تیسری عالمی جنگ کا شوشہ کیوں چھوڑا جارہا ہے ؟

دو ہزار ایک میں صدر بش نے دنیا کو پرامن بنانے کا نعرہ لگایا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہا تھا کہ اگر عراق اور افغانستان میں حملہ نہ کیا گیا تو یہ دنیا غیر محفوظ ہو جائے گی۔ ان کا کہنا تھا کہ افغانستان میں جمہوریت، امن اور خواتین کی آزادی ضروری ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں دنیا کو امن کا گہوارہ ہونا چاہیے ۔۔ اس میں کوئی شک نہیں امن بھی ہونا چاہیے اور خواتین کو حقوق بھی ملنے چاہیں۔۔۔ لیکن میرا سوال یہ ہے کہ کیا دنیا 2001ء سے پہلے زیادہ محفوظ تھی یا اب ہے ؟ میرا سوال یہ ہے کہ آپ نے جس فوجی طریقے سے امن لانے کا سوچا، وہ طریقہ کامیاب ہوا کہ نہیں ؟ کیا آپ کلسٹر بموں نے دنیا کو محفوظ بنایا یا نہیں۔۔ کیا عراق کے لوگوں کو سکھ کا سانس ملا کہ نہیں؟ ۔۔ آپ نے جتنے بھی اہداف بتائے، جتنے بھی لولی پوپ دیے، جتنے بھی نعرے لگائے سب کے سب غلط ثابت ہوئے یا نہیں؟ کوئی ایک ایسا ملک دیکھا دیجیے ، جہاں آپ نے امن کے نام پر قدم رکھا ہو اور وہاں واقعی امن قائم ہو گیا ہو؟

دہشت گردی کے خلاف شروع کی گئی ’نام نہاد جنگ‘ کی وجہ سے اب تک دس لاکھ سے تیرہ لاکھ شہری ہلاک ہو چکے ہیں، زخمیوں کے تعداد اس سے بھی کئی گنا زیادہ ہے۔ بے گھر ہونے والوں کی تعداد بھی کروڑوں تک پہنچ چکی ہے۔۔ جس علاقے میں پہلے ’دہشت گردوں‘ کی تعداد ایک سو تھی اب وہاں ایک ہزار ہو چکی ہے۔

لیکن ان تمام حقائق کے باجود یہ کہا جا رہا ہے کہ شام اور عراق اور دوسرے علاقوں میں بمباری کا سلسلہ تیز کر دیا جائے گا تا کہ دنیا میں ’امن قائم‘ ہو سکے۔ آپ جتنی مرضی بمباری کر لیں اس کا نتیجہ وہی نکلنا ہے، جو ابھی تک نکلا ہے۔۔ مزید عسکریت پسندوں کی پیداوار، مزید ہلاکتیں اور مزید مہاجرین۔۔۔ اگر دنیا کی تمام تر عسکری طاقتیں مل کر، جدید ترین اسلحے کے ہمراہ، کھربوں ڈالر خرچ کر کے صرف افغانستان اور عراق کے حالات نہیں بدل سکے تو یقین کیجیے شام کے بھی نہیں بدل سکتے۔

اگر آپ دنیا کا بچانا چاہتے ہیں تو آپ کو فیئر کھیلنا ہو گا۔ آپ کو مذاکرات کرنا ہوں گے، آپ کو نام نہاد جمہوریت کو مسلط کرنے کے بجائے وہاں تعلیم عام کرنا ہوگی، وہاں اسلحے کی فروخت بند کرنا ہو گی۔ لیکن آپ کو وہاں تعلیم کی نہیں وہاں کے معدنی ذخائر اور تیل کی فکر ہے۔ آپ کو مرسی پسند نہیں، آپ کو رجب طیب پسند نہیں، آپ کو ہر وہ شخص نہ پسند ہے، جو آپ کے مفادات کا تحفظ نہیں کرتا۔ آپ کو اپنے دوہرے معیار ختم کرنا ہوں گے، اگر سعودی عرب، کویت، قطر ایسے ملک اپکے اتحادی ہیں، آپ کے مفادات کا خیال رکھ رہے ہیں تو سب ٹھیک ہے اور اگر نہیں رکھتے تو وہاں راتوں رات جمہوریت کا قیام دنیا کے امن کے لیے ضروری ہو جائے گا۔

ابھی تک آپ نے وہی طریقہ اپنایا ہے، جس کے تحت مقامی حکومتیں آپ کے مفادات کا خیال رکھ سکیں اور اس کا نتیجہ اب آپ کے سامنے آ رہا ہے۔ آپ کا دل چاہے تو طالبان فریڈم فائٹر ہیں اگر دل نہ چاہے تو وہ دہشت گرد ہیں۔ آپ کا دل چاہے تو قذائی کے خلاف لڑنے والے باغی ہیں اور انہیں اسلحہ فراہم کرنا جائز ہے اور جب دل نہ چاہے تو دہشت گرد ہیں۔ آپ کا جب دل چاہے تو طالبان ایسے دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات ناممکن ہیں اور جب دل چاہے تو یہ کہنے سے بھی نہیں شرماتے کہ ان کے بغیر افغانستان میں امن ممکن نہیں۔

آپ کا دہشت گردی کے خلاف جنگ کا نعرہ ایسے ہی ہے، جیسے یہ کہا جائے کہ کسی لڑکی کے کنوار پن کے لیے اس کے ساتھ جنسی زیادتی ضروری ہے۔ چودہ برس پہلے صدر بش نے القاعدہ کو نست و نابود کرنے کا نعرہ لگایا تھا۔ اس ہفتے فرانسیسی صدر نے داعش کو نست و نابود کرنے کا نعرہ لگایا ہے۔ اور اگر پالیسی بم ہی رہے تو پانچ سال بعد کوئی اور لیڈر داعش سے بھی جابر تنظیم کے خلاف یہی نعرہ لگا رہا ہوگا۔۔ اس سارے کھیل میں کیپلٹزم کی موجیں لگی ہوئی ہیں لیکن انسانیت ماری جا رہی ہے۔ اگر یہ بموں کی پالیسی تبدیل نہ ہوئی تو سمجھیے یہی تیسری عالمی جنگ ہے، جو مزید پھیلے گی اور اس کا آغاز ہو چکا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ان تمام معاملات میں صرف اور صرف مغرب کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا لیکن صرف ’عسکریت پسند ‘ تنظیموں کو بھی نہیں ٹھہرایا جا سکتا، جو آپ کے ہی اسلحے کی بنیاد پر پروان چڑھی ہیں۔ یہ تالی دونوں ہاتھوں سے بج رہی ہے اور میری نظر میں بطور ’ریاست اور مہذب جمہوریت‘ کے آپ کا قصور زیادہ ہے۔

لیکن دوسری جانب امریکا اور اس کے اتحادیوں کی ان تمام تر دوہری پالیسیوں کے باوجود کسی بھی عسکری گروپ کے ایسے اقدام کی حمایت نہیں کی جاسکتی، جس میں عام شہریوں کو نشانہ بنایا جائے۔ کسی بھی جہادی کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ وہ جب چاہے ، جہاں چاہے عام شہریوں کو ہلاک کرنا شروع کر دے۔

میرا عسکری تنظیموں سے سوال ہے کہ آپ نے خودکش حملوں کے ذریعے اسلام کی کونسی خدمت کی ہے؟ آپ ان حملوں کے ذریعے کونسی جنگ رکوانے میں کامیاب ہو گئے ہیں ؟ کونسی مغربی پالیسی تبدیل کروانے میں کامیاب ہو گئے ہیں؟ آپ کے خود کش حملوں میں ہلاک ہونے والے عام شہریوں کی مائیں، بہنیں ، بچے آج تک آپ کو جھولیاں اٹھا اٹھا کر بد دعائیں دے رہے ہیں۔ آپ کے حملوں کی وجہ سے لاکھوں لاوارث ہونے والے افراد روٹی کے ایک ایک لقمے کو ترس گئے ہیں۔ آپ نے خاندان کے خاندان اجاڑ کر رکھ دیے ہیں۔ اتنے لوگ امریکا اور اس کے اتحادیوں کی بمباری میں ہلاک نہیں ہوئے، جتنے آپ نے مار دیے ہیں۔ اگر امریکا پر تنقید کی جائے تو ماسوائے لاشوں کے آپ نے کیا دیا ہے اس دنیا کو، اس پاکستان کو ؟۔۔۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے