تبت سے

پہلا تاثر شدید سردرد‘ گلے میں تکلیف اور سانس میں دشواری تھا‘ ہم لوگ جوں ہی لہاسا کے ریلوے اسٹیشن پراترے‘ ہمیں یوں محسوس ہواجیسے کسی نے ہمارا گلہ دبوچ لیا ہو‘ ہم نے سوچا ہم دنیا کے بلند ترین مقام پر آ گئے ہیں‘ کیا ہم یہاں سے زندہ واپس بھی جا سکیں گے! ریلوے اسٹیشن کی سیڑھیاں چڑھتے ہوئے یہ سوال ہمالیہ بن کر ہمارے سامنے کھڑا ہو چکا تھا۔

تبت دنیا کی چھت ہے‘ یہ زمین کا انتہائی بلند مقام ہے‘ انسانی آبادی اس کے بعد ختم ہو جاتی ہے اور دنیا کے ٹو اور ماؤنٹ ایوریسٹ میں سمٹ کر رہ جاتی ہے‘ تبت 1950ء تک آزاد ملک تھا پھر چین کی فوجیں یہاں داخل ہوئیں‘ 14ویں دلائی لامہ بھارت میں جلاوطن ہوئے اور تبت چین کا حصہ بن گیا تاہم لوگ اپنے ملک کو آزاد سمجھتے ہیں‘ یہ 68سال گزرنے کے باوجود چین کے تسلط کو ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں۔

آپ دنیا کے نقشے میں تبت کو تلاش کریں تو یہ آپ کو ہمالیہ کے انتہائی اوپر ملے گا‘ اس کی ایک سرحد نیپال‘ دوسری بھوٹان‘ تیسری اکسائی چین کے ذریعے بھارت اور چوتھی سنکیانگ سے ہوتی ہوئی پاکستان سے ملتی ہے‘ یہ علاقے ماضی میں تبت کا حصہ ہوتے تھے‘ بھارت کا لداخ بھی تبت میں تھا‘ نیپال کے ہمالیائی پہاڑ بھی‘ بھوٹان کا ایک تہائی حصہ بھی اور موجودہ پاکستان کے تبتی علاقے بھی‘ یہ ماضی میں ایک عظیم بودھ ریاست تھی‘ مہاتما بدھ 480 قبل مسیح میں پیدا ہوئے‘ ان کی تعلیمات بھارت اور پاکستان تک محدود رہیں لیکن بودھ مت نے مضبوط ریاست کی شکل تبت میں پائی۔
دلائی لامہ آج بھی بودھوں کی مقدس ترین شخصیت ہیں‘ یہ پوپ کی طرح پوری دنیا میں عزت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں‘ لہاسا تبت کا دارالحکومت ہے‘ آج سے تیس برس پہلے تک لہاسا پہنچنا ناممکن تھا‘ یہ سطح سمندر سے 3700 میٹر بلند تھا‘ راستے اور سڑکیں تھیں نہیں چنانچہ برف پوش پہاڑوں کے درمیان چل کر لہاسا آنا ممکن نہیں تھا‘ دوسری وجہ آکسیجن کی کمی تھی‘ یہ سطح سمندر سے اتنا بلند ہے جہاں کوئی درخت‘ پودا حتیٰ کہ جھاڑی تک نہیں اگتی چنانچہ لہاسا میں آکسیجن نہ ہونے کے برابر تھی۔

آکسیجن کی اس مقدار میں صرف بودھ بھکشو سروائیو کر سکتے تھے‘ یہ یوگا بھی کرتے ہیں اور انتہائی بلند مقام پر پیدا ہونے کی وجہ سے ان کے جینز بھی کم آکسیجن میں زندہ رہنا سیکھ گئے ہیں‘ لہاسا میں بھیڑوں اور یاک کے علاوہ ان کا کوئی ہم دم نہیں ہوتا تھا‘ بھیڑوں کا گوشت اور یاک کا دودھ ان کا واحد اثاثہ ہوتا تھا لیکن پھر چین نے کمال کر دیا‘ حکومت نے 2006ء میں زمین کے اس بلند تریم مقام کو ٹرین کے ساتھ جوڑ دیا‘ یہ دنیا کی بلند ترین ٹرین ہے‘ یہ ٹرین بیجنگ سے بھی چلتی ہے۔

شنگھائی سے بھی اور زینیگ (Xining) سے بھی‘ بیجنگ سے لہاسا پہنچنے میں 50‘ شنگھائی سے 31 اور زینیگ سے 22 گھنٹے لگتے ہیں‘ یہ ٹرین انجینئرنگ کا کمال ہے‘ چین نے یہ پراجیکٹ ساڑھے چار بلین ڈالر میں دس سال میں مکمل کیا‘ دنیا میں اس سے قبل 17 ہزار فٹ تک ریل کی پٹڑی نہیں بچھائی گئی تھی‘ چین نے اس ناممکن کو ممکن بنانے کے لیے خصوصی لوہا بھی بنایا‘ سیمنٹ بھی اور مشینری بھی‘ یہ خصوصی لوہا سردیوں اور گرمیوں میں پھیلتا سکڑتا نہیں۔

سیمنٹ انتہائی بلندی اور سرد ترین موسم میں جم جاتا ہے جب کہ انتہائی بلندی پر بجلی‘ ٹریک اور پل بنانے کے لیے خصوصی مشینری بھی بنائی گئی لہٰذا لہاسا کے ساتھ ساتھ اس ٹرین پر سفر بھی ایک لائف ٹائم جرنی ہے اور ہم چار لوگ اس تجربے کے لیے 18 مئی کو بیجنگ پہنچے‘ میرے ساتھ سعودی عرب سے انجم فیاض‘ علی رضا اور نعیم ارشد تھے‘ یہ تینوں سعودی عرب میں بزنس کرتے ہیں۔

میں مارچ میں ان کے ساتھ اردن گیا تھا اور یہ اب تبت کے سفر میں میرے ساتھ تھے‘ ان کا خیال تھا ہم نے پانچ مارچ کو دنیا کے پست ترین مقام ڈیڈ سی کی سیر کی اور ہمیں اب دنیا کے بلند ترین مقام کی ’’زیارت‘‘ بھی کرنی چاہیے یوں میں چھ دن دنیا کی چھت پر ان کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہوتا رہا‘ یہ محبت کرنے والے کمال لوگ ہیں۔

ہم نے ٹرین کا چھوٹا روٹ لیا‘ ہم 18 مئی کو بیجنگ پہنچے‘ وہاں سے زینیگ (Xining) کے لیے فلائیٹ لی اور تین گھنٹے میں زینیگ پہنچ گئے‘ یہ ایک بڑاطلسماتی پہاڑی شہر ہے‘ آبادی 23 لاکھ ہے‘ مسلمان 16 فیصد ہیں‘ یہ مسلمان ہزار سال سے شہر میں آباد ہیں‘ شہر کی جامع مسجد اور مسجد کے گرد مسلمانوں کا محلہ دیکھنے کے قابل تھا‘ ہم شام تک مسلمانوں کے درمیان پھرتے رہے۔

خواتین نے اسکارف سے سر ڈھانپ رکھے تھے جب کہ مردوں کے سروں پر ٹوپیاں اور چہرے پر داڑھیاں تھیں‘ ہمیں ہر دکان‘ ہر ریستوران اور ہر چائے خانے میں خواتین کام کرتی نظر آئیں‘ شام کے وقت بازار میں رش بڑھ گیا‘ لوگ افطاری کا سامان خرید رہے تھے‘ فروٹ‘ سبزی‘ نان اور گوشت کی فراوانی تھی‘ دکاندار بھی خواتین تھیں اور خریدار بھی‘ میں نے زندگی میں ایسا دلچسپ بازار نہیں دیکھا۔

میرے ساتھی افطار اور سحری کے لیے تین دن کا سامان خرید رہے تھے اور لوگ ہمیں حیرت سے دیکھ رہے تھے‘ ہم انھیں پاکستان کا بتاتے تھے تو یہ الحمد للہ کہہ کر خوش ہو جاتے تھے‘ ہم بازار سے سیدھے ٹرین اسٹیشن پہنچ گئے‘ زینیگ سے لہاسا 22 گھنٹے کا سفر تھا‘ ٹرین میں تین کلاسز تھیں‘ پہلی کلاس میں ہر ڈبے میں چار بیڈ تھے‘ دو ایک سائیڈ پر‘ دو دوسری سائیڈ پر‘ کمپارٹمنٹ میں ایک ٹی وی اور چھوٹا سا ٹیبل بھی تھا‘ دوسری کلاس میں چھ بیڈ تھے جب کہ تیسری کلاس میں صرف سیٹیں تھیں۔

ہم نے چار بیڈز کا کمپارٹمنٹ بک کرا رکھا تھا‘ کمپارٹمنٹ بہت چھوٹا اور تنگ تھا‘ کھڑکی بھی چھوٹی تھی‘ ٹوائلٹ بھی کامن اور گندا تھا‘ عملہ انگریزی نہیں جانتا تھا چنانچہ ہمیں ’’مذاکرات‘‘ میں خاصی دشواری پیش آتی رہی تھی لیکن یہ جان کر خوشی ہوئی انسان حقیقتاً ابلاغ کے لیے زبان کا محتاج نہیں‘ آپ منہ سے مرغی کی آواز نکال کر‘ اپنی پشت پر ہاتھ مار کر اور ہاتھ سے گول کانشان بنا کر بھی انڈہ مانگ سکتے ہیں۔

ٹرین میں حلال کھانے کی سہولت نہیں تھی‘ میرے ساتھی بازار سے جب دھڑا دھڑ فروٹ خرید رہے تھے تو میں ان کا مذاق اڑا رہا تھا لیکن سچی بات ہے اگر یہ فروٹ نہ ہوتا تو ہم بھوک سے مر گئے ہوتے‘ ہم لوگ سحری اور افطار دونوں اس فروٹ سے کرتے تھے‘ راستے میں اچانک آکسیجن بھی کم ہو جاتی تھی‘ہمارے بیڈ کے ساتھ چھوٹا سا سوئچ نما ڈبہ لگا تھا‘یہ آکسیجن کی سپلائی لائین تھی‘ ہم اس کا ڈھکن کھول کر ڈبے میں آکسیجن پوری کر لیتے تھے‘ ہمارے دائیں بائیں کمپارٹمنٹس میں گورے سیاح تھے‘ یہ لوگ ماؤنٹ ایوریسٹ کے بیس کیمپ تک جانے کے لیے چین آئے تھے۔

میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں تبت ایک ممنوعہ علاقہ ہے‘ آپ صرف چین کے ویزے پر تبت نہیں جا سکتے‘ آپ کوتبت کے لیے اسپیشل پرمٹ لینا پڑتا ہے‘ آپ گائیڈ کے بغیر بھی علاقے میں نہیں پھر سکتے‘ یہ گائیڈ حکومت کے جاسوس ہوتے ہیں‘ یہ سیاحوں پر نظر رکھتے ہیں‘ حکومت نے سیاحوں کی تمام گاڑیوں میں کیمرے بھی لگا رکھے ہیں‘ صحافی‘ لکھاری‘ فلم ساز اور سفارتکار تبت میں داخل نہیں ہو سکتے۔

میں اگر صحافی کی حیثیت سے تبت جانا چاہتا تو یہ تقریباً ناممکن تھا لہٰذا نعیم ارشد نے مجھے کاروباری ساتھی ڈکلیئر کر کے میرا پرمٹ حاصل کیا‘ ٹرین سے لے کر واپسی تک ہر مقام پر پرمٹ اور پاسپورٹ چیک کیے جاتے رہے‘ حکومت نے شاید یہ بندوبست تبت پر اپنا ہولڈ رکھنے کے لیے کیا‘ یہ نہیں چاہتی دنیا تبت کے بارے میں زیادہ جان سکے‘ تبت کے لوگوں کو پاسپورٹ کی سہولت بھی حاصل نہیں‘ یہ لوگ چین کے علاوہ کسی دوسرے ملک نہیں جا سکتے‘ اس پابندی کی وجہ سے لوگ پسماندہ بھی ہیں اور باقی دنیا سے کٹے ہوئے بھی۔

ٹرین سے باہر کے مناظر دلچسپ تھے‘ سبزہ زینیگ کے بعد ہی ختم ہو گیا تھا‘ ہم نے راستے میں 16 گھنٹے خشک پہاڑ دیکھے‘ برف ابھی موجود تھی‘ یہ برف چھوٹی بڑی جھیلوں میں بھی تبدیل ہو رہی تھی‘ راستے میں سفید بھیڑیں اور سیاہ فام یاک بھی دکھائی دے رہے تھے‘ دیہات نہ ہونے کے برابر تھے اور اگر تھے تو یہ دس بیس گھروں سے زیادہ نہیں تھے‘ لوگوں کے رنگ پیلے لیکن گال سرخ تھے‘ یہ پست قامت کے مضبوط کاٹھی کے لوگ تھے‘ یہ ٹرین کو دیکھ کر ہاتھ ہلاتے تھے‘ ٹرین کی واحد تفریح کھانے کا کمرہ اور اس کا انگریزی سے نابلد عملہ تھا۔

مسافر ان سے جو بھی مانگتے تھے عملہ کورس کی شکل میں قہقہے لگاتا تھا تاہم عملہ میری بات آسانی سے سمجھ جاتا تھا‘ گورے سیاح میری اس ’’صلاحیت‘‘ پر بہت حیران تھے‘ میں نے انھیں بتایا‘ آپ لوگ انھیں لفظوں سے سمجھانے کی غلطی کرتے ہیں‘ مختلف خطوں میں مختلف لفظوں کے مختلف معنی ہوتے ہیں مثلاً ایپل ان کی زبان میں سیب نہیں ہوتا عورت کی گھسی ہوئی جوتی ہوتا ہے چنانچہ آپ جب ان سے ایپل مانگتے ہیں تو یہ ہنس پڑتے ہیں جب کہ میں لفظ نہیں بولتا‘ میں صرف آواز نکالتا ہوں اور اشارہ کرتا ہوں چنانچہ یہ میری بات فوراً سمجھ جاتے ہیں۔

آپ بھی لفظ بولنا بند کر دیں یہ آپ کی بات بھی سمجھ جائیں گے‘ میں نے تبت کے اندر بھی اس ’’صلاحیت‘‘ کا بھرپور استعمال کیا ‘ ہم شہر میں مسلمانوں کا ریستوران تلاش کرتے تھے‘ پھر ویٹر اور کک کو سورۃ فاتحہ سنا کرتصدیق کرتے تھے‘ میں آخر میں ویٹر کا ہاتھ پکڑ کر کچن میں لے جاتا تھا اور اسے اشاروں سے کھانے لکھوا دیتا تھا‘ میں پہلے دن مینیو اور ویٹر کو پکڑ کر ساتھ والے کمرے میں لے گیا‘ وہاں کوئی تبتی مسلمان فیملی افطار کر رہی تھی۔

میں نے اونچی زبان میں السلام و علیکم کہا‘ وہ تمام لوگ احتراماً کھڑے ہو گئے‘ میں انھیں مینیو کے مختلف صفحے دکھاتا رہا اور اشارے سے پوچھتا رہا ’’یہ کھانا کیسا ہے‘‘ وہ جس جس کھانے پر ہوا میں انگوٹھا لہرا دیتے تھے میں ویٹر کو وہ کھانا لکھوا دیتا یوں ہمارا کھانے کا آغاز بہت اچھا ہوا‘ ہم نے اس کے بعد اس تکنیک کے ذریعے جی بھر کر عیاشی کی۔

ہم 19 مئی کی شام لہاسا میں اترے تو ہمارے سر درد سے پھٹنے لگے‘ سینے پربھاری پتھر سا آگیا‘ گلہ درد کرنے لگا اور ہمیں چلنے میں دقت ہونے لگی‘ ہمیں یوں محسوس ہوتا تھا زمین ہمارے قدموں کے نیچے سے سرک رہی ہے اور ہم چند لمحوں میں گر جائیں گے‘ یہ تبت کا پہلا تاثر تھا۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے