں فرق ملے گا لیکن ریاست ان کو پکڑنے کے بجائے ہم جیسے لوگوں کی کمر کا بوجھ بڑھا رہی ہے‘کیوں؟

آپ کسی دن وکلاء‘ ڈاکٹروں‘ آئی ٹی اسپیشلسٹ حتیٰ کہ ٹیوشن پڑھانے والے اساتذہ کی آمدنی اور اخراجات کا تقابل بھی کر لیں آپ کو اس میں بھی زمین آسمان کا فرق ملے گا‘ آپ کبھی بازاروں اور مارکیٹوں میں چلے جائیں آپ کو وہاں ہر دکاندار لاکھ دو لاکھ روپے جیب میں ڈالتا ملے گا‘ فروٹ کی ریڑھی والا بھی بڑے شہر سے روزانہ پچاس ساٹھ ہزار روپے کما لیتا ہے۔

پٹواری اور ریڈر کی دیہاڑی بھی مجھ سے زیادہ ہوتی ہے لیکن آپ ان کے ٹیکس گوشوارے نکال کر دیکھ لیں‘ یہ آپ کو کنگلے ملیں گے‘ ریاست آج تک ان کنگلوں کو امیر ثابت نہیں کر سکی‘ آپ کسی دن سرکاری ملازمین کی جاسوسی کرا لیں‘ آپ ان کے اخراجات اور آمدنی کا فرانزک ٹیسٹ کرالیں آپ کا سر شرم سے جھک جائے گا‘ ملک میں قصاب اور نائی بھی لاکھوں روپے کماتے ہیں لیکن آپ کو کوئی نائی اور کوئی قصاب ٹیکس دیتا نظر نہیں آئے گا‘ اسلام آباد ملک کا خوشحال ترین شہر ہے۔

اس شہر کا ہر شخص کروڑ پتی ہے لیکن آپ لوگوں کے ٹیکس گوشوارے نکال کر دیکھ لیں آپ کو اس شہر کی اکثریت بھی غریب ملے گی‘ حکومت آج تک غربت کے لباس میں چھپے ان امراء تک بھی نہیں پہنچ سکی‘ حکومت کے لیے صرف ہم بچے ہیں‘ یہ ہم لوگ ہیںجنھیں حکومت آتے جاتے مزید دو تین جوتے مارتی ہے اور آگے نکل جاتی ہے‘ یہ واپسی پر بھی یہ عمل دہراتی ہیں‘ ملک کی ہر حکومت ٹیکس نیٹ ورک پھیلانے کے وعدے کے ساتھ اقتدار سنبھالتی ہے اور یہ نئے ٹیکس پیئر تلاش کرنے کے بجائے ہمیں دھوپ میں الٹا لٹکا دیتی ہے‘ ہم لوگ آخر کب تک یہ ظلم برداشت کریں گے‘ آخر کوئی حد ہوتی ہے‘ کوئی شرم‘کوئی حیاء یا کوئی ڈی سینسی ہوتی ہے‘ کیا آپ کو صرف ہم ہی ملے ہیں؟‘‘ وہ خاموش ہو گئے۔

میں نے قہقہہ لگایا اور انھیں ایک بت پرست کی کہانی سنانے لگا‘ مدراس میں دو بھائی رہتے تھے‘ چھوٹا بھائی ایک بت کا پجاری تھا‘ وہ روز بت کے سامنے کھڑا ہو کر دعائیں پڑھتا تھا ‘وہ بت کو دودھ سے نہلاتا بھی تھا جب کہ بڑا بھائی بت کے سامنے کھڑا ہو کر اس کا مذاق اڑاتا تھا‘ ایک دن گستاخ بھائی نے بت کے سامنے کھڑے ہو کر بت کو دھمکی دی‘ میں کل تمہیں ہتھوڑے سے کرچی کرچی کر دوں گا‘ بت اس رات چھوٹے بھائی کے خواب میں آیا اور اس سے کہا تمہارا بھائی کل مجھے توڑ دے گا‘ تم نے اگر اسے نہ روکا تو میں تم پر عذاب نازل کر دوں گا‘ تم سسک سسک کر مرو گے۔

چھوٹا بھائی ہاتھ باندھ کر بت کے سامنے کھڑا ہو گیا اور کہا‘ حضور میں تو آپ کا پجاری ہوں‘ آپ مجھے دھمکی دینے کے بجائے اس گستاخ کو کیوں نہیں روکتے‘ آپ اس پر عذاب نازل کیوں نہیں کرتے‘ بت نے یہ سن کر شرمندگی سے سر جھکایا اور بولا‘ میں اس پر عذاب کیسے نازل کر سکتا ہوں وہ تو مجھے مانتا ہی نہیں‘ میں صرف اپنے ماننے والوں کا امتحان لے سکتا ہوں‘‘ میں رکا‘ لمبی آہ بھری اور اپنے دوست سے عرض کیا‘ ہم سب لوگوں کا صرف ایک قصور ہے‘ ہم بت کو مانتے ہیں‘ ہم ریاست کا احترام کرتے ہیں اور ریاست ہر ماہ ہم سے اس احترام کا تاوان وصول کرتی ہے‘ یہ ہمارے جوتوں میں اضافہ کرتی چلی جاتی ہے چنانچہ آپ اگر پجاری ہیں تو پھر پوجا کی سزا بھگتنے کے لیے بھی تیار رہیں‘ یہ ریاست جب تک ہے یہ اپنے ماننے والوں کو اسی طرح سزا دیتی رہے گی‘ تم اس سزا کی عادت ڈال لو‘ تمہارے دن اچھے گزریں گے ورنہ جوتوں کے ساتھ ساتھ پیاز بھی کھانا پڑیں گے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے