ترکی کی جانب سے خاشقجی کے قتل کی فراہم کردہ ریکارڈنگ نہیں دیکھ سکتا،انتہائی تکلیف دہ ہے .ٹرمپ

جمال خاشقجی قتل: ٹرمپ سے سعودی ولی عہد محمد بن سلمان کے مبینہ کردار کے تعین کا مطالبہ

امریکی سینیٹرز نے صدر ٹرمپ سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ اس بات کا تعین کروائیں کہ آیا سعودی ولی عہد محمد بن سلمان صحافی جمال خاشقجی کے قتل میں ملوث تھے یا نہیں۔

جمال خاشقجی کو دو اکتوبر کو استنبول میں واقع سعودی عرب کے قونصل خانے میں قتل کر دیا گیا تھا اور ان کی لاش تاحال نہیں ملی ہے۔امریکی سینیٹ کی فارن ریلیشنز کمیٹی کے ریپبلکن اور ڈیموکریٹ رہنماؤں نے منگل کو صدر ٹرمپ کے نام تحریر کردہ خط میں اس قتل میں محمد بن سلمان کے ملوث ہونے کے بارے میں ایک اور تحقیقات کا مطالبہ کیا ہے۔ یہ مطالبہ صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد سامنے آیا ہے جس میں انھوں نے خاشقجی کے قتل کی عالمی مذمت کے باوجود ایک مرتبہ پھر سعودی عرب کے ساتھ امریکہ کے رشتوں کا دفاع کیا ہے۔

صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں کہا کہ سعودی مملکت ‘ایک ثابت قدم پارٹنر’ ہے جس نے امریکہ میں ‘ریکارڈ رقم’ کی سرمایہ کاری پر رضامندی ظاہر کی ہے۔تاہم صدر ٹرمپ نے یہ اعتراف کیا کہ بہت حد تک ممکن ہے کہ سعودی ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان کو خاشقجی کے قتل کے بارے میں معلومات حاصل تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ ‘ایسا بہت حد تک ممکن ہے کہ اس المناک واقعے کا علم ولی عہد کو رہا ہو۔ شاید وہ جانتے ہوں اور شاید نہیں بھی۔ بہرحال ہمارا رشتہ مملکت سعودی عربیہ سے ہے۔’

اس بیان کے بعد انھوں نے یہ بھی کہا کہہ سی آئی اے نے قتل کے متعلق ’100 فیصد‘ تعین نہیں کیا ہے۔
صدر ٹرمپ کے اس بیان کے بعد رپبلکن سینیٹر باب کروکر اور ڈیموکریٹ سینیٹر باب مینینڈز نے سینیٹ کی کمیٹی کی جانب سے بھی ایک بیان جاری کیا ہے۔

اس بیان میں صدر سے مطالبہ کیا گیا ہے کہ وہ ایک اور تحقیقات کروائیں جس کا مرکز ولی عہد ہوں تاکہ یہ ’طے ہو سکے کہ ایک غیرملکی ایک ماروائے عدالت قتل، تشدد یا (حقوقِ انسانی کی) کسی دیگر سنگین خلاف ورزی کا مرتکب تو نہیں ہے‘
کمیٹی کی جانب سے دی جانے والی یہ درخواست گلوبل میگنٹسکی ہیومن رائٹس اکاؤنٹبلٹی ایکٹ کے تحت دی گئی ہے اور چار ماہ میں اس کا جواب دیا جانا ضروری ہے۔

سعودی عرب نے جمال خاشقجی کے قتل کا الزام باغی ایجنٹوں پر عائد کیا ہے اور اس بات سے انکار کیا ہے کہ اس کا علم ولی عہد کو تھا۔ تاہم امریکی ذرائع ابلاغ کے مطابق خفیہ ادارے سی آئی اے کو یقین ہے کہ محمد بن سلمان نے ہی اس قتل کا حکم دیا تھا۔اتوار کو فوکس نیوز کو دیے جانے والے ایک انٹرویو میں صدر نے کہا کہ انھوں نے ترکی کی جانب سے خاشقجی کے قتل کی فراہم کردہ ریکارڈنگ سننے سے یہ کہتے ہوئے انکار کر دیا کہ وہ ‘تکلیف دہ ٹیپ’ ہے۔

[pullquote]آنے والے برسوں میں گہرا سایہ[/pullquote]

دارالحکومت ریاض سے ہماری بین الاقوامی نامہ نگار لیز ڈوسٹ نے کہا کہ یہ سعودیوں اور بطور خاص سعودی رہنماؤں کے لیے راحت کی سانس ہے۔ لیکن یہ وہی ہے جس کی انھیں توقع تھی اور جو انھوں نے ہمیشہ صدر ٹرمپ کے لیے کہا ہے کہ وہ مملکت کے حقیقی دوست ہوں گے۔

طرفین اس بڑے بحران اور اس پر اٹھنے والے عالمی رد عمل کے تحت خط کھینچنا چاہیں گے۔ لیکن جیسا کہ صدر ٹرمپ نے تسلیم کیا اور سعودی جانتے ہیں کہ یہ معاملہ جلد جانے والا نہیں ہے۔ کم از کم امریکی کانگریس میں بہت سے لوگوں کے ساتھ بہت سے دوسرے لوگوں جن میں وہ ممالک بھی شامل ہیں کے لیے یہ معاملے جانے والا نہیں جو اس کے متعلق مزید وضاحت کا مطالبہ کریں گے۔

بہت سے سعودی کہتے ہیں کہ انھیں اس بات پر یقین نہیں کہ ملک کے حقیقی حکمراں شہزادہ ولی عہد محمد بن سلمان نے ایسے نفرت انگیز عمل کا حکم دیا ہوگا۔ بہت سے لوگ جو اپنے ملک کو ترقی کرتے دیکھنا چاہتے ہیں وہ اس قتل سے ہل کر رہ گئے ہوں کے اور انھیں ڈر ہے کہ اس کا گہرا سایہ آنے والے کئی برسوں تک چھایا رہے گا۔ ایک نمایاں سعودی شہری نے کہا کہ ‘اس سے سعودی عرب دس قدم پیچھے چلا گيا ہے۔’ دریں اثنا صدر ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی کے سینیٹر لنڈسے گراہم نے اس معاملے پر سعودی عرب اور مناسب شاہی افراد کے خلاف پابندیاں لگانے کے متعلق کانگریس کے اراکین کے دو خیموں میں مضبوطی کے ساتھ تقسیم کی پیش گوئی کی ہے۔

[pullquote]بیان میں کیا کہا گیا ہے؟[/pullquote]

ایران کے خلاف امریکہ کے اتحادی کے طور پر سعودی عرب کو کھڑا کرنے سے قبل صدر ٹرمپ نے کہا: ‘یہ دنیا بہت ہی خطرناک جگہ ہے!’اس میں کہا گیا کہ سعودی عرب نے ‘ریڈیکل اسلامی دہشت گردی کے خلاف جنگ میں اربوں ڈالر خرچ کیے’ جبکہ ایران نے ‘سارے مشرق وسطی میں بہت سے امریکیوں اور دوسرے معصوم لوگوں کا قتل کیا۔’

بیان میں سعودی عرب کی سرمایہ کاری اور اسلحہ خریدنے کے عہد پر بھی زور دیا گیا۔ اس میں مزید کہا گیا: ‘اگر ہم بے وقوفی میں ان معاہدوں کو منسوخ کر دیتے ہیں تو اس کا بہت بڑا فائدہ روس اور چین کو ہوگا۔’ جمال خاشقجی کے قتل کو ‘ہولناک’ قرار دیتے ہوئے صدر ٹرمپ نے لکھا کہ ان کی موت کے بارے میں ‘شاید ہم لوگ تمام حقائق سے کبھی باخبر نہ ہو سکیں۔”امریکہ اپنے ملک، اسرائیل اور خطے میں دوسرے اتحادیوں کے مفادات کی یقین دہانی کے لیے سعودی عرب کا پکا اور مضبوط پارٹنر رہنا چاہتا ہے۔’بعد میں صدر ٹرمپ نے کہا کہ وہ آئندہ ہفتے ارجنٹائن میں جی -20 کے اجلاس میں محمد بن سلمان سے ملاقات کریں گے بشرطیکہ شہزادہ ولی عہد اس میں شرکت کر رہے ہوں۔امریکی وزیر خارجہ مائیک پومپیو نے اپنے صدر کی حمایت کی ہے اور ترکی کے وزیر خارجہ مولود چاوشوغلو سے ملاقات کے بعد کہا کہ ‘دنیا بہت خراب اور بےرحم ہے’ اور صدر ٹرمپ ‘ایسی پالیسی لینے کے لیے ممنون ہیں جس سے امریکہ کی قومی سلامتی میں مدد ملتی ہے۔’
مسٹر چاوشوغلو نے کہا کہ اس معاملے پر سعودی عرب کی جانب سے تعاون اس سطح پر ‘نہیں ہے جہاں ہم چاہتے ہیں۔’
دوسری جانب ڈیموکریٹک سینیٹر ڈیانے فیئنسٹین نے ایک بیان میں کہا کہ وہ اس بات سے صدمے میں ہیں کہ صدر ٹرمپ محمد بن سلمان کو خاشقجی کے ‘سوچے سمجھے قتل’ کے لیے سزا نہیں دینے جا رہے ہیں۔

[pullquote]
‘سب سے پہلے امریکہ’ کی روح[/pullquote]

واشنگٹن میں بی بی سی کے سینیئر نمائندے اینتھونی زرچر نے کہا کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ دوسرے قسم کے صدر ہیں اور اس کا اظہار ان کی خارجہ پالیسی سے زیادہ کسی اور جگہ نہیں ہوتا اور یہ جائے حیرت بھی نہیں۔ جمال خاشقجی کی موت پر ان کا بیان نہ صرف ان کی دو ٹوک زبان بلکہ کئی وجوہات کے سبب اہم ہے۔

‘صدر تیزی کے ساتھ موضوع کو ایران کی جانب موڑنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ وہ محمد بن سلمان کے قتل کے حکم کی رپورٹ کو شاید ہاں اور شاید نہیں کہہ کر مسترد کر دیتے ہیں۔ وہ سعودی کی جانب سے 450 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری اور اسلحے کی خریداری کے معاشی اثرات کی مثال دیتے ہیں حالانکہ ابھی تک یہ زیادہ تر کاغذی پیمان تک ہی ہے۔’
‘ان کی سب سے بےتکی بات ان کا یہ کہنا ہے کہ سعودی خاشقجی کو ‘ملک کا دشمن’ اور اخوان المسلمون سے رشتہ رکھنے والا مستقل امریکی شہری سمجھتے تھے۔’صدر ٹرمپ نے ‘امریکہ فرسٹ’ یعنی سب سے پہلے امریکہ کے اپنے تناظر کو اس کی روح تک اپنایا ہے۔ اخلاقیات اور عالمی قیادت کو متصور امریکی معیشت اور فوجی سکیورٹی کے پس پشت ڈال دیا گيا ہے۔

[pullquote]بیان بین الاقوامی سطح پر کیا اثر ڈالے گا؟[/pullquote]

بی بی سی کے سفارتی نامہ نگار جوناتھن مارکس کا کہنا ہے کہ مشرق وسطی اور اس کے ماورا کیا حاصل ہوگا یہ سنگین مسئلہ ہے۔ہمارے نامہ نگار نے کہا کہ اس خطے میں امریکہ کی پالیسی دو اہم افراد، سعودی عرب کے محمد بن سلمان اور اسرائیل کے وزیر اعظم بن یامین نتن یاہو، سے اس قدر شیر و شکر ہے کہ اس کا ایک آزاد پنچ کے طور پر خطے میں کیا کردار ہوگا یہ سمجھنا مشکل ہوتا جا رہا ہے۔وہ کہتے ہیں کہ صدر ٹرمپ کے تنگ اور مفاد پرست رویے سے مغرب میں واشنگٹن کے اتحادی مزید ناامید ہوں گے اور اس سے موسکو اور بیجنگ والوں کو قوت ملے گی جو پہلے سے ہی بین الاقوامی امور میں ‘پہلے روس’ اور ‘پہلے چین’ کا راگ الاپ رہے ہیں۔

ایران کے وزیر خارجہ جواد ظریف نے صدر ٹرمپ کے بیان کو ‘شرمناک’ قرار دیتے ہوئے اس پر اپنے غصے کو اس طرح ٹویٹ کیا:’صدر ٹرمپ نے سعودی مظالم پر اپنے شرمناک بیان کا پہلا پیراگراف انتہائی بھونڈے پن کے ساتھ ایران پر ہر قسم کے ناجائز الزام جو وہ سوچ سکتے ہیں ڈالنے کے لیے صرف کیا۔ شاید ہمیں کیلیفورنیا کی آگ کے بھی ذمہ دار ہیں کیونکہ ہم نے جنگل کو اکٹھا کرنے میں مدد نہیں کی — جیسا کہ فن لینڈ والے کرتے ہیں؟’

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے