توپ میں ملبوس شیطان

اڑھائی سال پہلے تک کسی کو خبر نہ تھی کہ اس کرہ ارض پر اسلام کی بنیاد پر قائم کی جانے والی پہلی اسلامی ریاست میں کس طرح اسلامی قوانین کا مذاق اڑایا جارہا ہے کوئی یہ نہیں جانتا تھا کہ سلام سلام اور محمد محمدکا ورد کرنے والے کس طرح محمدی تعلیمات کو بھلا کر عیاشی میں مگن ہیں‘ کوئی یہ نہیں جانتا تھا کا سفید کپڑے زیب تن کرنے والے اندر سے کتنے کالے ہیں۔

خود کو اسلام کا وارث سمجھنے والوں نے جب طاقت کے نشے میں دہت عالمی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہو ئے یمن پرحملہ کیا تو اہل اسلام پر ان کی شیطانی نیت آشکار ہوگئی‘جہاں طاقت کے اس نشے کے منفی اثرات تقریبا تمام اسلامی ممالک پر پڑے وہاں آل سعود بھی اس کی گہری قیمت جھکا رہے ہیں‘دن بدن بگڑتی معیشت‘بجٹ خسارہ اور ریاست میں کاروبارنہ ہونے کے برابر رہ گیا‘کل تک ایک ریال کی خاطر گریبان پکڑنے والے سعودی شہری ان دنوں ایک ہللہ کی خاطر لڑنے مرنے کو تیار ہیں‘اس جنگ کی شروعات کے بعد سعودی عرب جس قدر تیزی سے پستی کی طرف بڑھا تاریخ میں اس کی مثال کم ہی ملتی ہے۔

یمن جنگ کی ابتداء سے لے کر آج تک سعودی عرب کی تنزلی کی وجوہات جاننے کیلئے بین الاقوامی میڈیا نے ریاست کے اندرونی معاملات کو قریب سے دیکھنے کی کوشش کی تو بہت سے راز افشاں ہوئے مگر افسو س کہ یہ راز صرف تحقیق کرنے والے تک ہی محدود رہے۔
کسی نے اپنی قیمت وصول کر کے سب بھلا دیا توکسی کے ادارے نے اسے پالیسی کے برعکس قرار دیا راقم نے کئی بار اس معاملے پر اپنے خیالات کا اظہار کرنے کی کوشش کی لیکن ملک کے نامور اخبار نے خلاف پالیسی قرار دیتے ہو ئے چھاپنے سے انکار کر دیا‘ اگر کوئی سچ عوامے سامنے لانے میں کامیاب ہو بھی گیا تو ریاست کے نمائندے کی ایک تردید نے معاملے کو دبا دیا کیونکہ تردید کیساتھ ساتھ شیخ صاحب کی تصویر والے رنگ برنگے کاغذات بطور ثبوت بھی دئے گئے۔

تازہ ترین مثال ایک سال قبل امریکی نمائندے کی ہے جس نے پوری دنیا کو یہ بتایا تھا کی سعودی عرب میں لیبر کیساتھ غیر انسانی سلوک کیا جاتا ہے اسکے بعد سعودی سفیر نے اس حقیقت کی تردید کی اور معاملہ دبا دیا گیا‘ آج میں یہ سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھ رہا ہوں اور میں سعودی عرب کی اس قدر بگڑتی صورتحال کہ وجہ بھی سعودی شہریوں کے اس غرور کو سمجھتا ہوں جو انہیں انسان اور حیوان میں فرق نہیں کرنے دے رہا‘میرا یہ ماننا ہے کہ خدا جب کسی قوم کو عطاء کرتا ہے تو پھر اس سے حساب بھی لیتا ہے مجھے ایسا لگتا ہے کہ آلِ سعود کے حساب کے دن شروع ہونے والے ہیں یا ہوچکے ہیں۔

ہو سکتا ہے ناچیز کا اندازہ غلط ہو لیکن میں جب دیکھتا ہوں کہ ایک سعودی شہری بیچ بازارکسی خارجی کو گردن سے پکڑتا ہے اور اسے اپنا جوتا دکھاتے ہوئے کہتا ہے میرے سامنے تمہاری یہ اوقات ہے تو میرا دل یہ ماننے کو تیار نہیں کہ اس خارجی کی آہ آسماں تک نہ پہنچے‘پھر میں دیکھتا ہوں کہ آل سعود کا کوئی چشم چراغ اپنے گھر کی تزین آرائش کے بعد خارجی کو اجرت دینے سے یہ کہتے ہوئے انکاری ہو جاتا ہے ’انا سعودی‘میں یہ بھی دیکھتا ہوں ایک سعودی نوجوان ایک عمر رسیدہ خارجی کو بیچ بازار حیوان کہہ کر پکارتا ہے لیکن خارجی کی مجبوریاں اس کے لبوں کو سی دیتی ہیں‘جب کسی کفیل کا بیٹا آکر غلے سے جتنے مرضی پیسے نکال کر لے جاتا ہے غلہ خالی ہونے خارجی کی جیب تک سے پیسے نکال کر لے جاتا ہے اور خارجی بے بس ہوجاتا ہے۔

اگر ظلم یہاں پر تھم جاتا تو شاید آلِ سعود کا امتحان بھی اس قدر سخت نہ ہوتا ظلم کی انتہا تو یہ ہے کہ جب کو خارجی فریاد لے کر تھانے کا رخ کرتا ہے تو وہاں بیٹھے شخص کی محبتوں کا مرکز بھی آل سعود ہی ہیں‘ اقامہ‘مھنہ اور کا غذی معاملا ت میں خارجی کو اس طرح الجھا دیا جاتا ہے کہ بے چارے کے پاس خدا سے فریاد کے سواکوئی چارہ باقی نہیں رہتا پھر خدا تو انصاف کرتا ہے لیکن بے بسی کی انتہا تو تب ہوتی ہے جب کوئی قوم سزا کو امتحان سمجھتے ہوئے اپنی غلطی پر ڈٹی رہے یہاں بھی شاید کچھ ایسا ہی ہے۔

لکھنے کو ان کے بہت سے کالے کرتوت ہیں کہ شاید انسانیت بھی شر ما جائے لیکن یہ قوم آج بھی اندھیرے میں ڈوبی ہے سچ یہ برداشت کرنے سے قاصر ہیں اگر یہ تحریر بھی ان کی نظر سے گزر گئی تو شاید مجھے ملحد قرار دے کر کال کوٹھری میں ڈال دیا جائے کیونکہ ان کی امارات کی بنیادیں ہی جھوٹ پر مبنی ہیں اور انکا سب سے بڑا دشمن وہ ہے جو انہیں آئینہ دکھاتا ہے یا یہ کہ یہ آئینے کے سب سے بڑے دشمن ہیں شاید یہ توپ میں ملبوس شیطان ہیں؟

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے