تھر میں قحط کا ذمہ دار کون؟

تھر صوبہ سندھ کا وہ خوبصورت حصہ ہے جسے صحرا کی جنت بھی کہا گیا یے ۔ صحرائے تھرکی اکثریت آبادی ہندوؤں پر معید ہے۔ تھر میں غذائی قلت کی وجہ سے بچوں کی اموات کا سلسلہ جاری ہے اور یہ بات کوئی نئی نہیں ہے۔ آبادی، تعلیم، میڈیا اور آگاہی کے بڑھنے کے بعد تھری لوگوں کو پتا لگا کہ اگر انسان چاہے تو ان اموات، خشک سالی، غذائی قلت کو روکا جا سکتا ہے۔ ورنہ تو یہ لوگ بھگوان کی ناراضگی سمجھ کے وقت گذارتے تھے اور سمجھتے ہیں کہ یہ سب کچھ ان کی ناراضگی کی وجہ سے ہو رہا ہے۔

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو ان اموات، قحط کا ذمہ دار اپنے آپ کو سمجھتے ہیں کہ یہ سب ان کے گناہوں کی وجہ سے ہو رہا ہے۔ غذائی قلت کا شکار یہ لوگ دن رات ہری مرچ اور پیاز کھا کر گذارا کرتے ہیں۔ جہاں جانور اور انسان ایک ہے تالاب سے پانی پی کر متعدد بیماریاں کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اگر یہ سب دیکھتے ہوئے بھی ہم خاموش رہیں، اور بے حسی اور نا اہلی کا مظاھرہ کریں تو پھر کیسے نہ ہو وہاں موت کا منظر۔

تھری لوگوں کا کیا قصور کہ وہ صدیوں سے اس استحصال کا شکار ہوتے آ رہے ہیں۔ تھر کے سیاست دان، بیوروکریٹس بابو، سب لاٹ صاحب ہیں۔ جہاں پانی ناپید ہو، کھانے کو کچھ نہ ہو، وہاں افسران،ڈاکٹر کیوں آئینگے۔ اگر کبھی نظر بھی آ جائیں تو ان غریبوں کو پوچھنے والا کوئی نہیں۔ ان غریب سادہ لوح لوگوں کے پاس پیسے کہاں سے آئیں کہ یہ اپنے بچوں کے لئے دوائیں خریدیں اور کیسے بڑے شھر جاکر علاج کروائیں۔

یہ کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے جب میڈیا میں تھر کے بچوں کی اموات کے بارے میں خبریں نشر ہونے لگیں اور سندھ کے چیف مینسڑ، وزراء، افسران تھر تشریف لے گئے اور کچھ اعلانات ہوئے کہ ان غریبوں کی غذائی قلت اور غربت ختم کی جائے۔ اس کے بعد ایک دن سرکاری گودام پر چھاپہ پڑا اور میڈیا پر خبر چلی کہ تھری لوگوں کی امداد والی ادویات، اور منرل واٹر بعد از مدت والی ہو گئیں تھیں اور گندم چوہے کھا گئے۔


اس بار بھی شاید کچھ ایسا ہی ہوگا۔ تھوڑی سی سیاسی بیان بازی ہوگی، شور شرابا ہوگا۔ اور پھر لمبی چپ۔ میڈیا میں خبر شائع ہوگی کہ تھر میں قحط اور غذائی قلت کی وجہ سے اموات ہو رہی ہیں اور پھر بلاول بھٹو نوٹس لیں گے۔ ان غریبوں کی تھوڑی بہت سنی جائے گی۔ اور پھر اگلے قحط کا انتظار ہوگا۔ یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم ہولی منانے، جلسہ کرنے تو تھر جاتے ہیں۔

مگر ہمیں خلق خدا کو دیکھنے لے لئے قحط کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ اور ہم ھمیشہ اس انتظار میں ہوتے ہیں کہ جب تھر میں قحط شدت اختیار کر جائے تو ہم اس کا نوٹس لیں۔ خدارہ بغیر نوٹس بھی اقدامات کریں اور تھری لوگوں کو تھوڑا سا جینے کا حق دیں۔ ورنہ یہ معصوم لوگ ابھی تک اس بھو ک پیاس، غربت و افلاس، قحط اور اموات کا ذمہ دار بھگوان اور اپنے آپ کو سمجھتے ہیں انھیں آپ سے کوئے گلا نہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے