جب طالبان نےجمال خان کی بانسری توڑ دی

خیبرپختونخوا کے دور دراز علاقے ملاکنڈ کا رہائشی جمال خان ستار، بینجو، گٹار، بانسری اور ماؤتھ آرگن بجاتا ہے۔ یہ فن اس نے کسی استاد سے نہیں بلکہ خود اپنی ہی محنت سے سیکھا ہے۔ جمال خان کے مطابق وہ اکثر سکول اور کالج میں دوستوں کے درمیان بیٹھ کر اپنے فن کا مظاہرہ کرتا تھا۔

جمال خان

ماضی کے جھروکوں کو یاد کرتے ہوئےجمال خان کہتا ہے کہ 2007-08 کی ایک سرد شام کو ملاکنڈ ڈویژن میں طالبانائزیشن عروج پر تھی، ہر جگہ طالبان آتے جاتے ۔ اسی شام وہ اپنے گھر کے پیچھے گل بابا قبرستان میں بیٹھے بانسری بجارہا تھا۔

وہ بانسری کے سروں میں گم تھا ، چودھویں کا چاند آسمان کے دامن میں چمک رہا تھا، پرکیف ماحول اور خاموشی نے اس شام کو اور رنگین و خوبصورت بنایا تھا ۔ اسی اثنا میں چار بندے اس کی طرف تیزی سے بڑھ رہے تھے۔

جمال کہتے ہیں ’انہوں نے چہرے چھپائے ہوئے تھے ،چاروں کے ساتھ کلاشنکوف تھے، انہوں نے کوئی بھی بات کئے بغیر مجھے مارنا شروع کیا۔ ایک بندہ جس کی بڑی داڑھی تھی، اس نے مجھ سے بانسری لے لی اور پاؤں تلےرکھ کر اسے توڑ دیا ‘‘۔ یہ خوفناک منظر اور واقعہ بتاتے ہوئے جمال خان ہچکیاں لیتے ہوئے بولا ’’میری بانسری کے ساتھ ان کی کیا دشمنی تھی‘‘؟

جمال خان گفتگو کرتے ہوئے سسکیاں لے رہا تھا، ساتھ بیٹھے انکے بھائی فخرعالم نے کہا کہ جمال اس رات گھر نہیں لوٹا۔نماز فجر کے وقت ان کے چچا آئے اور کہا کہ جمال اس سرد رات میں باہر بیٹھا کیا کررہا ہے؟جب وہ قبرستان گئے تو جمال رورہا تھا اور بانسری ٹوٹی زمین پر پڑی تھی۔ ’’ میں جمال کو گھر لے گیا اور اس کے بعدمسلسل 9 سال جمال کا علاج جاری رہا، آج اللہ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ جمال خان 90فیصد زندگی کی طرف لوٹ آیا ہے‘‘۔

فخر عالم (جمال خان کا بھائی)

فخرعالم حکومت اور قانون نافذ کرنے والے اداروں سے بھی شکوہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ جو چیزیں یا جو جگہیں ظاہری طور پر خراب یا بگڑ گئے تھے اسے ٹھیک کردیا گیا لیکن جمال اور جمال جیسے سینکڑوں نوجوان جو ذہنی طور پر متاثر ہوگئے ہیں، ان کے لئے حکومت نے کوئی ٹراما سنٹر یا ایسی جگہ نہیں بنائی جہاں علاج کی سہولتیں موجود ہو اورایسے متاثرہ لوگ (نوجوان لڑکے یا لڑکیاں) عام زندگی میں واپس آنے کے قابل ہوسکے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے