تفریحی آسانیاں- کیا یہ سیاحت ہے

آجکل سوشل میڈیا پریہ پوسٹ بہت گردش کرتی نظر آتی ہے۔ ہم سب اسکو صدقِ دل سے پڑھتے اور شیرٴ کرتے ہیں اور بوقتِ ضرورت کچھ مخصوص لوگوں کو ٹیگ بھی کر دیتے ہیں جن سے ہمیں یہ گلہ ہو ۔ لیکن ٹائم کی کمی کی وجہ سے یہ بہت کم ہوتا ہے کہ ہم یہ سوچیں کہ ہم نے کسی کے لئےکیا آسانیاں پیدا کی ہیں۔

عید آئی گزر گئ ۔ ہم نے 3 کی بجائے 10 چھٹیاں منا لی۔ خوب ہلہ گلہ کیا، ملاقاتیں کی، گھومےپھرے ۔ اپنے شہر کے پارکوں، شاپنگ مالز کے فوڈ کورٹس سے لیکر مری، نتیھاگلی، کشمیر سے لیکر ناران،کاغان، گلگت، ہنزہ جس کی جہاں تک پہنچ ہوئ سیر سپاٹے کر لئے۔ بچوں نے عیدی اور بڑوں نے حق حلال کی کمائ خوب اڑائ۔ اور اڑانا بھی جائز ؛ جوس، چپس، آئس کریم، ٹافیاں، باہر کے کھانے، کھلونے وغیرہ کیونکہ عید جو تھی۔

لیکن کافی کچھ ناجائزاڑا دیا؛ خالی شاپر، ٹافیوں اور چپس کے ریپر، بچوں کے گندے پیمپر اور وہ سب کچھ جو بظاہر بےکار نظر آیا۔ کتنا مزہ آتا ہے خالی جوس کے ڈبے کو ہوا بھر کےسڑک پہ پھینکنا اور انتظار کرنا کہ کوئ گاڑی گزرے اور پٹاخا بجے۔ وہ ایک لمحہ بھی کیا حسین لگتا ہے جب چلتی گاڑی سے ٹشو پیپر ہوا میں اڑتا ہے اور نظروں سے اوجھل ہو جاتا ہے لیکن غائب نہیں ہوتا بلکہ کسی درخت کی شاخ یا پتھر کی اوٹ میں ٹک جاتا ہے۔

کاغذ پھر شائد گل سڑ کے ختم ہو جاتا ہےلیکن پلاسٹک اور ایسی اشیاء وہیں رہتی اور اپنے ساتھ اور غلاظتیں بھی جمع کرنے لگتی ہیں۔ اب اگر4-6 لوگ کسی جگہ جایئں اور فی بندہ ایک ایک شاپر پھینک دیں اور یہ سلسلہ نسل در نسل چل پڑے تو وہ جگہ ایک خود سا ختہ سا کوڑا دان ہی لگے گی۔ عید اور چھٹیوں کے دنوں میں سیاحوں کی تعداد ہزاروں میں ہوتی ہے۔ اور اسی تناسب سے کوڑے میں اضافہ ہوتا ہے۔

خیبر پختونخوا حکومت کے مطابق اس دفعہ عید کے پہلے تین دن پچیس لاکھ کے قریب لوگوں نے وادی سوات، کالام اور ناران کی سیاحت کی۔ اگر محتاط اندازہ بھی لگایا جائے تو ان پچیس لاکھ لوگوں نے کولڈرنکس کی پچیس لاکھ بوتلیں، چپس کے پچیس لاکھ پیکٹس ، پچیس لاکھ ٹافیاں اور چاکلیٹس کے ، اور ایک لاکھ کے قریب پیمپرز کے ساتھ ساتھ پجاس لاکھ پلاسٹک کا شاپر استعمال کئے ہوں گے۔ لیکن ان کو استعمال کر کے کہاں پھینکا؟

اب بعد میں آنےوالوں سیاحوں اور مقامی لوگوں کے لئے کو نسی آسانی پیدا ہو؟ کوڑا کے ڈھیر اور بدبو میں کیسی تفریح؟ اس بدبو میں انسانوں کی حاجات ضروریہ کی بدبو بھی شامل ہے

ہم تو دو چار دن گزار کے چلے جائیں گے لیکن مقامی لوگوں کو تو وہیں رہنا ہے۔ کسی اور کا نہ سہی اپنا ہی سوچیں کہ دوبارہ ایسی جگہ کیسے آئیں گے؟

جو لوگ وادئ ہنزہ گئے ہیں انکو اندازہ ہوگا کہ اپنی مدد آپ کے تحت وہ علاقہ کتنا صاف ہے۔ جگہ جگہ درختوں کے ساتھ کوڑا دان نصب ہیں، مقامی لوگ انتہائ مہزب اور بااخلاق طریقے سے باہر سے آنے والوں کی رہنمائی بھی کرتے ہیں کہ کوڑا مخصوص جگہوں میں ڈالیں۔ لیکن افسوس کہ وہاں بھی ہم شہری لوگ تہزیب نہ دیکھا سکے۔ اور ان مقامی لوگوں کو بھی مشکل میں ڈال دیا اور ساتھ ساتھ قدرتی حسن کو بھی گہنا دیا۔

عیدالضحیٰ قریب ہے اور پچھلے کچھ سالوں میں حکومتی اقدامات کے باوجودہم لوگ آلایشئں ایسی جگہوں پر پھینک دیتے ہیں کہ گزرنے والوں کے لئے کوئ آسانی نہ رہے۔ اور دوسری جگہوں سے گزرتے اعتراض کرتے ہیں کہ کوئ ہمارا خیال نہیں کرتا ۔

اللہّ ہمیں حقیقی آسانیاں پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے تاکہ بدلے میں ہمیں بھی آسانیاں ملیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے