جب استاد بنا جلاد……

آج کا استاد۔۔۔۔ پڑھتا جا، شرماتا جا۔۔۔

ماضی کے جھروکوں سے اگر ہارون الرشید اور مامون الرشید کو شہرت ملی تھی تو اس کا ایک بڑا حصہ استاد کے ہاتھ آیا تھا۔ گویا شاگردوں نے ایک دوسرے پر سبقت لی کہ جوتا کون استاد تک پہنچائے گا۔۔۔ اسلام میں استاد کو بہت بڑا مقام حاصل ہے۔ میں نے ساتویں کلاس میں پہلی بار سنا تھا کہ استاد روحانی باپ ہوتا ہے تو ابو سے گھر واپسی پر پوچھا تھا کہ یہ روحانی باپ کیا ہوتا ہے؟؟؟

تسلی بخش جواب ملنے کے بعد آج 2019 تک میں اس بات کو ذہن نشین کیے ہوئے ہوں، اور ایسا ہی ایک بار مجھے بھی اپنے استاد “فدا حسین شاہ” صاحب کے جوتے صاف کرنے کا موقع اس وقت میسر آیا جب وہ لاہور میرے پاس آئے اور صبح جب میں نے ان کے جوتے پالش کر کہ ان کو پہننے کو دئیے تو ان کی آنکھوں میں چمک آگئی۔۔۔ یہ وہ لمحہ تھا جب میں نے بھی فخر محسوس کرتے ہوئے ایک لمبی سانس بھری کہ چلو میں نے بھی مامون الرشید اور ہارون الرشید کی طرح کا کام سر انجام دیا ہے۔

فدا حسین شاہ صاحب ابھی حیات ہیں اور تراڑکھل میں ہی اپنی پینشن کے بعد کی زندگی گزار رہے ہیں۔ وہ بھی بہت محظوظ ہوئے اور جب کبھی ان سے آن لائن یا جب پاکستان میں تھا علیک سلیک ہوتی تھی تو وہ اکثر مجھے فرمانبردار شاگرد گردانتے تھے۔ لیکن حقیقت تو یہ ہے کہ وہ لمحہ رب نے میری ان کی نظروں میں عزت بڑھانے کے لئے ہی لایا تھا۔۔۔ ان کی بے شمار دعائیں مجھے ملیں اور شاید کہ یہ اسی کا ثمر ہے کہ میں آج تک پڑھ رہا ہوں۔۔۔

اس تفصیلی پس منظر بیان کرنے کی ایک وجہ یہ ہے کہیں نہ کہیں کچھ ایسا واقعہ رونما ہوا ہے کہ مجھے ہارون الرشید اور مامون الرشید یاد آئے۔۔۔ اس استاد کی کیا شان ہو گی جس کے لئے وقت کے خلیفہ دوڑے۔۔۔؟

لیکن جو بات میں ابھی تحریر کرنے جا رہا ہوں، اس کو پڑھ کر شعبہ تعلیم سے تعلق رکھنے والے ہر مرد و عورت کا سر شرم سے جھک جائے گا، ندامت محسوس ہو گی اپنے آپ کو دور حاضر کا استاد کہتے ہوئے۔ آج کا استاد کو “روزانہ کی بنیاد کا آجر” بن کر رہ گیا ہے۔ اسے پیشے سے زیادہ اپنے جاہ و جلال کی پڑی ہے۔

وڈیو میں واضح طور پر سنا اور دیکھا جا سکتا ہے کہ صرف ایک غیر حاضری کی بنیاد پر ایک شاگرد کو اتنا پیٹا کہ اس کا چلنا محال ہو گیا۔

راولاکوٹ کے ایک نجی پولیٹیکنکل کالج کے ایک استاد حلیم بشیر نے تراڑکھل کے نواحی گاؤں بالیماں کے ایک طالب علم محسن عزیز کو اتنی بے دردی سے پیٹا کہ وڈیو دیکھنے والا ہر شخص کانپ اٹھا۔ محسن عزیز سول انجینرنگ کا طالب علم ہے، جو نہایت شریف، ملنسار، اور محنتی طالب علم ہے۔

محسن عزیز کی وڈیو کو میرے اطالوی پروفیسرز اور کورس میٹس نے دیکھنے کے بعد کہا کہ کیا آج بھی آپ کے ہاں سکول، کالجز میں ایسا ہوتا ہے؟؟؟ متعدد نے تو یہ بھی کہا کہ ہم جنگلی جانوروں کے ساتھ بھی ایسا سلوک روا نہیں رکھتے جو ممتاز آپ کے ہاں کالجوں میں رکھا جاتا ہے۔ اطالوی شہر “انکونہ” سے میری لینگویج کی پروفیسر “مس برونہ” نے مجھے فیس بک پر رابطہ کرکہ کہا کہ “حسین” آپ تو ہمیں بڑی کہانیاں سنایا کرتے تھے کہ ہمارے ہاں استاد ایسے ہوتے ہیں، لیکن وڈیو دیکھنے کے بعد تو ایسا لگتا ہے کہ جیسے آپ نے ہمیں غلط تصویر دیکھائی تھی۔

میرے ساتھ انٹرنیشنل یونیورسٹی آف لینگویجز اینڈ میڈیا کے پرو ریکٹر سمیت متعدد پروفیسرز سوشل میڈیا پر رابطے میں ہیں، اور انھوں نے وڈیو دیکھنے کے بعد مجھ سے طرح طرح کے متعدد سوالات کئے۔

محسن عزیز میری کزن کا بڑا بیٹا اور ایکسیئن برقیات بھمبر خالد صدیق کا بھانجا ہے اس کی وڈیو دیکھنے کے بعد میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا کہ کیا کہوں۔ اس آرٹیکل کے لکھتے وقت تک محسن عزیز کا میڈیکل سی ایم ایچ راولاکوٹ میں ہو چکا تھا جبکہ ایس ایچ او راولاکوٹ نے صبح ایف آئی آر درج کرنے اور مزید کارروائی کی یقین دہانی کروائی ہے۔

دوسری جانب جب کالج کے پرنسپل خورشید خان سے رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی تو وہ بھی کسی قسم کی تفصیل سے آگاہ کرنے کیلئے میسر نہ تھے۔۔۔ اب یہاں سوال یہ ییدا ہوتا ہے کہ استاد کی شکل میں چھپے ہوئے درندوں کو کے کرتوت سامنے آنے کے بعد بھی ان کو درندگی پھیلانے کا موقع فراہم کیا جائے گا ، یا کہ ایسے افراد کو قرار واقعی سزا دے کر مستقبل کے لئے نشان عبرت بنایا جائے گا؟؟؟

مشاہدے میں آیا ہے کہ اس استاد اور شاگردوں کی عمر میں کوئی واضح بڑا فرق بھی نہیں ہے. جس کی وجہ سے اس نے اپنے رتبے کا نا جائز فائدہ اٹھاتے محسن عزیز کو تشدد کا نشانہ بنایا ہے. ایسے اداروں کو چاہیے کہ وہ اساتذہ کی تقرری کرتے وقت ان پیچیدگیوں کو مد نظر رکھیں تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات کی روک تھام میں مدد مل سکے.

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے