جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی درخواست کی سماعت کرنے والے سات ججز کا شخصی خاکہ

سپریم کورٹ کے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے جون 2019 میں اپنے خلاف سپریم جوڈیشل کونسل میں دائر ہونے والے صدارتی ریفرنس کو اگست 2019 میں سپریم کورٹ میں چیلنج کیا تھا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے بعد پنجاب بار کونسل کے علاوہ تمام صوبائی بار کونسلز، پاکستان بار کونسل اور سُپریم کورٹ بار کونسل سمیت کُل چھ بار کونسلز اور انسانی حقوق کے معروف کارکن آئی اے رحمان نے بھی معروف قانون دان عابد حسن منٹو کے ذریعے قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو چیلنج کر رکھا ہے۔ جسٹس قاضی فائز عیسٰی نے ایک مُتفرق درخواست میں سپریم جوڈیشل کونسل کے چیئرمین چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ پر تعصب کا الزام بھی لگایا ہے۔ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے ان تمام آئینی درخواستوں کی سماعت کے لئے سات رکنی لارجر بنچ تشکیل دے دیا ہے جو منگل 17 ستمبر 2019 کو صُبح 9 بج کر 30 منٹ پر ان درخواستوں کی سماعت شروع کرے گا۔

دلچسپی کے ساتھ ساتھ حیرت کی بات ہے کہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بنائے لارجر بنچ میں جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی اپنے خلاف صدارتی ریفرنس کو چیلنج کرنے والی آئینی درخواست کی سماعت کرنے والوں میں سے دو ججز جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سُپریم کورٹ سے رُخصتی سے براہِ راست مُستفید ہوتے ہیں۔

ان میں جسٹس سردار طارق مسعود کو جسٹس عیسیٰ کے گھر بھیجے جانے کی صورت قریباً چھ ماہ کے لئے چیف جسٹس بننے کا موقع ملتا ہے، ورنہ وہ بطور سینیئر جج سپریم کورٹ ریٹائر ہو جائیں گے، جب کہ جسٹس اعجاز الاحسن کو بطور چیف جسٹس عہدے کی معیاد میں توسیع مِل جاتی ہے۔

اس لارجر بنچ کی تشکیل میں ایک اور دلچسپ پہلو یہ بھی ہے کہ وفاق کی چاروں اکائیوں میں سے سب سے طاقتور صوبہ پنجاب کی نمائندہ پنجاب بار کونسل نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے خلاف ریفرنس کو چیلنج نہیں کیا اور اب پنجاب کے پاس نہ صرف لارجر بنچ کی سربراہی ہے بلکہ چار پنجابی ججز کی صورت بنچ میں فیصلہ کُن برتری بھی حاصل ہے اور یوں چار پنجابی ججز کی اکثریت، دو سندھ اور ایک پختون جج کی اقلیت کے ساتھ مل کر سپریم کورٹ کے واحد بلوچ جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی قسمت کا فیصلہ کریں گے۔

بہرحال اب آپ کو لارجر بنچ میں موجود سات ججز کا وہ شخصی خاکہ بتاتے ہیں جو سپریم کورٹ کی ویب سائٹ پر موجود نہیں ہے اور یہ خاکہ قارئین کی دلچسپی کا باعث یوں ہوگا کہ وہ ان خاکوں کو ذہن میں رکھ کر سماعت کا احوال اور ججز کے ریمارکس پڑھیں۔ آئیے اِن سات ججز کی پروفائل پڑھیے۔

[pullquote]جسٹس عُمر عطا بندیال[/pullquote]

لاہور ہائی کورٹ کے جون 2012 سے جون 2014 تک تقریباً دو سال چیف جسٹس رہنے والے جسٹس عُمر عطا بندیال سول لا مُقدمات کے ماہر جج ہیں۔ وزیراعظم عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے والے جسٹس عُمر عطا بندیال پیپلز پارٹی کی قیادت کے خلاف جعلی بنک اکاونٹس سو موٹو بنچ، عمران خان کی رہائش گاہ سمیت بنی گالہ میں غیر قانونی تعمیرات کو ریگولرائز کرنے والے بنچ، سابق وزیراعظم نوازشریف کو ن لیگ کی صدارت سے نااہل کرنے والے بنچ، اصغر خان فیصلہ عملدرآمد بنچ، ن لیگ کے خواجہ آصف کی نااہلی کالعدم قرار دینے والے بنچ، آئین کے آرٹیکل باسٹھ ون ایف میں نااہلی کی مُدت طے کرنے والے بنچ اور جج ارشد ملک وڈیو سکینڈل کیس بنچ کا بھی حصہ رہے۔

پنجاب کی انتہائی بااثر جاگیردار برادری بندیال کے سپوت جسٹس عُمر عطا بندیال اپنی زرعی اراضی پر کاشت ہونے والی فصلوں اور اُن سے ہونے والی آمدن میں ذاتی دلچسپی لیتے ہیں۔

سپریم کورٹ کی عمارت میں فرسٹ فلور پر اپنے دوست جسٹس اعجاز الاحسن کے چیمبر کے بالکل سامنے چیمبر رکھنے والے جسٹس عُمر عطا بندیال کا درخواست گُزار جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے بہت ہی واجبی سا تعلق ہے۔ جسٹس عُمر عطا بندیال کو جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس گلزار احمد، جسٹس سردار طارق مسعود، جسٹس سردار فیصل عرب کے قریب سمجھا جاتا ہے۔

بطور سینیئر جج لاہور ہائی کورٹ 2009 میں سابق چیف جسٹس افتخار چوہدری کی منعقد کردہ انٹرنیشنل جوڈیشل کانفرنس کے شُرکا کے ڈِنر کی پنجاب ہاؤس میں میزبانی کرنے والے جسٹس عُمر عطا بندیال اب بھی عموماً پشاور سے چپل کباب منگوا کر ساتھی ججوں کی دعوت کرتے رہتے ہیں۔ لارجر بنچ کے سربراہ جسٹس عُمر عطا بندیال یکم فروری 2022 کو ریٹائر ہونے والے چیف جسٹس گُلزار احمد کے بعد چیف جسٹس آف پاکستان کے عہدے کا حلف لیں گے جب کہ جسٹس بندیال کے ایک سال سات ماہ چیف جسٹس رہنے کے بعد جسٹس قاضی فائز عیسیٰ 16 ستمبر 2023 کو چیف جسٹس آف پاکستان کا حلف لیں گے۔ اور ستمبر 2023 کی پاکستان کے بظاہر طے شدہ ریاستی منظرنامہ میں بہت اہمیت ہے کیونکہ اگلے عام انتخابات کا انعقاد ستمبر 2023 میں ہی متوقع ہے جب سپریم کورٹ میں نئے چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ حلف لے رہے ہوں گے۔

لیکن اب اِس کا انحصار جسٹس عُمر عطا بندیال کی سربراہی میں سات رُکنی بنچ کے فیصلہ پر ہے کہ جسٹس عُمر عطا بندیال منصبِ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو سونپ کر جائیں گے یا ان کی سربراہی میں لارجر بنچ کا فیصلہ اپنے رُکن جج جسٹس سردار طارق مسعود کے چیف جسٹس بننے کی راہ ہموار کر دے گا۔ ماضی میں سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے انتہائی قابلِ اعتماد جسٹس عُمر عطا بندیال اب موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بھی بہت قریب ہیں۔ مُقتدر اداروں میں جسٹس عُمر عطا بندیال کو انتہائی احترام کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

[pullquote]جسٹس مقبول باقر[/pullquote]

سندھ ہائی کورٹ کے قریباً ڈیڑھ سال چیف جسٹس رہنے والے اُردو سپیکنگ جج جسٹس مقبول باقر نے فروری 2015 میں سُپریم کورٹ کے جج کا حلف لیا۔ سول اور کرمنل لا کے ماہر جسٹس مقبول باقر جب سندھ ہائی کورٹ کے سینیئر جج تھے تو جون 2013 میں اُن پر خودکش حملہ بھی ہوا تھا جِس میں اِن کے ڈرائیور سمیت 9 سکیورٹی اہلکار شہید ہو گئے تھے۔ فروری 2015 میں سپریم کورٹ کا جج بننے والے جسٹس مقبول باقر ن لیگ کے سینیٹر نہال ہاشمی کو توہینِ عدالت پر نااہل قرار دینے والے بنچ، کراچی میں ناجائز تجاوزات کے خاتمے والے بنچ اور کراچی کے تین ہسپتالوں کا انتظامی کنٹرول وفاق کی طرف سے اپنے ہاتھ میں لینے کو اٹھارہویں ترمیم کی روح کے منافی قرار دینے والے بنچ کا حصہ رہے۔

جسٹس مقبول باقر زیادہ تر فرسٹ فلور پر اپنے چیمبر تک ہی محدود رہتے ہیں لیکن نرم مزاج اور شریف النفس جج کی شہرت رکھتے ہیں جو صرف اپنے کام سے کام رکھتے اور زیادہ گُھلتے ملتے نہیں۔ جسٹس مقبول باقر کا چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ اور درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ دونوں سے ہی واجبی سا تعلق ہے۔ خود کُش حملے سے بچ نکلنے کے بعد سے جسٹس مقبول باقر کے بارے میں مُقتدر ادارے عموماً اچھا تاثر رکھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس منظور ملک[/pullquote]

تین ماہ تک لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے اور کرمنل لا کے ماہر کی پہچان رکھنے والے جسٹس منظور ملک جون 2015 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ جسٹس منظور ملک تحریکِ لبیک کے مولانا خادم رضوی کی ضمانت لینے کے خلاف پنجاب حکومت کی اپیل کے بنچ، لاپتہ افراد انکوائری کمیشن کے نگران بنچ کے رُکن رہے جبکہ دلچسپی کی بات ہے کہ جسٹس منظور ملک نے سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے ن لیگ کے کھوکھر برادران اور پاکستان کڈنی اینڈ لیور پلانٹ کے خلاف دیے جانے والے فیصلوں کو بھی کالعدم قرار دیا۔

جسٹس منظور ملک کمال کی حسِ مزاح رکھتے ہیں اور اپنے عملے سمیت ساتھی ججوں سے بھرپور مذاق کرتے ہوئے ہر طرح کے الفاظ کا آزادانہ استعمال کرتے ہیں۔ مڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے جسٹس منظور ملک میں غرور بالکل نہیں۔ فرسٹ فلور پر چیمبر رکھنے والے جسٹس منظور ملک کی جسٹس سردار طارق مسعود اور جسٹس فیصل عرب سے اچھی دوستی ہے۔ جسٹس منظور ملک کا چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے ورکنگ ریلیشن شِپ ٹھیک ہے۔ 30 اپریل 2021 کو ریٹائر ہونے والے جسٹس منظور ملک کے بارے میں مُقتدر ادارے تصادم نہ کرنے والے جج کا تاثر رکھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس سردار طارق مسعود[/pullquote]

جون 2015 کو لاہور ہائی کورٹ سے سپریم کورٹ پہنچنے والے جسٹس طارق مسعود بھی کرمنل لا کے چیمپئن جج ہیں۔ جسٹس سردار طارق مسعود کھوکھر برادران کا نام ای سی ایل پر ڈالنے کا سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کا فیصلہ کالعدم قرار دینے والے بنچ، ستمبر 2018 میں حافظ سعید کی جماعت الدعوۃ کو فلاحی سرگرمیوں کی اجازت دینے والے بنچ، ن لیگی رہنما طلال چوہدری کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کرنے والے بنچ اور لاہور میں مشہور زین قتل کیس کی سماعت کرنے والے بنچ کا حصہ رہے ہیں۔ جسٹس فیصل عرب کے چیمبر کے بالمقابل چیمبر رکھنے والے جسٹس سردار طارق مسعود زیادہ گھُلنے ملنے والے جج نہیں ہیں لیکن جسٹس منظور ملک سے دوستی ہے اور جسٹس عُمر عطا بندیال سے بھی بہتر تعلقات ہیں۔ پاکستان کے سب سے قابل کرمنل لا کے وکیل سردار اسحاق کے گھر کی لِفٹ کے حادثے میں جاں بحق ہو جانے کے بعد سے کہا جاتا ہے کہ ان کے بھائی جسٹس سردار طارق مسعود کی شخصیت مزید کم گو اور نرم مزاج ہو گئی ہے۔

اگر درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کو گھر بھیج دیا گیا تو جسٹس سردار طارق مسعود ستمبر 2023 میں قریباً چھ ماہ کے لئے چیف جسٹس بن سکتے ہیں ورنہ وہ مارچ 2024 میں بطور سینیئر جج سپریم کورٹ ریٹائر ہو جائیں گے۔ جسٹس سردار طارق مسعود سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے بعض انتظامی امور پر اپوزیشن کرتے رہے اور چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے ساتھ بھی صرف ورکنگ ریلیشن شِپ رکھتے تھے لیکن پِچھلے چند ماہ میں چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ نے خصوصی توجہ دے کر ان کو اپنے قریب کیا ہے۔ پاکستان کے مُقتدر ادارے جسٹس سردار طارق مسعود تصادم میں جائے بغیر قانون پر چلنے والے جج کے طور پر جانتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس فیصل عرب[/pullquote]

قریباً دس ماہ تک سندھ ہائی کورٹ کے چیف جسٹس رہنے والے جسٹس فیصل عرب دسمبر 2015 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ سُپریم کورٹ آنے سے قبل سول لا کے ماہر جسٹس فیصل عرب سابق آمر جنرل مشرف کے خلاف سنگین غداری کے مُقدمہ کی سماعت کرنے والے بنچ اور بعدازاں سُپریم کورٹ پہنچ کر سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف پاکپتن اراضی کیس کے بنچ، بحریہ ٹاؤن کی غیر قانونی قبضہ شُدہ ہزاروں ایکڑ زمین کو 460 ارب روپے میں ریگولرائز کرنے والے بنچ، پاک تُرک سکول ایجوکیشنل فاؤنڈیشن کو کالعدم تنظیم قرار دینے والے بنچ، پرائیویٹ سکولوں کی فیس کیس کے بنچ اور وزیراعظم عمران خان کو صادق اور امین قرار دینے والے بنچ کا حصہ رہے ہیں جبکہ تحریکِ انصاف کے سربراہ عمران خان کی نااہلی کی درخواستوں کو مُسترد کرنے والے فیصلہ کے ساتھ جسٹس فیصل عرب نے ایک اضافی نوٹ بھی لکھا جِس میں ان کا مؤقف تھا کہ نوازشریف اور عمران خان کے کیس میں کیا فرق ہے۔

جسٹس فیصل عرب فرسٹ فلور پر جسٹس سردار طارق مسعود کے چیمبر کے بالکل سامنے چیمبر میں بیٹھتے ہیں لیکن زیادہ گُھلتے ملتے نہیں ہیں۔ جسٹس فیصل عرب کے جسٹس یحییٰ آفریدی اور جسٹس مُنیب اختر سے اچھی بنتی ہے۔ طبعیت اور گفتگو میں نرم مزاج جسٹس فیصل عرب نومبر 2020 میں سینیئر جج سپریم کورٹ ریٹائر ہو جائیں گے۔ جسٹس فیصل عرب کے درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تعلقات واجبی سے ہیں لیکن سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے قریب رہنے والے جسٹس فیصل عرب کو موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کا بھی مکمل اعتماد حاصل ہے۔ زرعی زمینیں رکھنے والے سندھی جج جسٹس فیصل عرب کو مقتدر ادارے بہت احترام کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

[pullquote]جسٹس اعجاز الاحسن[/pullquote]

تقریباً سات ماہ تک چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ رہنے والے جسٹس اعجاز اُلاحسن جون 2016 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ جسٹس اعجاز الاحسن کو کارپوریٹ لا کا ماہر جج مانا جاتا ہے۔ جسٹس اعجاز الاحسن تین دفعہ کے وزیرِ اعظم نواز شریف کو تاحیات نااہل قرار دینے والے بنچ، پاک تُرک سکولوں کا کالعدم تنظیم قرار دینے والے بنچ، بیرسٹر فہد ملک قتل کیس کے بنچ، پرائیویٹ سکولوں کی فیس کیس بنچ، سابق وزیراعظم نوازشریف کے خلاف پاکپتن اراضی کیس بنچ اور سابق وزیرِ اعظم نوازشریف کو ن لیگ کی صدارت کے عہدہ کے لئے بھی نااہل قرار دینے والے بنچ کا حصہ رہے ہیں جبکہ جسٹس اعجاز الاحسن سابق وزیراعظم نواز شریف کے خلاف نیب ریفرنس کی سماعت کرنے والی احتساب عدالتوں کے نگراں جج بھی تھے۔

فرسٹ فلور پر جسٹس عُمر عطا بندیال کے چیمبر کے بالکل سامنے چیمبر میں براجمان جسٹس اعجاز الاحسن عموماً دوپہر کا لنچ جسٹس بندیال کے ساتھ ہی کرتے ہیں۔ سنجیدہ مزاج جسٹس اعجاز الاحسن سُپریم کورٹ کے انتظامی امور میں سخت مُنتظم کے طور پر جانے جاتے ہیں۔ جسٹس اعجاز الاحسن کے درخواست گزار جج جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے تعلقات انتہائی واجبی سے ہیں اور اگر جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا سپریم کورٹ سے ہٹا دیا گیا تو جسٹس اعجاز الاحسن کی مُدتِ چیف جسٹس میں قریباً سات ماہ کی توسیع ہو جاتی ہے۔

سابق چیف جسٹس ثاقب نثار کے انتہائی قریب رہنے والے جسٹس اعجاز الاحسن کے موجودہ چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ سے بھی اچھے تعلقات ہیں۔ مِڈل کلاس گھرانے سے تعلق رکھنے والے جسٹس اعجازالاحسن کو مُقتدر اداروں میں خصوصی احترام حاصل ہے۔

[pullquote]جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل[/pullquote]

قریباً ایک سال آٹھ ماہ تک چیف جسٹس پشاور ہائی کورٹ رہنے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل دسمبر 2016 میں سپریم کورٹ کے جج بنے۔ کرمنل لا کے ماہر جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل حدیبیہ پیپر ملز کیس میں نیب کی اپیل مُسترد کرنے والے بنچ اور توہینِ مذہب کے مقدمہ میں آسیہ بی بی کی سزا کالعدم قرار دینے والے بنچ کے حصہ بھی رہے۔ فرسٹ فلور پر کارنر والا چیمبر رکھنے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل سنجیدہ مزاج جج ہیں جو زیادہ گُھلتے ملتے نہیں۔

جولائی 2022 میں سینیئر جج سپریم کورٹ ریٹائر ہونے والے جسٹس مظہر عالم خان میاں خیل کے بارے میں مُقتدر اداروں میں بائے دا بُک چلنے کا تاثر پایا جاتا ہے۔

بشکریہ نیا دور

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے