جمال خاشقجی کا قتل: اردوغان اپنے پتے احتیاط سے کیوں کھیل رہے ہیں؟

ترکی کے رجب طیب اردوغان کسی پر گرجنے برسنے سے کم دریغ ہی کرتے ہیں۔ ان کے نشانے پر آنے والوں کی فہرست لمبی ہے: اقوامِ متحدہ، یورپی یونین، اسرائیل، فرانسیسی دانشور، نیدرلینڈز، جرمنی ۔۔۔ ان میں سے موخرالذکر دونوں ملکوں کو وہ ‘نازی’ اور ‘فاشسٹ’ قرار دے چکے ہیں۔

اب اس کا موازنہ اردوغان کے سعودی عرب کے شاہ سلمان سے اندازِ تخاطب سے لگائیے، جنھوں نے تسلیم کر رکھا ہے کہ جمال خاشقجی استنبول میں ان کے قونصل خانے میں قتل ہوئے: ‘میرے پاس شاہ سلمان کی دیانت پر شک کرنے کی کوئی وجہ نہیں ہے۔’

ان کے ترجمان نے سعودی عرب کو ‘دوستانہ اور برادرانہ ملک’ قرار دیا۔

اس کے باوجود ترکی حکومت سے وابستہ میڈیا کی جانب سے لگاتار ایسی خبریں افشا کی جا رہی ہیں جن کی وجہ سے ریاض کے گرد شکنجہ تنگ سے تنگ تر ہوتا جا رہا ہے اور اس خیال کو روز بروز تقویت ملتی جا رہی ہے کہ نوجوان ولی عہد کو اس بھیانک قتل کا علم تھا یا پھر انھی نے اس کا حکم دیا تھا۔

[pullquote]اردوغان کون سی چالیں چل رہے ہیں؟[/pullquote]

ماہرین کے مطابق اس ‘ہاتھ ہلکا رکھنے’ کے پیچھے کی وجہ ترکی اور سعودی عرب کے نازک مگر اہم تعلقات ہیں۔ اردوغان نہیں چاہتے کہ اس مرحلے پر یہ تعلقات چکناچور ہو جائیں۔ اس لیے وہ یہ تو چاہتے ہیں کہ شاہ سلمان کچھ اقدامات کریں، لیکن وہ براہِ راست حملہ کرنے سے کترا رہے ہیں۔

صدر کے ایک قریبی ماخذ نے بتایا: ‘اگر اردوغان بادشاہ سے کہیں کہ وہ محمد بن سلمان کو برطرف کر دیں تو اس کا یہی نتیجہ نکلے گا کہ بادشاہ ولی عہد کو کبھی بھی برطرف نہیں کریں گے۔’

اردوغان نے پارلیمان میں تقریر میں محمد بن سلمان کا نام تک نہیں لیا۔ ایسا انھوں نے جان بوجھ کر کیا کہ ولی عہد ان کے ہم مرتبہ نہیں ہیں۔

ان کا مقصد ولی عہد اور بادشاہ کے درمیان دراڑ پیدا کرنا ہے۔ لیکن اس کی کنجی انقرہ میں نہیں، واشنگٹن میں ہے۔

اگر ڈونلڈ ٹرمپ، جو ولی عہد کے کٹر حمایتی ہیں، اپنا زور ولی عہد مخالف پلڑے میں ڈال دیں تبھی شاہ سلمان سنجیدگی سے اس آپشن پر غور کرنے پر مجبور ہو جائیں گے۔

[pullquote]طاقت کی مقامی بساط[/pullquote]

تاہم اس کے باوجود ابھی تک 82 سالہ بادشاہ کی جانب سے اپنے بیٹے سے کسی قسم کی دوری کا اظہار سامنے نہیں آیا۔

خاشقجی کے قتل کے بعد ان کا پہلا فیصلہ سعودی انٹیلی جنس کے ڈھانچے میں تبدیلی تھا، اور اس عمل کی باگیں انھوں نے کسی اور کے نہیں، اپنے شہزادے کے ہاتھوں ہی میں تھمائی ہیں۔

اس سب کے پیچھے طاقت کا علاقائی کھیل ہے۔

اسلام کے مقدس ترین مقامات کا وارث ہونے کے ناطے ترکی سعودی عرب کا احترام کرتا ہے، اور یہ بات ترکی کی اسلام پسند حکومت کے اندر پوری طرح سے محسوس کی جا سکتی ہے۔

لیکن مسلم دنیا کے سربراہ کی حیثیت سے ولی عہد اردوغان کے حریف کا روپ دھار چکے ہیں۔ انھوں نے قطر کا محاصرہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا، جو مشرقِ وسطیٰ میں ترکی کا سب سے اہم اتحادی ملک ہے۔ انھی نے اخوانِ مسلمین کا ناطقہ بند کیا کیا، جو اردوغان کی اے کے جماعت کے قریب سمجھی جاتی ہے۔

دوسری طرف ولی عہد اسرائیل کے قریب آنے کی کوشش کر رہے ہیں، جس کے اردوغان کٹر مخالف ہیں۔ پھر ولی عہد ایران کو آنکھیں دکھا رہے ہیں، حالانکہ ترکی اس سے تعلقات بہتر بنانے کے لیے کوشاں ہے۔

اس سے ریاض اور انقرہ مقامی سیاست کی بساط پر ایک دوسرے کے مدِ مقابل آ گئے ہیں۔

[pullquote]اردوغان کا پرخطر کھیل[/pullquote]

اردغان کو احساس ہے کہ اس وقت سعودی عرب بیک فٹ پر ہے اور ان کے پاس موقع ہے کہ وہ اس شخص کو مزید نیچا دکھانے کی کوشش کریں جسے ترکی کے ایک حکومت نواز کالم نگار ‘ترکی کا دشمن’ قرار دے چکے ہیں۔

اس حقیقت نے اردوغان کے عزم کو مزید پختہ کر دیا ہے کہ عرب امارات اور مصر سعودی عرب کی حمایت میں ایک دوسرے سے بڑھ کر دہرے ہوئے جا رہے ہیں۔ انقرہ کی دونوں کے ساتھ کھینچاتانی چل رہی ہے۔

امارات کے بارے میں ترکی کو شک ہے کہ اس نے 2016 میں ہونے والی ترک بغاوت کو ہوا دی تھی۔ اردوغان حال ہی میں انھیں ‘قابلِ رحم لوگ’ کہہ چکے ہیں، اور وہ کبھی اس بات کو نہیں بھول سکیں گے کہ مصر کے صدر السیسی نے وہاں سے اخوان المسلمین کا قلع قمع کر دیا ہے۔

پھر یہ بھی ہے کہ سعودی عرب کے مبینہ ‘ہٹ سکواڈ’ کے جہاز استبول سے ریاض لوٹتے ہوئے قاہرہ اور پھر دبئی میں ایندھن بھرنے کے لیے رکے تھے۔

اردوغان کی پالیسی خطرے سے خالی نہیں۔ ایم بی ایس ابھی بھی طاقتور ہیں اور اگر وہ اس تمام معاملے سے کسی طرح بچ نکل آئے تو سعودی عرب پر ممکنہ طور پر آنے والے کئی عشروں تک ایک ایسے شخص کی حکومت ہو گی جس کے دل میں ترکی کی جانب کدورت ہو گی۔

ولی عہد کے جمال خاشقجی کے بیٹے (جنھیں ملک چھوڑنے کی اجازت نہیں) سے مصافحے کی تصویر نشر ہونے سے ظاہر ہوتا ہے کہ ابھی تک باگ ڈور انھی کے ہاتھ میں ہے۔ اس تصویر کا پیغام ہے: ہم نے معاملات طے کر لیے ہیں، اس لیے اسے ہضم کرو۔‘

فی الحال وائٹ ہاؤس بھی ولی عہد کے ساتھ کھڑا ہے۔ صدر ٹرمپ کے داماد اور سینیئر مشیر جیرڈ کشنر کہتے ہیں: ‘ہمیں مختلف ذرائع سے حقائق موصول ہو رہے ہیں۔ جب سب حقائق موصول ہو جائیں گے، تب وزیرِ خارجہ اور ہماری قومی سلامتی کی ٹیم ہمیں یہ فیصلہ کرنے میں مدد دے گی کہ ہم کس بات پر یقین کرنا چاہتے ہیں۔’

پیغام سیدھا سادا ہے: ایک بیانیہ ترتیب دو اور اس اپنے حامیوں کو بیچنا شروع کر دو۔

بڑے سے بڑے جاسوسی ناول میں بھی اتنا مصالحہ نہیں ہوتا: ایک ہولناک قتل، اسے چھپانے کی بھونڈی کوشش، مقامی تعلقات میں اکھاڑ پچھاڑ، واشنگٹن اور مشرقِ وسطیٰ کے تعلقات نازک موڑ پر، تجارتی معاہدوں کی کشش۔

اگر سعودیوں نے سمجھا تھا کہ استنبول میں جو کچھ ہوا وہ اسے جلدی جلدی پسِ پشت ڈال کر لوگوں کے حافظے سے مٹا دیں گے تو یہ ان کی تاریخ کی سب سے بڑی غلطی ثابت ہو سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے